’’آپکے بچوں کا کوئی
مقابلہ نہیں وہ بہت خاص ہے بہت منفردکیونکہ وہ انفرادی صلاحیتوں اور
مہارتوں کی دولت سے مالا مال ہے ‘‘
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ان نعمتوں میں سب سے بڑی
اور خوبصورت نعمت بچے ہیں بچے والدین کے لیے قدرت کا ایک حسین تحفہ ہیں ،
والدین کی پوری زندگی ان ہی کے گرد گھومتی ہے ، بچے والدین کے لیے متاع
حیات ہیں تمام والدین کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ہر جگہ ہر
مقام ، زندگی کے ہر موڑ پر کامیابی حاصل کرتے رہیں ان کا بچہ ایک نمایاں
شخصیت کا حامل ہو ، ہر انسان فطری طور پر اس امر کا خواہاں ہے کہ کامیابی
اور کامرانی کی مسرتیں اس کے حصہ میں آئیں وہ جس کام کو کریں اس میں کامیاب
ہوں ،ان کے بچے تعلیمی میدان میں سب سے آگے رہیں ، اس مقصد کے لیے تمام
والدین سخت محنت اور جدوجہد کرتے ہیں یہاں تک کے وہ اپنی نیند یں ، اپنی
خواہشیں ، اپنا قیمتی وقت پیسہ تک قربان کردیتے ہیں کہ کسی بھی طرح ان کے
بچے ایک اچھے اور کامیاب انسان ایک اچھی شخصیت بن جائیں، اور ایسی خواہش
کرنا غلط بھی نہیں․․ ․․ ! مگر کچھ والدین اپنی نا آسودہ خواہشات کو اپنے
بچوں سے وابستہ کر لیتے ہیں وہ اپنے بچوں سے اس قدر توقعات وابستہ کر لیتے
ہیں کہ بچے بھی ایک تناؤ کی کیفیت میں آجاتے ہیں ، والدین بغیر یہ جانے کہ
ان کے بچہ کی ذہانت ، قابلیت اور صلاحیت کیا ہے ، ان کو ایک ہدف دے دیتے
ہیں کہ وہ ہمیشہ صرف کامیابی ہی حاصل کریں تعلیمی میدان ہو یا کھیل کا
میدان ان کو ونر ٹرافی ہی لیکر آنی ہے تاکہ وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں
میں ممتاز اور مقبول ہوجائیں، لیکن اگر کوئی بچے کسی ایک میدان میں کمزورہو
تو والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا بچے اب کامیاب انسان بن ہی نہیں سکتا
، اب ہر بچہ بیک وقت ہر معیار پر تو پورا اتر نہیں سکتا،جو والدین نے بنائے
ہیں ، ایسے معیار بنائیں جس پر آپ کے بچے کی کامیابی ہو نہ کے آپکے دل کی
تسلی ، ایسے اہداف مقرر نہیں کریں جو آپ کے بچے کے لیے ناممکن بن جائے،
کامیابی کے ساتھ ناکامی ناگزیر ہے کیونکہ ناکامی نہ ہو تو کامیابی کے حصول
کی خواہش فنا ہوجاتی ہے -
والدین ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنے بچے کا موازنہ دوسروں کے بچوں سے
کرنے لگتے ہیں ہم بچوں سے ہمیشہ 100 فیصد نتائج ہی کیوں چاہتے ہیں ان سے یہ
توقع کرنے لگتے ہیں کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح تعلیمی یا نصابی سرگرمیوں
میں بہترین کارکردگی دکھائیں اکثر والدین کو اپنے بنائے ہوئے معیار سے کم
کامیابی برداشت نہیں ہوتی پھر وہ بچے کو اس کا ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں بچے
والدین کے معیار اور ان کے اہداف کو پورا کرتے کرتے ذہنی اور جسمانی دباؤ
کا شکار ہوجاتے ہیں خاص طور پر امتحان کے دنوں میں انتہائی دباؤ میں مبتلا
رہتے ہیں امتحانات کا خوف ان کے ذہن کو ماؤف کر دیتا ہے والدین کو یہ اچھی
طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے بچے کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں وہ بہت خاص
ہے بہت منفرد ، کیونکہ وہ انفرادی صلاحیتوں اور مہارتوں کی دولت سے مالا
مال ہے آپکا ایک غلط توقعات یا اس طرح کا رویہ آپ کے بچے کو کامیابی کی طرف
نہیں بلکہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے آپ یقیناً یہ نہیں چاہیں گے کہ آپ کے
بچے کے لیے ایسی راہ ہموار ہو ، یا آپ اس کا سبب بنیں اگر بد قسمتی کے بچے
کے نمبر کم آئیں ہیں تو طعنے تشنے دینے کی بجائے ان سے دوستوں کی طرح برتاؤ
کریں مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کاو یہ احساس ہی نہ ہو کہ وہ نا
کام ہوئے ہیں ایک طریقے سے انہیں یہ احساس دلائیں، کیونکہ بچے کی نفسیات
ایک ماں اور باپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا اپنے بچے کی شخصیت کے تمام
پہلوؤں کو سمجھ کر اس کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں -
جس طرح ایک بات بار بار کہی جائے تو وہ چڑ بن جاتی ہے یہ ہی حال بچوں کے
ساتھ بھی ہوتا ہے جب ان کو بار بار پڑھو ، پڑھوسنیں کو ملے گا تو یہ ان کی
چڑ بن جاتی ہے امتحانات کے دنوں میں تو ان کا جینا حرام کردیا جاتا ہے
مختلف دھمکیاں دی جاتی ہیں ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے کہ تمھیں پوزیشن لانی ہے
