بنگال میں سخت گیر ہندو تنظیموں
نے ’ لو جہاد ‘ کے جواب میں "بہو لاؤ ، بیٹی بچاؤ "مہم کا آغاز کیا ہوا ہے
۔جب سے بھارتی سرکار میں نریندر مودی اپنے ہندو انتہا پسند خیالت کے ساتھ
وارد ہوئے ہیں ، بھارتی مسلمانوں پر ظم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے اور خود
ساختہ پروپیگنڈا کے تحت ، اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا نہ رکنے والا
سلسلہ جاری ہے۔آر ایس ایس اور ہند انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں
کے خلاف ’ لوجہاد‘ کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا جس کے بعد ان تنظیموں نے ہندو
ایجنڈا پھیلانے کیلئے ایک نیا طریقہ ایجاد کرلیا اور شمالی و مغربی
ہندوستان میں’ گھر واپسی‘ کے پروگرام پر سختی سے عمل درآمد شروع کردیا ،بلکہ
آگے بڑھتے ہوئے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے مغربی بنگال میں نئی متنازع مہم
شروع کردی ہے ، ہندو ، مسلم شادی پر اعتراضات کے بعد تنظیم کے افراد "بہو
لاؤ ، بیٹی بچاؤ"کے نام سے ایک مہم چلا رہے ہیں جس میں ہندو لڑکے کے ساتھ
مسلم لڑکی کی شادی کی صورت میں لڑکی کو ہندو مذہب قبول کرنا ہوگا ، تنظیم
ایسے افراد کی مدد بھی کر رہی ہے۔بھارتی ابلاغ کے مطابق یہ مہم ایسے اضلاع
میں چلائی جا رہی ہے جہاں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ان اضلاع میں وشو
ہندو پریشد ، ہندو جاگرن منچ، ہندو سہمتی منچ اور بھارت سیوا شرم سنگھ جیسی
تنظیموں نے ’ بہو لاؤ ، بیٹی بچاؤ ‘ جیسی مہم شروعات کی ہوئی ہیں۔اہم بات
یہ ہے کہ ایسے لو جہاد کا جواب قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مرحلے پر ایسے جوڑے
جو شادی کرنا چاہتے تھے اپنی شادی کا کریڈٹ ہندو تنظیموں کو قرار دیتے
ہیں۔ہندو انتہا پسند تنظیم وی ایچ پی کے ایک لیڈر بادل داس نے دعوی کیا ہے
کہ گذشتہ ایک سال میں اس مہم سے جڑے پانچ سو مسلم ، عیسائی لڑکیوں کو ہندو
بنایا گیا ہے ، اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں بی جے پی میں اپنے خاندانوں کی
حفاظت کیلئے شامل ہونے کو بھی کہا گیا ہے۔
حالاں کہ مسلم لڑکی ، ہندو لڑکا شادی کے تصور کو بھارتی فلموں کے ذریعے اس
قدر پھیلایا جاچکاہے کہ ، مسلم نوجوان کسی ہندولڑکی کی کے مذہب کی تبدیلی
کے بغیر بھی شادیاں کرنے لگے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھتے، نوجوان’ دین
اسلام ‘کی واضح ہدایت کے باوجود کسی بھی مشرک لڑکی کو بطور بیوی ،اپنانے
اور اس سے بچے پیدا کرنے کو معیوب اور خلاف اسلام نہیں سمجھتا ، اگر ہندو
لڑکی مسلمان ہوکر کسی مسلمان لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو اسے ہندو دھرم کے
خلاف سازش اور" َلَوّ جہاد " ‘ کا نام دیکر بھارتی معاشرہ مسلمانوں کے خلاف
ننگی تلوار بن جاتا ہے اور اسے بھارت کے خلاف سازش قرار دیکر ووایلا کرتا
ہے۔مشہور کرکٹر عرفان پٹھان جو کہ ایک موذن کا بیٹا ہے اس نے ایک ہندو لڑکی
سے اس کا مذہب تبدیل کئے بغیر شادی کی اور ازدوجی زندگی گذار رہا ہے ، شاہ
رخ خاں کے گھر میں مندر بھی ہے اور نماز کے لئے مختص جگہ بھی۔سیف علی خان
