یو ای ٹی ٹیکسلا کی باتیں

؂ کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی زخم چھپاؤں اپنے
کہتے ہیں کہ ٹیلنٹ کبھی چھپتا نہیں۔یہ بات یو ای ٹی کے سٹوڈنٹس پر بہت جچتی ہے ۔جتنا ٹیلنٹ یو ای ٹی ٹیکسلا میں پایا جاتا ہے شاید ہی کسی اور یونیورسٹی میں پایا جاتا ہو۔اس بات کا اندازہ یو ای ٹی کے سٹوڈنٹ ویک میں ہونے والے کارنیوال ایونٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔دوسری یونیورسٹیز میں لوگ کارنیوال ایونٹ پہ مختلف سٹالز پر چیزوں کی خریداری کرتے ہیں،کنسرٹ سے محظوظ ہوتے ہیں اور ایونٹ کے رنگارنگ ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔لیکن یو ای ٹیکسلا میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں کارنیوال ایونٹ میں لڑکے گانے ڈیڈیکیٹ کر کے خوب ناچتے ہیں، علاقائی رقص ، بھنگڑا حتیٰ کہ لڈیاں ڈالی جاتی ہیں۔لڑکے تو ایسے ناچتے ہیں جیسے ان کی لاکھوں روپے کی لاٹری نکل آئی ہواور لڑکیاں ان کا تماشا دیکھتی ہیں۔یہاں سٹالز پر خریداری نہیں کی جاتی بلکہ سٹالز والوں کو تنگ کیا جاتا ہے کچھ بیچارے جو کمزور دل ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہوتی ہیں وہ کنسرٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یو ای ٹی میں ایڈمشن کے لئے طلباء 12 سال 3 مہینے(ایف ایس سی) یا 13سال 3مہینے(ڈپلومہ ہولڈرز)محنت کرتے ہیں۔3 مہینے کا سن کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 3مہینے انٹری ٹیسٹ دینے میں خوار ہوتے ہیں۔اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد اگرغلطی سے یو ای ٹی ٹیکسلا میں کسی سٹوڈنٹ کا ایڈمشن ہو بھی جائے تو پہلے دن سے اس کا برا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ شکر ہے کہ یو ای ٹی دیکھنے میں خوبصورت ہے لیکن اندر سے توبہ!پہلے دن نئے ڈرے ہوئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں جو رجسٹریشن کے لئے ایڈمن سے رجسٹریشن فارم نکلوانے، ٹیچرز سے دستخط کرانے، سینئر سٹوڈنٹس سے کسی جگہ کا ایڈریس پوچھنے حتیٰ کہ فوٹو کاپی والے کی شاپ پر پرنٹ نکلوانے کے لئے ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں۔
؂ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
عاشقی میں عزت ِسادات بھی گئی
آئیے میں آپ کو یو ای ٹی کی ایک جھلک دکھاتا ہوں۔

ہاسٹلز ہیں پر جگہ نہیں،گورنمنٹ یونیورسٹی ہے پر فیس کم نہیں، جمنیزیم ہے پر آلات نہیں، لیبز ہیں پر سہولیات نہیں، سٹاف ہے پر کام نہیں، ڈسپنسری ہے پر ڈاکٹر نہیں، مریض ہے پر دوا نہیں، واش رومز ہیں پر ٹونٹیاں نہیں، مسجد ہے پر چھت نہیں، بسیں ہیں پر چلتی نہیں، انٹرنیٹ ہے پر سپیڈ نہیں، ایس ایس سی ہے پر سستی نہیں، لڑکیاں ہیں پر انٹریکشن نہیں، وی سی ہے پر ایکشن نہیں، اے ٹی ایم ہے پر چلتی نہیں، بینک ہے پر پیسے نہیں، ٹیچرز ہیں پر مخلص نہیں، جنریٹر ہے پر بجلی نہیں، سڑکیں ہیں پر صاف نہیں، انجینئرنگ یونیورسٹی ہے پر احساس نہیں، سٹوڈنٹس ہیں پر پڑھتے نہیں، علاقائی کمیونیٹیز ہیں پر اتحاد نہیں، گاڑیاں ہیں پر پارکنگ لاٹ نہیں، ہاسٹلز ہیں پر گیسٹ رومز نہیں، انجینئیرز ہیں پر وہ بات نہیں، گارڈز ہیں پر سیفٹی نہیں، پانی ہے پر صاف نہیں، فنڈز ہیں پر حساب نہیں، کیفے ہیں پر معیاری نہیں، فوٹوکاپی شاپ ہے پر سستی نہیں، مسلمان ہیں پر اخلاق نہیں، سوسائیٹیز ہیں پرمتحرک نہیں، ڈگری ہے پر جاب نہیں اور تو اور CGPA 70% سے بھی زیادہ ہے پر لیپ ٹاپ نہیں!

