والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو
(Mûhåmmåð Årslåñ Îlyäs , Karachi, Pakistan)
کسی کتاب یا رسالے میں ایک بار
یہ تحریر پڑھی تھی جس میں ایک نوجوان نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد بہت
ہی افسوس کے ساتھ اپنا ایک واقعہ لکھا تھا کہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں جوانی کی مستی میں اپنی ماں سے چیخ کر بولا،
وہ میرے حال سے رنجیدہ دل ہوگئی اور گھر کے ایک کونے میں جا بیٹھی۔
وہ اکیلے میں بیٹھی رو رہی تھی،
ساتھ وہ کہ رہی تھی "بیٹے شائد تو اپنا بچپن بھول گیا ہے کہ تو مجھ سے سختی
سے پیش آرہا ہے" ۔
بیٹے اب تُو چیتے کو بھی گرا سکتا ہے اور تیری جسامت ہاتھی جیسی ہو گئی ہے
۔
اگر تجھے اپنا بچپن یاد آتا جب تُو میری گود میں مجبور تھا تو آج تُو مجھ
پر خفا نہ ہوتا،
ظلم نہ کر اس لیے کہ اب تو تُو شیر مرد ہے اور میں مجبور ہوں ۔
آج میری وہ مجبور ماں قبر میں اتر گئی ہے اور میں تپتی دوپہر میں کھڑا ہو
گیا ہوں ۔
میرے سر پر میری ماں کے انچل کا سایہ نہیں ۔ گھنٹوں ماں کی قبر کے سامنے
پاؤں کی طرف بیٹھا رہتا ہوں کہ شاید ماں اپنے پاؤں باہر نکالے اور میں اس
کے تھکے ہوئے پاؤں کو دبا لوں لیکن دس برس گذر گئے ہیں ۔ ماں کے پاؤں نہیں
ملتے ۔
و بالوالدین احسانا ۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ |
|