کسانوں کی خودکشی کا اصل راز
(Falah Uddin Falahi, India)
ملک میں آئے بے موسم برسات نے
نہ جانے کتنے کسانوں کی زندگیوں پر پانی پھیردیا۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ
زیادہ تر کسان ہی خودکشی کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔حالانکہ اس دنیا میں
نقصان کا سودا تو ہر کسی کی زندگی میں ہوا کرتا ہے لیکن وہ دل برداشتہ ہو
کر موت کو گلے نہیں لگاتے ہیں بلکہ جینے کا حوصلے لیتے ہوئے نئے سرے سے
زندگی گزارنے کا نہ صرف فیصلہ کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی
ہوتے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بن کر ابھر تے ہیں ۔معمولی سی مثال
کے طور پر گجرات فساد کے دوران ایک مشہور و معروف تاجر کا پورا کاروبار جل
کا خاک ہو جاتا ہے وہ بری طرح سے نہ صرف تباہ ہو جاتا ہے بلکہ ریلیف کیمپ
میں دیگر لوگوں کے ساتھ وہ بھی امداد کے منتظر نظر آتے ہیں یہ منظر دیکھ کر
ایک مشہور جماعت کے قائد کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ جو شخص سب سے
زیادہ ادارہ کو چندہ دیتا تھا آج وہ ادارے کی امداد کا محتاج ان کے سامنے
کھڑا ہے ۔یہ منظر واقعی دل دوز اور المناک تھا لیکن حقیقت پر مبنی ہے ۔چند
سال بعد پھر وہیں شخص جس کو جس کے دور حکومت میں تباہ و برباد کر دیا گیا
تھا اسی کے دور حکمرانی میں اُسے ایک بڑے یونیورسٹی کا وائی چانسلر بنا دیا
جاتا ہے ۔بظاہر دنیا میں لٹا اور تباہ ہوا اور اسی دنیا میں اس نے پھر
کامیابی حاصل کر لی وہ بھی شاندار طریقے سے ۔ اس سے بحث نہیں کہ اس نے ضمیر
بیچا یا پھر سودا کیا لیکن ہاں دنیا ضرور حاصل کر لی ۔
لیکن ان بیچارے کسانوں کو کیا ہو گیا ہے جو خودکشی کرنے پر مجبور ہیں جب کہ
اس کا انجام بھی وہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومت وقت انہیں معاوضہ کی شکل میں سو
دو سو روپے کا چیک تھما دیتے ہیں ۔پھر بھی اتنے بڑے پیمانے پر پورے ملک میں
کسانوں کی خودکشی کی وجہ کچھ اور تو نہیں ہے ؟۔
مشہور ناول نگار منشی پریم چند نے کسانوں کی جو درد بھری تصویر کی منظر کشی
کی ہے کہیں اصل وجہ وہ تو نہیں ہے ؟یا پھر مذہب اسلام نے جس چیز کو لعنت
قرار دیکر حرام کر دیا تھا کہیں یہ وجہ تو نہیں ہے ؟تو جواب ملے گاہاں اصل
وجہ یہی ہے جس کو اﷲ تعالی نے نہ صرف حرام ہی قرار دیا ہے بلکہ سب سے
بدترین فعل قرار دیا ہے ۔وہ ہے سود کی لعنت جس کے چنگل میں پھنسنے کے بعد
انسان گناہ گار تو ہوتا ہی ہے اس کے علاوہ اس سے نکلنا بھی اس کے لئے مشکل
ہو جاتا ہے اور پھر منشی پریم چند کی عکاسی کی رو سے اس کی زمین ہمیشہ ہمیش
کیلئے ساہوگار کی ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ سینکڑوں ایکٹر زمین کا مالک ہونے
کے با وجود دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج ہو جاتا ہے ۔ایسے دردناک انجام سے
جینے کا سہارا بھی ختم ہو جاتا ہے اور پھر سے نئے سرے سے زندگی گزارنے
کیلئے سوچ بھی نہیں سکتا ۔کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ اس دنیا میں جتنے بھی
روپیے پیسے کما لے وہ اپنا زمین واپس نہیں لے سکتا ہے بلکہ سود پر سود
بڑھتا ہی جائے گا اور بد نصیبی ہی بد نصیبی اسے نصیب ہوگی ۔
آزادی سے قبل بھی کسانوں کے ساتھ یہی سلوک ہوتا تھا کہ وہ سود کے بوجھ تلے
اتنے دبے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ جانوروں کے جیسا سلوک کیا جاتا تھا ساہو
کار اسے انسان ہی نہیں سمجھتے تھے اس ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے کسانوں
نے جنگ آزادی میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اپنی جانوں کا نظرانہ بھی بڑے شوق سے
پیش کیا ۔لیکن انہیں کیا پتہ تھا ملک آزاد ہونے کے بعد بھی اس لعنت سے
انہیں چھٹکارا نہیں ملنے والا ہے بلکہ اس سے بھی درد ناک انجام انہیں آزاد
ہندوستان میں بھگتنا پڑے گا۔آزادی سے قبل بندھوا مزدور بن کر کم از کم
انہیں دن میں ایک بار ساہوکار یا پھر زمیندار کی طرف سے کھانا مل جاتا تھا
لیکن آزاد ہندوستان میں تو انہیں بہت شور ہنگامہ کے بعد سو روپے کا چیک
تھما دیا جاتا ہے جو نہ صرف ان کی زخم پر نمک پاشی ہے بلکہ انسانیت سے گری