یو ای ٹی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں پر مشینیں تیار کی جاتی ہیں کیونکہ یو ای ٹی کے سٹوڈنٹ پڑھتے کم اور شغل بہت لگاتے ہیں۔یو ای ٹی کی سب سے معیاری چیز شغل ہے! یہاں تعلیم یا پروجیکٹ کے حوالے سے اتنی ریسرچ نہیں ہوتی جتنی ریسرچ شغل پر ہوتی ہے۔یہاں آئے دن یو ای ٹی کے لڑکے شغل کا ایک نیا طریقہ ڈھونڈتے ہیں، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اس ادارے کا نام یو ای ٹی(یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) نہیں بلکہ ایس یو ای ٹی( شغلیہ یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) ہونا چاہیے۔یہاں میں چند ایک مشاغل کا ذکر ضرور کرونگا۔ نئے سال کی رات سبھی سٹوڈنٹس کا اکٹھا ہونااور ڈھول بجاتے ہوئے پوری یونیورسٹی کا چکر لگانا،گیٹ نمبر 1 پہ جا کے پٹاخے چلانا اور گرلز ہاسٹلز کے سامنے جا کے تب تک ڈھول بجاتے رہنا جب تک کہ لوگوں کی نیندیں حرام نہ ہو جائیں۔یہ شغل کاایک انداز ہے۔لیکچر کے دوران ٹیچرز کو تنگ کرنا ، کسی طرح جلدی لیکچر ختم کرانا یہ بھی شغل ہے۔کسی کی سالگرہ پر جوتوں والا ہار پہناکر اسے پوری یونیورسٹی میں گھمانا ،مارمار کر اس کا براحال کردینااور اس سے زبردستی ٹریٹ لینا بھی شغل ہے۔پیپر کے دن ڈے سکالرز کا ہاسٹلائڈز کو یہ کہنا کہ یار میں نے تو آج ایک لفظ بھی نہیں پڑھا، رات ساری سویا رہا ۔یہ سن کر ہاسٹلائڈز کا چین کا سانس لیناکیونکہ انھوں نے پڑھنا تو ہوتا نہیں اور پھر ڈے سکالرز کا CGPA 3.5سے زیادہ آنا اورہاسٹلائڈز کا CGPA 2.5 سے نیچے آنا بھی شغل ہے۔اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہو اور وہ لڑکی کسی دوسرے لڑکے سے بات کر رہی ہوتواس عاشق کو یہ کہہ کہہ کر اس کا جینا محال کر دینا بیھی شغل ہے کہ
" اب تو اسے اپنی بہن مان لے یار! "

یہاں لڑکوں اور لڑکیوں میں عجیب تعصب پایا جاتا ہے۔ اگر ایک لڑکا اپنی کلاس فیلوسے اکیلے میں بات کر لے تو اسکے دوست اسکی اتنی گندی کرتے ہیں کہ وہ بیچارہ دوبارا کسی لڑکی سے ملنے کی جرأت نہیں کرتا۔کسی نے نیا لیپ ٹاپ،موبائل،کیمرہ حتیٰ کہ ہیئر ٹرمر بھی لیا ہو تو اس سے زبردستی ٹریٹ لینا بھی ایک شغل ہے۔خوشی ہویا غمی ،تعلیم ہو یا کھیل، گرمی ہو یا سردی،پارٹی ہو یا ٹرپ، پیپر ہو یالیکچرشغل تو ضرور لگے گا۔ بقول میرے دوست اظہر محمود(PMLN)
"یو ای ٹی کی ہر چیز شغل ہے، چِل (chill) مارو یار! "

آئیے! آپکو یو ای ٹی کے میس ہال کی سیر کراؤں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ فلاں یونیورسٹی کے میس میں مکھی ملی،فلاں یونیورسٹی کے میس میں ٹڈی نکل آئی لیکن یو ای ٹی کے میس کی تو الگ ہی بات ہے۔ یو ای ٹی کے میس میں مکھی اور ٹڈی کے ساتھ ساتھ کنکر،شیشے کے ٹکڑے اورکاکروچ کا ملنا معمولی بات ہے۔حتیٰ کہ پچھلے دو ہفتے کا بچا ہوا سالن دوبارہ فرائی کر کے پندرہویں دن یو ای ٹی ٹیکسلا کے نوجوانوں کو اسطرح پیش کیا جاتا ہے جیسے اس سے لذیذ کھانا کہیں نہیں ملے گا۔میس ہال میں بلیوں کا اندر آنا جانا بالکل فری ہے۔شکر ہے کہ ہال کے اندر کوئی اور جانور نہیں ہوتے ورنہ میس ہال میں سٹوڈنٹس کم اور جانور زیادہ ہوتے ۔کچن میں کام کرنے والے افراد کا بلڈٹیسٹ تو کیا جاتا ہے کہ کہیں انھیں کوئی بیماری نہ ہو لیکن ان کی صفائی کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔

