تحریر ۔ مسز فیاض احمد قریشی
انسانی زندگی پر توارث اور ماحول اثر انداز ہوتے ہیں انسان پیدائشی طور پر
بہت سی خصوصیات لے کر آتاہے ماحول ان خصو صیات کو سنوارتا بھی ہے اور
بگاڑتا بھی۔اگر ماحول اچھا مل جائے تو برے بھی اچھے بن جاتے ہیں اور کانٹوں
میں بھی پھولوں کی رعنائی آ جاتی ہے اور اگر ماحول ٹھیک نہ ہو تو نیک ماں
باپ کی اولاد بھی بگڑ کر معاشرے لے لیئے شرم بن جاتی ہے گویا انسان بنیادی
طور پر ماحول کی پیداوار ہے اور گردو پیش کے اندھیرے خلقی صلاحیتوں کے نو ر
کو بھی دھندلا دیتے ہیں۔یہ بات تاریخی صداقتوں میں سے ہے کہ کسی نیک انسان
کے فیض صحبت سے ڈاکو اور گمراہ لوگ بھی عرفانِ خداوندی کے بلند مقام تک
پہنچ گئے اسی لیئے کہتے ہیں کہ نیک انسان کی مجلس میں گزرا ہوا ایک لمحہ
سالہا سال کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے ۔مجلس ،ماحول اور صحبت کے اثرات لا
شعوری طور پر قلب و نظر کا حصہ بن جاتے ہیں انسان لاکھ بچنے کی کوشش کرے
ماحول کی اثر آفرینیوں سے وہ بچ نہیں سکتا ایک انسان کی سیرت کردار کے بارے
میں جاننے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے حلقہ احباب کو دیکھ لو اس کے
دوستوں کا حلقہ پسندیدہ ہے تو وہ شخص کردار کے اعتبار سے قابل قدر ہے اور
اگر اس کے ساتھ اُ ٹھنے بیٹھنے والوں میں ایسے لوگ شامل ہیں جو مشتبہ اور
بے اعتبار ہیں تو وہ شخص کسی لحاظ سے بھی معتبر نہیں ٹھہر سکتا ۔دنیا ہو یا
دین انسان کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کس ماحول میں جا رہا ہے اور کس معاشرے
کا رکن بن رہا ہے ۔ہر بچہ فطرت سلیمہ کے مطابق دنیا میں آتا ہے ۔یہ ماحول
ہے جو اسے کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے گویا ہر بچہ فطرت کا عکس جمیل ہے مگر بڑا
ہوتا ہے تو ماں باپ اور ماحول کی تصور ہو کر رہ جاتاہے ۔دنیا کے اعتبار سے
بھی اور مذہبی نقطہ نظر سے بھی نقالی بچے کی فطرت ہے وہ دوسرے کو جو کرتے
دیکھتاہے اس کی معصومیت اسے اپنا لیتی ہے ۔پیدائش سے لیکر بچپن تک اور بچپن
سے لے کر لڑکپن تک وہ ماں باپ کے زیر اثر ہوتا ہے ۔لڑکپن سے شباب تک اساتذہ
کے قدموں میں اور دوستوں کے جھرمٹ میں رہتاہے یہ دور تقدس ،پاکیزگی اور
معصومیت کا دور ہے یہاں جو بھی نقش بنے گا وہ پتھر پر لکیر ہو کر رہ جائے
گا ۔بعد میں انسان چاہے بھی تو اس نقش کو نہ محورکر سکے گا اور نہ مٹا سکے
گا ۔اس لیئے ضروری ہے کہ عمر کے اس نازک دور میں بچے کو جو صحبت ملے وہ
پاکیزہ اور قابل قدر ہو تاکہ اس کی معصومیت فطرت میں نیکی کا نور پیدا ہو
اور وہ والدین کے ساتھ ملک و قوم کا بھی ایک قابل فخر سرمایہ بن سکے برائی
اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے شیطان ہمارے برے اعمال کو خوشنما بنا کر ہمارے
سامنے پیش کرتاہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم بسا اوقات برائی کو برائی نہیں
سمجھتے انسان اس دنیا میں شتر بے مہا ر نہیں ہے دنیا ایک امتحان گاہ ہے
انسان کو اپنے ہر عمل کا جواب ایک ایسی علیم وخبیر ہستی کو دینا ہے جس سے
کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے ۔
ویسے تو ہمارے معاشرے میں بہت سے برائیاں ہیں کچھ قابل برداشت اور کچھ نا
قابل برداشت ،جھوٹ ،چوری اور انٹر نیٹ کمپیوٹر (شوشل میڈیا) موبائل فون ان
سب سہولتوں نے جہاں ہمارے لیئے آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں ہماری آنے والی
نسلوں میں بہت سی خرابیاں جنم لے چکی ہیں ہم آنے والی نسلوں کو ان سے بچا
نہیں سکتے کیونکہ یہ سب ہماری ضرورت بن چکی ہیں اور ہمارے معاشرے کو دیمک
کی طرح چاٹ رہی ہیں لیکن اب ہمارے معاشرے میں ایک نئی برائی جنم لے رہی ہے
اور ہمیں اس کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے کیونکہ یہ برائی ہمارے بچوں کو اپنی
روایات او رمذہبی اقدار سے دور کر سکتی ہے ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت
ہے کیونکہ کہ کوئی بھی مسلمان مغر ب کی تقلید میں اندھا دھند آنکھیں بند کر
کے اس رسم کا شکارہو سکتا ہے یہ برائی ہے مرنے والوں کی یاد میں شمعیں جلا
کر اظہار افسوس کرنا جی ہاں یہ رسم مغرب کی تقلید میں ہمارے ہاں تیزی سے
پنپ رہی ہے ۔مسلمانوں میں تعزیت کا سب سے بہترین اسلامی طریقہ نماز جنازہ ،دعائے
مغفرت ،تلاوت قرآن پاک ،روح کے ایصال ثواب کے لیئے خیرات صدقہ وغیرہ ۔اچھائی
کو فروغ اور برائی کو ابتداء سے ہی روکنا ہمارا دینی فریضہ بنتا ہے اپنے
لیئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیئے ورنہ کل ہمارے بچے بھی ہمارے جانے کے
بعد ہماری یاد میں شمعیں جلا کر سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فریضہ اد ا کر دیا
۔میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے مذہب کی تقلید
کرنا سکھائیں ناکہ یہود و انصار کی ۔آج ہم جو بھویں گے کل وی کاٹیں گے ۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گر ی کا
یہی وہ احساس ہے جو انسان کو ماحول کی کدورتوں ظلمتوں اور دشمنوں کی
شرارتوں سے بچا سکتا ہے ۔ |