اقرار کرتے ہیں کہ کرینہ کپور نے اسلام قبول نہیں کیا وہ اب بھی ہندو ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہندو لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کی شادی کوئی
نئی بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سنیل دت نے نرگس سے شادی کی ، کشن چندر نے
سلمی صدیقی سے ، ریتک روشن نے سوجین خان سے ، اتول اگنہیوتری نے الویرا خان
سے ، روہت راجپال نے نیلیلہ خان سے ، اجیت اگارکر نے فاطمہ دھندلی سے ، سچن
پائیلٹ نے سارا عبداﷲ سے ، ارون آہوجہ ( گویندہ کے والد) نے نجمہ سے ،
شیریس کندر نے فرح خان سے ، ارون گاؤلی نے عائشہ سے ، منوج واچپئی نے شبانہ
رضا سے ، پنکج کپور نے نیلیمیا عظیم سے ، گنودینشین راؤے نے تبسم سے ، ششی
ریکھی نے وحیدہ رحمان سے ، راج ببر نے نادرہ ظہیر سے ، کرنل سودھی نے نفیسہ
علی سے ، میورواد دھونی نے ممتاز سے ، رندھاوا نے لیکا خان سے ، وشنو
بھاگوت نے نیلو فر سے، کشور کمار نے مدھو بالا( ممتاز) سے، وی ایس نائیپال
نے نادرہ سے ،کبیر سومن نے سبینہ یاسمین سے،بی آر اشارہ نے ریحانہ سلطانہ
سے ، سمیر بیرورکر نے تسنیم سیخ سے ، انوراگ مودی نے شہناز سے ،ایم ایس
ستھو نے شمع زیدی سے ، روی شنکر نے روشن آرا سے ، پردیب چیرین نے فوزیہ
فاطمہ سے ، پنکج ادھاس نے فریدہ سے ، کے این سہائے نے زاہدہ حسین سے ، بریج
سد انا نے سعیدہ خانم سے ، نرمل پانڈے نے کوثر منیر سے،وجے گوئل نے تبسم سے،
امیت موئترا نے نائید کریم سے ، روپ کے شوری نے شمشاد بیگم سے ، کے ٹی سپرو
نے تاجور سلطانہ سے، رمیش باگوے نے زینب سے ، منیش تیواری نے نازنین سے ،
سیتا رام پوری نے سیما جشتی سے ، سمیت سہگل نے شاہین سے شادیاں کیں، لمبی
چوڑی مزید فہرست بھی ہے ، اصل بات یہ ہے کہ ا ن شادیوں کو تو یہ لوگ رزشٹر
ایکا تمتا (قومی یکجہتی) کا نام دیتے ہیں لیکن جب ہندو لڑکی کسی مسلمان سے
شادی کرلے تو اسے ’ " َلَوّ جہاد "‘ قرار دیا جاتا ہے۔
ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے اس رجحان کو بزور طاقت ختم کرنے کیلئے
’ گھر واپسی ‘ اور "بہو لاؤ ، بیٹی بچاؤ" جیسی مہم چلائی جا رہی ہیں اور وہ
طبقہ اب خاموش بیٹھ گیا ہے جو کسی ہندو لڑکی سے کسی مسلمان لڑکے کی شادی پر
چراغ پا ہوکر زمین آسمان ایک کردیا کرتے تھے ۔ سیکولر طبقہ حقائق کو سامنے
لائے بغیر ان کے ساتھ کھڑا ہوجاتا تھا ، میں اپنے کئی کالموں میں وضاحت کے
ساتھ اس امر کا تذکرہ کرچکا ہوں کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی نا
انصافیوں میں کسی مذہب کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے ۔ بھارت میں
مسلمانوں کے ساتھ جبری رویہ، ہندو انتہا پسندوں کے دلی عناد و منافرت کو
ظاہر کرتا ہے۔مذہبی شعائر پر پابندیاں ، فرقہ وارانہ فسادات میں مساجد اور
مقدس مقامات کو نشانہ بنانا ، بنیادی حقوق کی حق تلفی ، تعلیم اور معاشی
دروازوں کا بند کئے جانا ،سرکاری ملازمتوں کے ذریعے مسلمانوں کو اچھوت سے
بھی بدتر قرار دیکر دور کئے جانا دراصل ہندو انتہا تنظیموں کی جانب سے شدت