کیونکہ مجھے باڈی بلڈنگ کا بہت شوق ہے اس لیے یو ای ٹی کی جم کا تذکرہ نہ کرنا ناانصافی ہو گی۔ یو ای ٹی کی جم ہے پر نام کی۔25 سال پہلے یونیورسٹی کے V.C صاحب نے جم کی بنیاد رکھی تھی۔ آج بھی جم میں وہی ٹوٹے پھوٹے آلات بڑی شان سے استعمال ہو رہے ہیں جو میرے خیال میں ARNOLD کے دور میں استعمال ہوتے ہوں گے۔اگر نئے آلات کا ذکر کیا جائے تو بڑے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ یہ آلات یو ای ٹی میں سب سے پہلے استعمال ہوئے تھے۔ ہم ان آلات کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہ آلات یو ای ٹی کی تاریخ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ایک نظر یو ای ٹی کی ڈسپنسری پر ڈالتے ہیں ۔ آپکو چاہے جتنا بڑا عارضہ لاحق ہو، آپ کا سر پھٹا ہو ، ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو یا آپ کو شدید بخار ہو ،ڈاکٹر نے آپ کو ایک Penadol Tablet اور ایک Unknown Red Syrup ہی دیناہوتا ہے جسے عرفِ عام میں" یو ای ٹی کا شربت" کہا جاتا ہے اور اس کے استعمال سے آپ کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ڈسپنسری کے کمپاؤنڈر سٹوڈنٹس سے مرہم پٹی کے بھی پیسے لیتے ہیں حالانکہ ہم ہر سمسٹر 1500 روپے میڈیکل کے ادا کرتے ہیں۔

تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ ٹیچرز انٹرنیٹ سے سلائیڈز ڈاؤن لوڈ کر کے سٹوڈنٹس کو سرسری طور پر پڑھا دیتے ہیں جن کو سٹوڈنٹس ایک بالی وڈ فلم کی طرح چلتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔اگر کوئی سٹوڈنٹ ٹیچر سے بد تمیزی کر بیٹھے تو اس کو GPA کے لالے پڑ جاتے ہیں۔لیب میں پریکٹیکل کرنے سے پہلے سٹوڈنٹس کو ڈرایا جاتا ہے کہ اگر ان انسٹرومنٹس میں سے ایک انسٹرومنٹ بھی خراب ہوا تو آپ کو ہزاروں روپے کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گااس لیے سٹوڈنٹس پریکٹیکل کرنے کی جرأت تو کیا اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔جتنی ذمہ د اری یونیورسٹی کے سٹاف کی ہے اتنی ذمہ داری سٹوڈنٹس کی بھی ہے۔دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ہمیں اپنا فرض دل وجان اور ایمانداری سے ادا کرنا چاہئے۔
؂ اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

یو ای ٹی کی خامیوں کو اجا گر کرنا میرا حق ہے کیونکہ یہ میرا گھر ہے اور ہم سب ایک فیملی کی طرح ہیں۔یہ طنزو مزاح لوگوں کو محظوظ کرنے یا کسی کی دل آزاری کے لیے نہیں ہے بلکہ یو ای ٹی کے سسٹم کو صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے ہے۔یہاں امیر کے ساتھ ساتھ غریب اور یتیم سٹوڈنٹس بھی پڑھتے ہیں جن کی زندگیوں سے کھیلنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ہم نا امید نہیں ہیں، ہم اقبال کے شاہین ہیں، ہم ستاروں پہ کمندیں ڈال سکتے ہیں، ہم بحرِظلمات میں گھوڑے دوڑا سکتے ہیں، ہم پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں، ہم پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں بشرطیکہ اگر ہم اپنے نبی محترم حضرت محمدؐ کے نقشِ قدم پر چلیں، اگر ہم بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور اپنے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی ایک ایک بات پر عمل کریں اور اگر ہمارا نعرہ ایمان، اتحاد ،تنظیم بن جائے تو ہماری یونیورسٹی ملکی تعمیرو ترقی میں مثالی کردار ادا کر سکتی ہے۔ انشااﷲ!
IRFAN YASIN
About the Author: IRFAN YASIN Read More Articles by IRFAN YASIN: 2 Articles with 2327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.