انتظار

ہم ہر وقت اور ہمیشہ سے اُسی انتظار میں نہ جانے کیوں رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے سارے مسلےّ حل کر دے ۔

ہم خود کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ ہر بات کا الزام دوسرے پر اور ہر بات میں قصور بھی دوسرے کا ہوتا ہے۔
ہم تو صبع خود اٹھ بھی نہیں سکتے ۔ صبع جگانے کی ڈیوٹی پہلے امی جان کی ہوتی ہے اور پھر بیگم جان کی۔ رات کو شوہر صاحبان کہہ سوتے ہیں۔

جان صبح مجھے اٹھا دینا اور پھر صبح ناشتہ بنانے کے ساتھ ساتھ بیوی یا ماں کی یہ بھی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ گھر والوں کو جگائے بھی اور اگر کبھی دس بار جگانے کے باوجود بھی بیٹا یا شوہر نہ اٹھے اور دیر ہوگئی تو سارا غصہ ماں یا بیوی پر امی آپ نے مجھے اٹھا یا کیوں نہیں ۔

تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔ تم اچھی بیوی ہو ۔

اب کوئی ان کو کیا بتائے یا سمجھائے کہ کیا تم صبح وقت پر خود اٹھ بھی نہیں سکتے ، یہ کام بھی دوسرا کرلے ۔

گھر میں بکھری ہوئی چیزیں بھی کوئی دوسرا اٹھائے چاہے وہ چیزیں آپ نے ہی بے ترتیب کی ہوں پھر بھی کوئی دوسرا (ماں ، بہن ، بیوی) ہی اٹھائے ۔ اپنا کوئی کام خود نہیں کرنا۔جب ہم اپنا ذاتی کام (پانی بھی کوئی پلائے) بھی خود نہیں کرتے ۔ اب گرمیاں آرہی ہیں۔ بوتل سے پانی لے کر اُسے دوبارہ بھر کر فریج میں کوئی نہیں رکھے گا ۔ پانی پیں گے۔ سب لیکن بوتلیں بھرنے کا کام صرف ماں یا بیوی کا ہے اور اگر پانی ٹھنڈا نہ ہوتو ڈانٹ بھی پڑتی ہے کہ پانی نہیں رکھ سکیں اب بھلا کوئی انس سے کہے کہ کیا آپ صبح جاتے ہوئے یا رات سونے سے پہلے ساری بوتلیں بھر کر فریج میں نہیں رکھ سکتے ۔نہ اپنے کپڑے استری کرسکتے ہیں ۔جب ہم گھر میں اپنا کام خود نہیں کرسکتے تو پھر ملک کے کیا کام آسکتے ہیں۔

ہر وقت کہ کوئی آئے اور یہ کر دے وہ کر دے ۔ آپ خود مرد حضرات مل کر اپنا محلہ، اپنا اسکول اپنا راستہ ہو یا جہاں آپ لوگ کا روبار کرتے ہیں ہر جگہ جو آپ کے استعمال میں آتی ہے وہ تو خود صاف کرلیں یا کروائیں۔

نہیں کوئی آکر کرلے۔ ہم تو صرف گند ڈال سکتے ہیں ۔

صفائی کوئی اور آکر کرے ۔

کوئی لیڈر آئے اور یہ کردے وہ کردے ۔ امتحانوں میں اگر کو ئی نقل سے تنگ ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ حکومت نقل کرنے والے کو پکڑے۔ ہم خود نقل کرنا کیوں نہیں بند کردیتے۔ ہمارے والدین کیوں پیسے دیتے ہیں کہ آپ ہمارے بچے کو نقل کرنے دیجیے گا ۔آخر ہمارے ہی بھائی ، دوست ، جانے والے نقل کرنے کے نئے نئے طریقے نکالتے ہیں ۔ خود محنت کرنا پسند نہیں کرتے کہ ہم پڑھ کر امتحان دیں ہر کوئی ملاوٹ کا رونا رو رہا ہے اور اس ملاوٹ سے جانی مالی نقصان بھی اٹھا رہے ہیں اور حکومت کر بُرا بھی کہہ رہے ہیں لیکن ملاوٹ کرنے سے یاد نہیں آرہے اور انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آئے ۔ ہمیں سزا دے ، جرمانہ کرے ذلیل کرے ۔ چینل والے ہم کو خوب رسوا کریں ۔ پھر ہم با ز آئیں ۔ حکومت سختی کرے پھر ہم ٹھیک ہوں گے ۔ ؂
لیکن ہم خود اﷲ سے ڈر کر اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے انتظار ہے ہمیں کس حجاج بن یوسف کا ۔

