قوم اور قوم پرستی

یہ انسانی المیہ رہا ہے کہ کسی بھی معاملے میں تحقیق اور جاننے کی زحمت کئے بنا نفرت اور محبت کا کھلے عام اظہار کیا جاتا ہے چونکہ اس اندھی تقلید سے اکثر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جسے نفرت کی جائے اسے معذرت اور جس سے محبت کی جارہی تھی اس کے ساتھ احتیاط برتنا پڑا ہے یہ انجانے وجوہات معاشرے کے لئے باعث نفرت بنتی ہیں۔ہم نے کچھ افراد سے محبت اور نفرت کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی تو زیادہ تر نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں شخص سے بلا وجہ نفرت تھی ،جب اُس سے روابط بڑھنے لگے تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک اچھا انسان ثاابت ہوا اور ہماری سوچ غلط تھی اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی کہ کچھ نے یہ کہا ہم فلاں انسان سے بلا وجہ محبت کرتے تھے ،پسند کرتے تھے جب اس انسان سے ملاقات اور بات چیت کرنے لگے تو وہ انتہائی نامعقول آدمی لگا ہمارا اس کے بارے میں تجزیہ ٹھیک نہیں تھا۔یہ تو انفرادی سطح کی بات ہوئی۔اسی طرح کسی سیاسی پارٹی،کوئی تنظیم،مذہبی ہو یا قومی جب تک ہم ان کے ساتھ قربت حاصل کر کے بہت نزدیک سے نہیں دیکھتے،پرکھتے تب تک سنی سنائی ہوئی باتوں پر آنکھیں بند کرکے انہیں اچھا یا برا کہنا دانشمندی نہیں ہے۔چونکہ ہم بات کرنے جارہے ہیں قوم اور قوم پرستی کے حوالے سے ۔تو جدید قوم کی تعریف یہ ہے کہ انسانوں کا وہ گروہ جو ایک ہی جغرافیائی حدود کے باسی ہوں اور جن کا نفع نقصان مشترک ہو وہ ایک قوم کہلاتی ہے اس بات سے بالاتر کہ ان کے اندر چھوٹی قومیتیں،مذاہب،مسالک کتنے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان کے بنیادی مسائل،وسائل نفع،نقصان ایک ہیں یانہیں۔تو آیئے ذرا گلگت بلتستان پر ہی نظر ڈالتے ہیں۔گلگت بلتستان میں بفضل تعالیٰ سب مسلمان ہیں،مسلکوں میں اہل تشیع،اہل سنت،اسماعیلی،نور بخشی اور ان کے مسلکی کچھ شاخیں ہیں،قوموں میں دو بڑی قومیں یشکن اور شین کی اکثریت ہے اور دیگر چھوٹی قومیں بھی موجود ہیں۔زبانوں میں شینا، بروشسکی، وخی، خوار، گجری کے ساتھ ایک آدھ زبان اور ہوسکتی ہے۔یہ تمام لوگ ایک ہی جغرافیائی حدود میں صدیوں سے رہ رہے ہیں ان سب میں سب سے اہم مشترک بات یہ ہے کہ ہماری حفاظتی چاردیواری قدرت نے بلند بالا پہاڑ عطا فرمایا ہے یعنی ہم سب پہاڑوں کے اندر ایک وسیع گھر کے باسی ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ ایک ہی خاندان کے لوگوں نے ادھر ادھر گھر بنا رکھا ہے جب اس پر تحقیق کی گئی تو واقعی ایسا ہی نظر آیا وہ اس طرح کہ چلاس اور داریل کے لوگوں کے رشتے ناطے نگر،ہنزہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں گوجال کے بلتستان کے ساتھ اور بلتستان کا گوجال اور دیگر علاقوں میں بھی رشتے ہیں جب کے گلگت بلتستان کا دارالخلافہ گلگت میں نگر، دیامر استور، پونیال اور چترال تک رشتے ناطے اور لوگ موجود ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ لوگ بھی آئے کہاں سے ہیں ہمیں بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔بس جو بھی اس جنت نظیر خطے کے باسی ہیں یہ سب کے سب پہاڑوں کی گود میں پناہ لئے ہیں۔