ستر سالہ ریٹائرڈ ایس ایس پی کے ساتھ اے سی کا اخلاق باختہ رویہ

آج میرا دل تو سیاست پر لکھنے کا تھا اور وہ بھی تحریک انصاف اور نواز لیگ میں جاری تندو تیز بیانات کی جنگ پر …… لیکن رات مجھے ایک ای میل نے ہلا کر رکھ دیا……یہ ای میل میرے ایک قاری نے بھیجی ہے جو پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ا علی عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ میرے شہر دار بھی ہیں۔سیاست پر بات کرنے کا ارادہ ترک کیا اور کالم کا آغاز میرے نام آنے والی ای میل سے کیا۔ ملک ذوالفقار احمد اپنے زمانے میں بڑے دبنگ قسم کے پولیس افسر ہوا کرتے تھے۔انہوں نے لاہور، فیصل آباد سمیت پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑھے اور وہ اپنے سینے پر جرآت ،بہادری اور ہمت ودلیری کے تمغے سجائے پولیس کے محکمہ سے باعزت ریٹائرڈ ہوئے۔ان کے ایک بھائی کمشنر اور دوسرے ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ویسے پسماندہ علاقوں میں جنم لینے اور وہیں سے پرح بڑھ کر اعلی مقام و مرتبہ سے ریٹائرڈ ہونے سے قبل بڑے شہروں میں جا بسنے اور پھر وہیں کے ہو کر رہنے والوں کی طرح ملک ذوالفقار احمد بھی لاہور میں سکونت رکھتے ہیں…… البتہ اپنے فارم ہاؤس اور دیگر کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے وقتا فوقتا میرے شہر کاچکر لگاتے رہتے ہیں۔ان کے خاندان کو علاقے میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔مجھے میل کرنے کا شائد انکا یہ مقصد ہو کہ میں اخبارمیں لکھتا ہوں اور ان کی آواز حکمران اشرافیہ تک بہتر انداز میں پہنچانے کا باعث بن سکتا ہوں……میل کا مطالعہ کے بعد قلم ہاتھ میں لیکر لکھنے لگا تو سوچا کہ شرقپور میں موجود صحافی دوستوں سے حقائق معلوم کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔

کچھ ہی لمحوں بعد فون پر دوسری طرف سید طہماسپ علی نقوی تھے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں سے وابستہ ہیں اور اپنی فیلڈ میں اچھی شہرت کے حامل ہیں۔اور پریس کلب شرقپور شریف کے سکریٹری بھی منتخب ہوئے ہیں۔ ان سے دریافت کیا کہ ملک ذوالفقار احمد سابق ایس ایس پی کا کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ملک صاحب نے گذشتہ روز ایک نیوز کانفرنس بھی ہے ۔ ان کی بات درست ہے اور اسسٹنٹ کمشنر شرقپور شریف نورش صبا پر اپنے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

سابق ایس ایس پی پولیس ملک ذوالفقار احمد کی میل میں بیان کردہ واقعات کی تصدیق ہونے کے بعد مجھے ایک زبردست دھچکا لگا کیونکہ ہم تو یہی سنتے آئے ہیں کہ خواتین مردوں کی نسبت کہیں زیادہ حلیم طبع،تحمل اور بردبار ہوتی ہیں۔ یہ لوگوں سے نہایت مہذب انداز گفتگو اختیار کرتی ہیں اور لوگ بھی ان سے ملتے وقت کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرتے…… خواتین سول سرونٹ کی اہم پوسٹس پر تعیناتی کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ افسر حاکم نہیں بلکہ ان کے خادم ہیں۔اور عوام خواتین سول سرونٹ کے پاس ہر قسم کے کوف ،ڈر اور جھجک کے بغیر پیش ہو سکیں-

سابق ایس ایس پی پولیس ملک ذوالفقار احمدکی عمر اس وقت ستر سال ہے اور وہ دل کا مریض ہونے کے علاوہ دیگر کئی امراض میں بھی مبتلا ہیں۔گذشتہ دنوں سابق ایس ایس پی گندم کی خریداری اور باردانہ کی معلومات کے حصول کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر شرقپور گئے تو تحصیلدار سے پٹواری تک کے عملے کی عدم دستیابی کے باعث انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر شرقپور میڈم نورش صباء سے ملنے کا فیصلہ کیا اور ملاقات کے لیے ’’ پرچی‘‘ ان کے پی اے کے پاس جمع کروائی ……پی اے صاحب نے بتایا کہ ’’میڈم صاحبہ ایک ضروری میٹنگ میں ہیں‘‘جس پر وہ انتظار کرنے لگے تقریبا آدھا گھنٹے بعد دوبارہ ’’ پرچی براہ راست میڈم صاحب کو بھیجی گئی جس پر اے سی صاحب نے بلا کربنا کسی بات کے اپنے عملہ کو حکم دیا کہ انہیں دھکے دیکر میرے آفس سے باہر نکالاجائے‘‘ چنانچہ ماتحت عملہ نے ویسا ہی کیا جیسا ان کی باس نے حکم تھا۔

مجھے اسسٹنٹ کمشنر شرقپور شریف کے رویے کے متعلق جان کر دکھ ہوا اور سوچنے لگا کہ ہماری نوجوان نسل کی نمائندہ خاتون افسران کو کیا ہو گیا ہے ۔ کیونکہ کچھ ہفتوں سے مریدکے میں تعینات ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف بھی پٹوااری سراپا احتجاج ہیں۔ میں حیران ہوں کہ لاہور کے نزدیک ترین ہونے کے باوجود ان خاتون افسران کو وزیر اعلی پنجاب یا چیف سکریٹری پنجاب کا خوف اور ڈر نہیں ہے اور بڑی بے باکی سے ایسے اقدامات کر گزرتی ہیں جن کی عوام توقع نہیں رکھتے۔اسسٹنٹ کمشنر شرقپور کو ہو سکتا ہے کہ ملک ذوالفقار احمد سے کوئی گلہ شکوہ یا کوئی شکایت ہو لیکن انہیں عمر رسیدہ ہونے کے ناطے ہی سہی ملک صاحب کو اس سلوک کا مستحق نہیں ٹھہرانا چاہیے تھا ،ان کی ملک و قوم کے لیے خدمات کا احترام لازم تھا ہاں اگر اے سی صاحبہ کے پاس وقت کی قلت تھی یا وہ واقعی کسی اہم میٹنگ میں مصروف تھیں تو ان کا پھر کسی وقت آنے کا کہا جا سکتا تھا۔

وزیر اعلی اور چیف سکریٹری پنجاب کو اس واقعہ کیا نوٹس ضرور لینا چاہیے اور اس معاملے کی آزاد انہ تحقیقات کروانی چاہیے تاکہ دونوں کے درمیان پائے جانے والے تحفظات کا ازالہ کیا جا سکے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت وسیع پیمانے پر مہم چلائے ہوئے ہے کہ سینئر شہریوں کو عزت و احترام دلوایا جائے۔آج اگر ملک ذوالفقار احمد کے مسلے پر درگزر سے کام لیا گیا یا چشم پوشی کی راہ اپنائی گئی تو اس طرح نوجوان سول سرونٹ کے حوسلے بڑھ جائیں گے اور وہ کسی دوسرے سینئر ریٹائرڈ افسر کی بے عزتی کر دیں گے۔ ملک ذوالفقار احمد اور اے سی شرقپور شریف کے درمیان ہونے والے تنازع کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ وزیر اعلی پنجاب کی ناک کے نیچے ہوا ہے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.