اکثر لوگ حجاج بن یوسف کو بُرا کہتے ہیں۔ ہاں اس کے دور میں کافی کام ایسے ہوئے جو گنا ہ ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ ہم کوئی تاریخ کا سوال نہیں کر ے رہے کہ اُن کے کردار پر بحث کریں ۔ مجھے تو صرف اُن کی سختی اچھی لگتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہمارے ہر صوبے کا گورنر حجاج بن یوسف جیسا ہو۔ پھر تو کسی کو کسی بھی صوبے میں امن کا یا جرائم کا مسلہ نہ ہو۔ یا حجاج بن یوسف ہی آجائیں ۔ تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جس صوبے میں بغاوت ہوجاتی اور اگر وہاں کے لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ یہاں کا گورنر حجاج بن یوسف کو بنا دیا ہے تو وہ لوگ خود ہی ایک دم ٹھیک ہوجاتے ۔ اس لیئے دل چا ہتا ہے کہ حجاج بن یوسف ایک دورہ پاکستان کا بھی کرجائیں اور یہاں لوگوں کو راہ راست پر لے آئیں۔

دیکھا پھر وہی بات کہ کوئی آجائے ۔آخر میں بھی تو پاکستانی ہوں کسی کے آنے انتظار میری بھی تو عادت میں شامل ہے۔ ہم کثر یہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا فلاں کردار آجائے ۔ ہمارے زمانے میں ۔

لیکن ہم خود کوشش نہیں کرتے کہ ہم یا تو خود ویسے بن جائیں یا اپنے بچوں کو ایسا بنا دیں ۔

63 سال ہوگئے ہم پلیٹ فارم پر بیٹھے ہیں کہ کوئی ریل گاڑی آئے اور کوئی ایسا لیڈر اتار دے جو ہمارے سارے مسائل حل کردے ۔

ذرا سوچیں ہر جگہ پر محکمے میں ہم عوام کا م کررہے ہیں۔ بحیثت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ اپنا فرض پورا کرنا اور ایمانداری کے ساتھ فرض ادا کرنا عبادت ہے ۔

تو پھر ہم اپنا کام ایمانداری کے ساتھ کیوں نہیں کرتے۔ کیوں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی ڈنڈے والا آئے اور ہم سے ایمانداری سے کام کروائے ۔ ہم تو 8گھنٹے کی ڈیوٹی بھی پوری نہیں کرتے۔

ہم خود کوئی کام کرتے نہیں ۔ جس کام کی ہر مہینے یا ہر دن (مزدوری ) اجرت ملتی ہے وہ کام بھی ۔

ایمانداری سے نہیں کرتے ۔ پھر کہتے ہیں کہ کہیں بھی کام ٹھیک نہیں ہو رہا۔

پتہ نہیں کون آئے گا جو یہ سب ٹھیک کردے گا ۔ ذرا سوچو اپنے آپ سے پوچھو کہ ہم اپنے آپ کو خود کیوں ٹھیک نہیں کرلیتے۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہر جگہ ہر کوئی اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے دے تو پھر سارا پاکستان خود ہی ٹھیک ہوجائے ۔ ہمیں کیسی لیڈر کی ضرورت نہ پڑے کئیں نسلیں اس اُمید پر چلی گئیں کہ کوئی آئے۔

یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ کوئی آئے گا اب یہ بات اپنے اور اپنے بچوں کے ذہن میں ڈال دیں۔ کہ کوئی نہیں آئے گا۔ ہم سب کو ہی آگے آنا پڑے گا ۔ اپنے لیے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔

اور خاص کر امیر ترین لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور ملک کی باگ دوڑ سنبھالی ہوگی۔ اتنے سال اس ملک لے آپ کو (امیروں کو)بہت کچھ دیا اب آپ کو چاہے کہ اسے تھوڑ ا بہت تو واپس کردیں ۔آخر کب تک باہر بھاگتے رہیں گے اپنے ملک کو باہر جیسا کب بنائیں گے۔ باہر سڑک پر آکر ہر پاکستانی چاہے کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو۔ قانوں کا احترام کرتا ہے لیکن اپنے ہی ملک آخر وہ کیوں اتنا آزار ہو جاتا ہے ۔ کہ قانون کا احترام کرنااپنے لیے باعث شرم سمجھتا ہے ۔