ایک ہی جغرافیہ اور پہاڑوں کی قطاروں میں ہم بھی قطار در قطار بسنے لگے ہیں اور ان پہاڑوں پر موجود گلیشر،برف اور چشموں کا پانی ہم سب استعما کرتے ہیں بہت کم جگہوں پر دریا کا پانی استعمال ہوتا ہے گو کہ یہ دریا بھی ان ہی پہاڑوں، ندی نالوں کی پانی سے بنتا ہے۔خدا نخواستہ کوئی قدرتی آفت آ ں پڑنے کی صورت میں ہم سب متاثر ہیں جیسا عطاآباد کے سانحہ سے سب متاثر ہوئے،قہر الٰہی ہو یا نعمت الٰہی متاثر اور مستفید ہم سبھی ایک ساتھ ہی ہوتے ہیں۔جب کہ بیش بہا وسائل میں رہتے ہوئے حکومت کی عدم توجہی کی شکار کی وجہ سے ہم مسائل کے بھنور میں ہیں،جی بی کا کوئی ایسا علاقہ،چپہ خالی نہیں جہاں قدرتی وسائل موجود نہ ہوں جہاں کارخانے لگنے کے مواقع نہ ہوں ہر جگہ وسائل ہی وسائل میسر ہیں۔حکومت نے جو کچھ آج تک دیا ہے وہ ہمارے وسائل کا عشر عشیر بھی نہیں مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ قطرے سب کوملتے ہیں۔ جب یہ علاقہ زون Eکی زد میں آیا سبھی اس زمرے میں آئے اس خطے میں موسم کی خرابی ہو یا خوشحالی سب پر یکساں اثرات مرتب ہوتے ہیں ہم کس کس کا ذکر کریں ’’دانا را اشارہ کافی است‘‘ جب ڈوگرہ سامراج کو یہاں سے نکالنا ہوا تو سب نے مل کر تاریخی جنگ لڑی۔3اپریل1999 میں پورا گلگت بلتستان ایک پرچم تلے جمع ہوا اُس دن ہنزہ چوک کا نام اتحاد چوک رکھا گیا عوامی ولولہ جوش جذبے کی وجہ سے یہ تاریخی احتجاجی جلسہ ختم ہونے سے قبل ہی ٹیکس ختم کرنے کاNOTIFICATIONآیا حالیہ دنوں میں جب عوام متحد ہوئے تو گندم کی قیمت کو پراے نرخ پر دینے میں حکومت مجبور ہوئی۔ان اشارتاً دیئے گئے چند حقائق سے یہ بات مصدقہ طور پر ثابت ہوتی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ ایک قوم ہیں ان کا جینا مرنا،نفع،نقصان مشترک ہے پھر وہ کون سی شئے، مجبوری ہے کہ جس کی وجہ سے ہم خود کو ایک قوم کہتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔

’’قوم پرستی‘‘ لفظ قوم پرستی کا نام سنتے ہی بہت سے لوگ نفرت کرتے ہیں بعض فتوے بھی لگا دیتے ہیں مگر وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں جوان پہاڑوں کی چار دیواری سے باہر نکل کر دنیا دیکھ چکے ہیں انہیں معلوم ہے کہ قوم پرستی کیا ہے اور اس کی کتنی ضرورت ہے۔بحیثیت مسلمان ہم سب کی کتابوں میں کیا یہ لفظ موجود نہیں ہے کہ’’رسول عربیﷺ‘‘میرا سوال ہے کہ آپؐ کو رسول عجمی کیوں نہیں کہا گیا؟ تو جواب یہی ملے گا کہ آپؐ عربی قریش تھے اس لئے آپؐ نے خود کو عربی کہا ہے عجمی کیونکر کہا جائے۔جب کہ قرآن پاک میں خدا فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں قوموں اور قبائلوں میں تقسیم کیا تاکہ تمہاری آپس میں پہچان ہوجائے یا تم پہچانے جاؤگے۔