اس وجہ سے بچے بے جا ضدی ہوجاتے ہیں یا پھراعتماد کی کمی یا حسد کا شکار
ہوجاتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس سے بھاگنے لگتے ہیں ، ایسی کیفیت بچے
پر بہت منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں ایسے حالات میں بچے پھر پریشان ہوجاتے
ہیں کہ اگر اچھا رزلٹ نہیں آیا تو․ ․ ․ ․ ․ ․ ؟ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ
اگر اس قسم کا ماحول گھر میں رکھا جائے تو اس گھر کے بچے عموماً سنجیدہ اور
خوفزدہ نظر آتے ہیں بچوں کی غیر معمولی سنجیدگی کے پیچھے ان کا الجھا ذہن
اور تعلیمی بوجھ ہوتا ہے حد سے زیادہ سختی بچے کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے
اسی سوچ اورذ ہنی دباؤ کے باعث ان کی نیند تک متاثر ہوجاتی ہے ان پر پڑھائی
کا اتنا بوجھ نہ ڈالیں کے وہ اپنی کتابوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں اور وہ
پڑھائی سے بھاگنے لگتے ہیں یہ ایک نازک معاملہ ہے ، والدین کو احتیاط برتنی
چاہیے کہ بچے نصابی کتب سے بد دل نہ ہوں ، بلکہ خوش ہو کر دلچسپی کے ساتھ
پڑھیں بعض اوقات صرف ضد میں آکر وہ اپنا نقصان کر دیتے ہیں ، بعض والدین
اپنے بچے کی تعلیم کے سلسلے میں جنونی ہوجاتے ہیں یہاں تک کے ان کا رویہ
شدت پسند ہوجاتا ہے ہر طرف ایک مقابلے کی فضا قائم ہوتی جارہی ہے اس میں یہ
بیچارے بچے پس جاتے ہیں بچے کا فرسٹ آنا ماؤں کے لیے انا کی تسکین کا باعث
بن جاتا ہے بعض اوقات والدین بچوں کے کم مارکس آنے پر ان کی شدید پٹائی کر
دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ دوہری اذیت اُٹھاتا ہے خاص طور پر مائیں اس
اندھی دوڑ میں اپنے گھر کی فضا کو مکدر کر دیتی ہیں بچوں کے ساتھ والدین کا
ہتک آمیز رویہ بچوں کو بیزار اور چڑ چڑا بنا دیتا ہے ان کی توجہ تعلیم سے
دور اور دوسری سر گرمیوں میں بڑھ جاتی ہے پھر یہی والدین ایک ایک سے کہتے
پھرتے ہیں کہ انکا بچہ پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا والدین کو اپنا رویہ بہتر
کرنے کی ضرورت ہے ، صرف ٹیوٹر کی ہی زمہ داری نہیں یا کسی بھی استاد کو
جادو نہیں ا ٓتا جس کو گھول کر وہ آپ کے بچے کو اچھے نمبروں سے پاس کروا
سکے یوں بھی ہر بچہ ایک انفرادی شخصیت رکھتا ہے اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کو
منفرد صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبیاں یا
خامیاں ہوتی ہیں اسی دونوں خصوصیات کے ساتھ زندگی گزارنا پڑ تی ہے کسی کام
یا عمل میں نا کامی شخصیت کی ناکامی نہیں-
اگر آپ کا بچہ اندر سے خوش اور مطمئن ہے تو وہ ذہین نہ ہوتے ہوئے بھی زندگی
سے کچھ نہ کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کر لے گا بے شک یہ کا میابی آپ کے مقرر
کئے ہدف سے کم ہوں مگر آپ کے بچے کو ذہنی اور دلی خوشی ضرور دیں گے والدین
کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچے پر بیجا تنقید یا بے جا حوصلہ افزائی سے گریز
کریں ساتھ ساتھ بچے کی تربیت میں یہ بات شامل ہو کے وہ ناکامی سے سبق سیکھے
اور بغیر کسی دباؤ یا خوف کے اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کرے ،
سختی ایک حد تک اچھی ہوتی ہے اگر کوئی چیز حد سے تجاوز کر جائے تو شخصیت پر
منفی اثرات مرتب ہوجاتے ہیں بچے پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنا بچے کو باغی کر
سکتا ہے ، بڑوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں کو جان لیں اس
کے مطابق اپنے لیے کوئی مقاصد یا کس فیلڈ کا انتخاب کریں مگر بچوں کو ایسے
موقع نہیں ملتے ، بچے کی ہر طرح سے مدد کریں کہ وہ اپنی تعلیم میں دلچسپی
لے بچے پر ضرورت سے زیادہ بوجھ اور آپ کی توقعات اسے ساری زندگی کے لیے
ناکام یا نفسیاتی انسان بنا سکتی ہیں اپنے بچوں کو خوشیاں دیں بعض اوقات
چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی خوشی دی جاتی ہے ایک چھوٹی کامیابی آپکے بچے کو
اعتماد دے سکتی ہے جس کے سہارے وہ ترقی کے سفر پر خوش اسلوبی سے قدم جما
سکتا ہے ان صلاحیتوں کوجاننے کے لیے آپ کے بچے کے لیے آپ سے بہتر اور کون
ہوسکتا ہے کیونکہ وہ آپ سے ہی قریب ہوتا ہے آپ ہی اپنے بچے کی بہترین دوست
اور غم خوار بن سکتے ہیں ، آپ کا ایک مثبت قدم آپ کے بچے کے لیے کامیابی کے
دروازے کھول دے گا پھر آپ اس کے ساتھ مل کر انتھک محنت کریں بچہ آپ کے تمام
خواب پورے کر کے دیکھائے گا بس تھوڑی سی محنت اور محبت آپ کے بچے کو پرُ
اعتماد اور قابل انسان بنا سکتی ہے- |