ہوئی ایک بھدا مذاق ہے ۔آزادی کے بعد سے ہی ہر ہندوستانی جو چیز بھی خریدتا
ہے اس پر پچاس فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن ان کی مصیبت یا انکی خبر
گیری کرنے کیلئے حکومت وقت لاچار نظر آتی ہے ۔کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی
کہ پیسہ کہاں سے آئے گا ؟اگر ایک ہندوستان اپنی ٹیکس کا حساب لینے لگے تو
شمار کرنا مشکل ہو جائے گا کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے سے زیادہ تو اس نے
حکومت کو ٹیکس دیدیا ہے ۔
ہندوستان آزاد ہونے کے بعد اسی نظام کو لاگو کر دیا گیا جس سے ایک کسان
پریشان تھا نہ صرف لاگو کر دیا گیا بلکہ تعلیمی نصاب میں اسے حساب کی شکل
میں سو ،وقت اور قیمت کا ایسا فارمولہ نوخیز بچوں کو رٹوایا گیا کہ پھر وہی
استحصالی نظام ہندوستان میں رچ بسگیا۔ایک طالب علم کو یہ سوچنے کا موقع ہی
نہیں دیا گیا کہ سود خود بحیثیت انسان کیلئے موت کی مانند ہے ۔
بظاہر تو ہندوستانیوں کیلئے ہندوستان آزاد ہو گیا لیکن نظام حکومت ،طریقہ
کار وہی ہے جس کے چکی میں ہندوستانی پستے رہے تھے ۔وہی ظالمانہ نظام سود
اور وہی خاکی وردی جس کے ظلم بربریت کو دیکھ کر انگریز کا وہی پرانا
ہندوستان نظر آتا ہے ۔کہنے کو تو یہاں جمہوریت ہے جس کا مطلب عوام کی حکومت
عوام کے ذریعے عوام کیلئے لیکن سیاست دانوں کی ٹھاٹ باٹ اور رعب و دبدبہ
دیکھ کر کیا کوئی ہندوستانی دعوی کر سکتا ہے کہ یہ ہماری حکومت ہے ہمارے
لئے ہے ؟عوام جب کسی چیز کا مطالبہ کرتی ہے تو فوراً آواز آتی ہے پیسے کہاں
سے آئے گا یا پھر اگر کہیں کچھ بنا بھی دیا تو کہتے ہیں ہم نے بنایا ہماری
پارٹی نے یہ کام کر دکھایا ہے ۔جبکہ اگر غور کیا جائے تو پانچ سو روپے کا
سوٹ جو ہم پہنتے ہیں اس میں حکومت کو ہم نے تقریباً پچاس فیصد ٹیکس ادا کی
ہے پھر بھی ہم پر احسان جتایا جاتا ہے ہمیں پریشان کیا جاتا ہے ، جیسے
انگریز جاتے جاتے سیاسی پارٹیوں کیلئے فارمولہ بنا کر گئے تھے کہ نظام
ہمارا ہی چلنا چاہئے ہندوستانیوں کی جان کی میرے زمانے میں کوئی قیمت نہیں
تھی اور نہ کبھی ہوسکتی ہے ۔
ایسے حالات میں امت مسلمہ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسانوں کو اخلاقی
سپورٹ دیں انہیں سود جیسی لعنت کو بتا کر اس سے دور رہنے کی تلقین کریں اور
انہیں بتائیں کہ اس مسئلہ کا حل خودکشی نہیں ہے بلکہ ان کیلئے غیر سودی بیج
اور کھاد کا انتظام کریں یا پھر انہیں اس بات کی تعلیم دیں کہ اگر پیسہ
نہیں ہے تو کھیتی نہ کریں اور محنت و مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں
لیکن سود پر روپیہ ہرگز ہرگز نہ لیں کیونکہ اس کا بھگتان مشکل ہی نہیں بلکہ
نا ممکن ہے ۔سود کی لعنت کو عام کرنے کیلئے مہم اور تحریک چھیڑیں تاکہ اتنے
بڑے انسانی جانوں کا اتلاف پھر ہندوستان میں نہ ہو ۔ اگر خودکشی پر طائرانہ
نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ نہ صرف کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں
بلکہ وہ عام شہری بھی جو اپنے مکان یا کاروبار کیلئے سود پر بینک سے رقم لے
رکھی ہے آئے دن اپنے پورے پریوار کے ساتھ خودکشی کر لیتے ہیں ۔سود انسان
کیلئے نہ صرف نقصاندہ ہے بلکہ یہ موت کو دعوت دینے والی لعنت ہے ۔واضح رہے
کہ اﷲ تعالی کا بنایا ہوا نظام صرف اور صرف انسانوں کے فائدہ کیلئے ہے جو
بھی اس سے روگردانی کرے گاوہ اس دنیا میں بھی نقصان اٹھا ئے گا اور اخرت
میں بھی اس کیلئے ہمیشہ ہمیش کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ ہم کتاب الہی کی عظمت کو پہچانیں،اسے اپنے قلب وروح میں بسائیں،اس نے
زندگی کے جو قیمتی اصول دیے ہیں، ان اصولوں کو سنجیدگی سے اپنائیں،اور انہی
کے مطابق اپنے سارے کام انجام دیں،کہ اسی طرح ہم آخرت میں سرخ رو ہوسکتے
ہیں، اور اس دنیامیں بھی اپنا کھویاہوامقام دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔داعی
ہونے کی حیثیت سے ہمارے دلوں میں تمام انسانوں کی بھلائی کیلئے تڑپ ہونی
چاہئے تاکہ اﷲ کی مخلوق اس دنیا میں پریشان نہ ہو بلکہ وہ اپنے مقصد وجود
کو پہچانیں اور اس دنیا میں بھی انہیں کامیابی نصیب ہواور اخرت میں بھی وہ
کامیاب ہوں ۔ |
|