اسلامی نقطہ نظر سے جس قوم پرستی کو بت پرستی کہا گیا ہے وہ اس قوم پرستی کو کہتے ہیں جو قوم خود کو سب سے افضل قوم تصور کرے جبکہ دوسرے اقوام کو کمتر جانے یقیناً یہ قوم پرستی قابل مذمت ہے۔ آیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دنیا میں گلگت بلتستان کے علاوہ کوئی ایسی جگہ،ایسا ملک بھی ہے جو قوم پرستی کے عنصر سے خالی ہو؟ بحیثیت شیعہ اگر ایرن کی بات کریں تو ایرانی قوم پرستی کی مثال بہت ہی کم ملے،اگر بحیثیت سنی دیکھا جائے تو سعودیہ کی قوم پرستی شاید اس کی مثال ہی نہ ملے،ہمارے پڑوس میں چین ہے چائنیز کس قدر قوم پرست ہیں آپ چائنا جانے والوں سے معلوم کرسکتے ہیں، جاپان بہت بڑا قوم پرست۔ یعنی اقوام عالم کی ترقی کا دارومدار ہی قوم پرستی پر ہے یہ قوم پرستی ایک طرح کا ’’نیو کلس ہے‘‘۔جب اپنی قوم کی بھلائی نہیں سوچیں گے،قوم کا خیال نہیں رکھیں گے مشترکہ قومی مفاد پر مبنی امور کو ترجیح نہیں دیں گے تو ترقی کس طرح ہوگی،اپنی حفاظت کیسے کی جائے گی ۔زندہ قوموں کے اندر قوم پرستی کا جزبہ ہر وقت تازہ دم رہتا ہے۔پاکستان میں بھی قوم پرستی ہے مگر وہ یک پرستی نہیں، پختون پرستی، پنجاب پرستی، سندھ پرستی، بلوچ پرستی ہے اگر یہ سب مل کر پاکستان پرستی کریں تو ترقی اور امن دور کی بات نہیں ہے۔لیکن وہ کریں گے بھی کس طرح استحصالی نظام جو تناور بن چکا ہے۔پاکستان عمر کے لحاظ سے گلگت بلتستان سے بہت ہی چھوٹا ہے۔ جی بی کی تاریخ قبل از مسیح سے چلی آرہی ہے بہت پیچ وخم کھاتی ہوئی تاریخ ہے جب سے یہاں قوم پرستی کا عنصر کمزور پڑ گیا ہے تب سے ہر منفی سرگرمیوں نے اپنا سر اُٹھا رکھا ہے جس کا ذکر کرنا ضروری نہیں، سب اس بابت اچھی خاصی جانکاری رکھتے ہیں۔45سالوں سے وفاق پرستی کی بنیاد پر انتخابات ہورہے ہیں کیا ملا بہت کچھ کھویا ہم نے،یہاں کوئی بھی کسی بھی لبادے میں باہر سے آجائے آپ کا خیر خواہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا ہے۔اور آپ سب جو بھی وفاقی پارٹیوں میں سیاست کھیل رہے ہیں آپ تو اس پارٹی کے منشور کے پابند ہیں جہاں گلگت بلتستان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔اگر ہم قومی بنیادوں پر الیکشن میں حصہ لیں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی کو مد نظر رکھ کر سیاست کریں یا کر چکے ہوتے تو اب تک گلگت بلتستان دنیا میں ایک ماڈل بن چکا ہوتا ۔لوگ اس کی مثال لیتے جیسے ہم ان ممالک کی مثال دیتے ہیں جو بہت بعد میں آزاد ہوئے ہیں۔اب بھی وقت ہے اگر ہم قوم پرستی یعنی گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے اکھٹے ہوں یا قومی جزبہ رکھنے والوں کو کامیاب بنائیں تو یہ ایک نیک شگون ہوگا۔ ہمیں واقعی صادق اور آمین کو دیکھنا چاہئے خواہ وہ غریب ہی کیوں نہ ہو ہمیں مل کر ایسے افراد کا انتخاب کرکے انہیں کامیاب بنانا چاہئے تاکہ ہماری تقدیر کے فیصلے کسی اور کو کرنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔ اب موجودہ حالت میں پاک چین راہداری کے حوالے سے گلگت بلتستان کا یا یہاں کے سیاستدانوں کا کیا کردار نظر آتا ہے راستہ ہمارے سینے پر بن رہا ہے اور مفاد کسی اور ملے کیا یہ زیادتی نہیں۔در حقیقت میں گب اور چین کے درمیان راہداری کے حوالے سے معاہدہ ہونا چاہئے جو جی بی کے مفاد میں ہو، جہاں سے پاکستان کی سرحد شروع ہوتی ہے وہاں سے آگے پاک چین معاہدے ہوں کیا یہ ہمارا حق نہیں ہمیں کیوں کوئی بائی پاس کرے کیا اس اہم مسلہ پر ہم سب کو بیدار ہو کر فیصلے کرنے کی ضرورت نہیں؟۔ کیا اس اہم معاملے پر جی بی کے لوگ مل کر اس قومی مفاد کی بات نہ کریں کیا یہ جائز نہیں؟کیا اپنے وسائل کو لوٹٹے ہوئے دیکھ کر خاموش ہونا ہمیں زیب دیتا ہے یا اپنے وسائل اور قوی مفادات کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک ہم نے مل کر قومی بنیاد پر سیاست میں آگے نہ بڑھیں تب تک باہر کر کے لوگ یہاں کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر انہیں بہ آسانی بیوقوف بنا کر ان سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد انہیں بے آسرا چھوڑ جاتے ہیں لہٰذا ہماری سوچ غور فکر کا دارومدار خالصتاً قومی ہونا از حد ضروری ہے۔ان مذکورہ حقائق سے یہ بات واضع ہوئی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام ایک مکمل قوم ہے اور ہماری ترقی کا دارومدار واحد قوم پرستی ہے اس نصف صدی میں ہمیں وفاق پرستی کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔قوم پرستی کی سوچ رکھنے والوں میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کا سوچنا ہی گناہ سمجھتے ہیں اور جی بی میں بسنے والے تمام لوگوں سے بلا رنگ نسل سب سے محبت رکھتے ہیں اور اس جنت نظیر وادی کی پسماندگی کو ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں نہ وہ اپنے لے عالی شان بنگلے بنانے کے خواہاں ہیں نہ بینک اکائنٹ اور پلاٹوں کا شوق رکھتے ہیں اس لئے ہمیں چائے کہ قوم پرستی کے نام پر جہاں کہیں سے بھی کوئی نمائندہ عوامی خدمت کے لئے میدان میں اترے تو انہیں ضرور کامیاب بنایا جائے تاکہ یہ ہم سب کی کامیابی ہوگی اگر ہم ایک قومی سوچ اور قوم پرستی کے جذبے پر گامزن رہیں گے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی بد نیت قوت ہمیں منتشر کرنے اور اپنا آلہ کار بنانے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکے گی، بس ہمارا حال اور درخشاں مستقبل کی ضمانت قومی جزبے کے ساتھ جدوجہد پر منحصر ہے۔کیا ہماری قسمت میں فقط یہی لکھا ہے کہ ہر آنے اور جانے والوں کے لئے قالین کی طرح بچھ جائیں جو اپنی قیمیتی جوتی رگڑتے ہوئے گزر جائیں۔ ہمیں اس قابل تو بننا چاہئے کہ ہم بھی کسی کی قالین استعمال کر سکیں۔ اس مقام تت پہنچنے کے لئے ایک قومی پلیٹ فارم کا وجود ضروری ہے ۔
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.