پسندی کا ایک رخ ہے تو دوسری جانب ’ گھر واپسی ‘ جیسی مہم شروع کرکے
مسلمانوں کے اُس کمزور طبقہ کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم ہے تو اس کے ساتھ
ہی بے راہ روی کا شکار ، مذہبی تعلیم سے دور ایسے جوڑوں کی حوصلہ افزائی
کیلئے با قاعدہ تنظیم بنا کر مہم چلانا اسلام کے خلاف مذموم سازشوں کی
بھیانک تصویرہے۔
بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان تمیز پیدا کرنے کیلئے اسلام
کی تعلیمات کا پرچار آسانی سے ممکن نہیں ہے ، کیونکہ بھارت میں ہند انتہا
پسند تنظیموں کو ہمیشہ حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے اس لئے اکثریت مسلم
نوجوانوں میں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ کسی ہندو لڑکی سے اس لئے بھی شادی نہیں
کی جا سکتی کیونکہ اہل کتاب کے علاوہ کسی مشرک سے نکاح کی اجازت نہیں، اسی
طرح مسلم لڑکیوں میں بھی یہ شعور ان کے جسمانی طلب محبت کے آگے کوئی معنی
نہیں رکھتا اور بے راہ روی کے شکار یہ نوجوان اپنے جذبات کے آگے سر تسلیم
خم کرتے ہوئے ا س بات سے صرِ ف نظر کرتے ہیں کہ اس سے اسلام کے تشخص کو کس
قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ چونکہ بھارت میں غریبی اپنی انتہا ئی عروج پر ہے اس
لئے کروڑوں انسانوں کو ایک وقت کی روٹی بھی وقت پر میسر نہیں ہوتی اور گندم
کے چند دانوں کیلئے اپنی عزت و حرمت کا بھی پاس رکھنا ان کیلئے مشکل ہوجاتا
ہے۔ اس صورتحال میں ان افراد تک معاشی ترقی کے پیغام میں جب یہ عنصر سامنے
ہو کہ انھیں اپنا مذہب تبدیل کرنا ہوگا تو تعلیمات سے نا آشنا ، کمزور اور
معاشی دلدل میں دھنسے افراد اور جان کے خوف سے اپنا مذہبتبدیل کرنے پر
مجبور ہوجاتے ہیں۔افسوس تو دراصل اس بات پر ہے کہ ایسے مسلم ممالک جو مال و
دولت اور قدرتی خزانوں سے مالا مال ہیں ، وہ ان خاندانوں کی مدد کرنے میں
پس و پش سے کام کیوں لیتے ہیں اور مسلم ممالک "بہو لاؤ ، بیٹی بچاؤ" ، گھر
واپسی( یعنی زبردستی ہندو بنانا) جیسی انتہا پسند سوچ کی حامل نظریات پر
مبنی ، سرگرم ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کردار پر صدائے احتجاج کیوں بلند
نہیں کرتیں۔ امریکی صدر بارک اوبامہ دورہ بھارت کے تیسرے اور آخری روز وطن
واپسی سے قبل سر فورٹ آڈیٹوریممیں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک سخت
گیر پیغام دے گئے کہ آئین ہند کی دفعہ 25میں تمام لوگوں کو اپنی پسند کے
مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلغ کرنے کا حق ہے لیکن ہمیں تنگنظری یا دیگر
بنیاد پر بانٹنے کی کوششوں سے محتاط رہنا ہوگا۔اوبامہ کا تبصرہ ہندو
تنظیموں کے متنازعہ تبدیلی مذہب اور ’ گھر واپسی ‘ پروگراموں کے درمیان
آیا۔لیکن مسلم ممالک کی خاموشی پر غور کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کی خاموشی
ایک مجرمانہ غفلت ہے انھیں اس اہم مسئلے پر اپنا موقف دنیا کے سامنے ضرور
لانا چاہیے تاکہ بھارتی مسلمانوں کو بھی احساس ہو کہ امت مسلمہ ان کی
پریشانیوں سے غافل نہیں ہے ۔بھارتی مسلمانوں کو تنہا کرنے کی پالیسی مناسب
نہیں ہے۔ |