|
8 مئی کو ساری دنیا
میں تھیلیسیمیا انٹرنیشنل ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن
صرف سماجی ادارے اپنے طورپرمناتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ملک میں بسنت، ویلنٹائن
اور مدر ڈے کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور جوش و خروش بھی نظر آتا ہے لیکن
تھیلیسیمیا کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ تھیلیسیمیا ایک جنیاتی Genetic
بیماری ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کو ہر ماہ ایک سے دو بوتل خون اور روزانہ
ڈیفرال انجکشن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم سے زائد آئرن کا اخراج ممکن ہوسکے۔ یہ
مرض زیادہ تر ان خاندانوں میں پایا جاتا ہے جہاں کزن میرج کا رواج زیادہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں اس بات کو اجاگر کیا جائے کہ شادی سے قبل
کیریئر ٹیسٹ ضرور کروایا جائے۔
|
نیز یہ کہ ملک میں کئی مقامات پر اینٹی نیٹل
ڈانی گنوسٹک کی سہولتیں بھی موجود ہونا چاہئیں تاکہ دوران حمل بچے میں اس مرض
سے متعلق تشخیص کی جا سکے۔ اس بات کی مثال
سائیرس اور یونان میں موجود ہے کہ وہاں چرچ اور حکومت نے شادی سے قبل اس ٹیسٹ کو
لازم قرار دیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج وہاں تھیلیسیمیا کا مریض پیدا ہی
نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح خوشی کے دن منائے جاتے ہیں اسی طرح سے یہ
دن Help For Needy ڈے کے طور پر منایا جائے۔ میڈیا پر مذاکرے ہوں۔ مریضوں سے ملاقات
کا شو ہو اور ان کے والدین کے مسائل پر گفتگو ہو اور سب سے بڑی کہ اس کے ممکنہ
سدباب پر غور کیا جائے۔ نوجوانوں کو دعوت دی جائے کہ اس روز وہ اپنے خون کا عطیہ ان
اداروں میں جا کر دیں جو اس قسم کے مریضوں کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لوگوں کو
چاہئے کہ وہ اس روز ان سماجی اداروں میں جا کر ان مریضوں سے ملاقات کریں۔ انہیں
تحائف دیں اور ان سماجی اداروں کی حوصلہ افزائی کریں جو ان مریضوں کے لیے گراں قدر
خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مریضوں سے ملاقات کے بعد ہی ہم میں یہ احساس اجاگر ہوگا
کہ اس معاشرے میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے کہ جن کی زندگیوں کادارو
مدار ہمارے عطیہ کیے ہوئے خون پر ہے۔ ہم نے ویلنٹائن ڈے اور بسنت تو بہت منالی ۔ آج
کا دن ہم صرف اور صرف ان مریضوں کے لیے مختص کر دیں۔ یہ بات تو ہم روز ہی سنتے ہیں
کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کوبچالیااورہمارے
نوجوانوں کو چاہئے کہ آج کے دن ان مریضوں کے لیے صرف چند لمحات نکال لیں تاکہ ان کی
حوصلہ افزائی ہوسکے۔
تحریر: راجہ ذوالفقار علی |