آپ امیر ترین لوگ اگر قانون کا احترام کروگے تو آپ کی شان میں اضافہ ہوگا۔ کمی نہیں ہوگی۔

اس ملک کو بچانا ہے تو کھاتے پیتے لوگوں کو سامنے آنا ہوگا اپنی دولت کے ساتھ ۔

ہر کوئی اگر یہ سوچے کہ میں نے اپنا نام پاکستان کی تاریخ میں سہنرے لفظوں سے لکھنا ہے اور ایسا اچھا کا کرنا ہے کہ میر ا نام رہتی دُنیا تک رہے ۔

ذاتی فائدوں کو چھوڑ کر اب سب کے فائدے کی بات کریں گے تو ہم اپنے آپ کو اور ملک کو بچا سکیں گے ۔

ہم چاہتے ہیں کہ ہم آرام سے بیٹھے رہیں اور کوئی آئے اور ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ ہر طرف صفائی ہو۔

تو پھر ہم کو سب کیلئے ویسا ہی سوچنا پڑے گا ۔جیسے ہم اپنے گھر کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔
ہمیں اپنے ملک کے بارے میں خود ہی سوچنا ہوگا اور خود ہی اٹھ کر کام کرنا ہو گا۔

کسی کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں ہمارے ذینوں میں ڈال دیا کہ کوئی آئے گا اور یہ کرے گا وہ کرے گا ۔ خود بھی انتظار کرتے کرتے چلے گئے اب ہم بھی اسی انتظار میں بوڑھے ہونے لگے ہیں۔
اب ہمیں اپنے بچوں کو ذہین میں یہ بات ڈالنی ہے کہ کوئی نہیں آئے گا ۔ جو کرنا ہے ہم نے کرنا ہے۔ جب ہر جگہ ہم کام کر رہے ہیں ۔ تو ہم کو راہ راست پر آنا ہے ۔

ہم اتنے سالوں سے سیاسی لوگوں کو پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اُن کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
اب یہ مشق چھوڑ کر اپنے آپ کو ٹھیک کرنے میں ساری طاقت لگا دو ۔
آپ سیاسی لیڈروں کو اچھا بنا نے کی بجائے ۔
خود اچھے نیک ایماندار جج بن جائیں ۔
اچھے نیک ایماندار وکیل بن جائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُستاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاجر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزدور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم شعبے میں نیک ایماندار لوگ کا م کریں گے تو پھر ہم کو کسی کے کا انتظار نہیں ہوگا ۔

ہم سب اور کاہل قوم ہے خود کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ یہ جوہم کہتے ہیں ناں کہ ہم محنتی اور جفا کش قوم ہیں تو ساری قوم ایسی نہیں صرف گھر کا سر براہ دن رات محنت کرتا ہے اور گھر پر ماں ۔ باقی سب بیٹھ کر کھاتے ہیں۔کسی گھر میں بڑا بھائی یا بہن کا م کررہی ہوتی ہے اور باقی سب مزے سے بیٹھ کر کھارہے ہوتے ہیں ۔ اگر ہماری ساری قوم 16-18گھنٹے کام کام کام اور بس کام کرے تو پھر تبدیلی ایسی آئے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

ہم سارے شیطانی آلات (کمپیوٹر ، ٹی وی ، موبائیل وغیرہ )کو بھول جائیں گے ۔

لیکن بات پھر رہی آتی ہے کہ ہم خود اٹھ کر کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ بس کوئی آئے۔

بہت وقت ہم انتظار میں گنو چکے اب مزیدا نتظار ہمیں پتھر کا بت بنا دے گا ۔(ویسے ہمارا دل تو کب کا پتھر کا بن چکا ہے ۔جبھی تو ہم پر زلزلہ ، سیلاب بیماری کسی بھی آفت سے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ نہ دل میں اﷲ کا خوف پیدا ہوتا ہے اور نہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے ۔ خبر سُنتے ہیں اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں) بے حِس تو ہم ہو ہی چکے ہیں یہ بے حسی اگر لمبے عرصے تک رہی تو ہم پتھر کے بت بن جائیں گے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس حد تک پہنچ جائیں۔ اٹھیں اور کچھ کر گزر یں ۔ جو آپ کی پہنچ میں ہے۔

اگر اب بھی بیٹھے کسی کے آنے کا انتظار کرتے رہے تو پھر باہر سے کوئی آجائے گا کہ غافل اور کاہل قوموں کیلئے یہی سزا ہوتی ہے ۔
Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.