نوجوان نے فون اٹھایا۔ کوئی صاحب
اپنا تعارف کرانے لگے کہ دبئی سے آئے ہیں۔ ان کی کمپنی دبئی کی ایک بہت بڑی
اور معروف کمپنی ہے اور کمپنی نے پاکستان میں چند انڈسٹر یل پراجیکٹ شروع
کیے ہیں۔ لاہور میں اپنا ہیڈ آفس بنا رہی ہے اور اِس آفس انچارج کے لیے
انہیں نوجوان جیسے ذہین اور محنتی نوجوان کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوان سے ملنا
چاہتے ہیں تا کہ اپنے چیرمین سے انٹرویو کروا نے کے لئے بنیادی باتیں طے کر
سکیں۔ نوجوان نے کہا کہ میں جہاں کام کر رہا ہوں بڑی معقول فرم ہے اور میں
اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ تنخواہ بھی معقول ہے، کام بڑا جائز ہے۔ مجھ پرکوئی
بوجھ نہیں۔ مالکان کا روّیہ بہترین ہے میں یہ نوکری چھوڑنا نہیں چاہتا۔
جواب ملا کیا لیتے ہونگے؟ ستر، اسی ہزار، ہم آپ کو بہت بہترے پیکیج دیں گے۔
نوجوان نے کہا کہ میں ایک لاکھ سے زائد لیتا ہوں اور اس کے علاوہ بہت سی
مراعات ہیں۔ مگر وہ صاحب بضد تھے کہ ملاقات تو کرو۔ ہمارا پیکیج پسند آئے
تو جائن کرنا وگرنہ کوئی زبردستی تو نہیں۔ نوجوان نے جواب دیا سوچتا ہوں
اور اپنی طرف سے اس شخص کو ٹرخا کر فون بند کر دیا۔
دو دن بعد پھر فون آیا۔ فون کرنے والے شخص نے نوجوان سے اس کے فیصلے کے
بارے پوچھا۔ نوجوان نے کوئی فیصلہ کیا ہی نہیں تھا کیا جواب دیتا۔ وہ شخص
بضد تھا کہ ان کے چیرمین سے بس ایک ملاقات کر لی جائے کیونکہ اس نے چیرمین
سے بات کی ہے وہ تین لاکھ روپے تنخواہ، گاڑی اور پانچ لاکھ روپے کیش
ایڈوانس دے دیں گے اور اسے اس کے شعبے کا انچارج بھی لگادیں گے۔ اتنی بڑی
پیشکش، نوجوان سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ اس نے کہا سوچنے کے لیے ایک دن اور
دے دیں میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مشورہ کر لوں۔ ترقی کسے نہیں بھاتی؟
اتنی زیادہ تنخواہ، گاڑی اور وہ سب کچھ جس کا انسان تصور کرتا ہے اگر بیٹھے
بٹھائے مل جائے تو کسے اچھا نہیں لگتا؟ اس شخص نے اپنی دبئی کی کمپنی کا
کچھ نام بھی بتایا تھا۔ نوجوان نے انٹرنیٹ پر سرچ کی۔ مکمل نام میں تھوڑی
بہت فرق کے ساتھ اس نام کی کئی کمپنیاں دبئی میں موجود تھیں۔ شاید انہی میں
کوئی کمپنی پیشکش کرنے والوں کی ہوگی۔ بہت سوچ و بچار کے بعد نوجوان نے
انٹرویو کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔ جواب ملا لاہور کا دفتر جس کے آپ فی
الحال جائن کرنے کے بعد انچارج ہونگے شروع نہیں ہوا۔ اس کے لیے جگہ ڈھونڈ
رہے ہیں۔ اس لیے آپ کو انٹرویو کے لیے سیالکوٹ آنا ہوگا۔ اس کے لئے آپ بتا
کر آئیں۔ کمپنی کا ڈرائیور اور کوئی نہ کوئی نمائندہ آپ کو سیالکوٹ سے
ہمارے دفتر تک لے آئے گا۔
اگلے دن نوجوان دفتر سے چھٹی لے کر اپنے رنگین سپنوں کے سفر پر روانہ ہو
گیا۔ اس شخص کو اس نے اطلاع دے دی تھی کہ وہ ڈائیوو پر صبح دس بجے سیالکوٹ
پہنچ جائے گا۔ جواب ملا کہ فکر نہ کریں۔ ہمارے لوگ وہاں آپ کے منتظر ہوں گے۔
بس سیالکوٹ پہنچی تو واقعی وہ لوگ منتظر تھے۔ نوجوان کو گاڑی میں بٹھا کر
وہ سیالکوٹ پسرور روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان نے کچھ پوچھنا چاہا تو ڈرائیور کے
ساتھ آنے والے شخص نے کہا کہ ہم کمپنی کے فارم ہاؤس پر جا رہے ہیں۔ وہیں چل
کر باقی باتیں کریں گے۔ آدھ گھنٹے بعد گاڑی مین روڈ سے ہٹ کر ایک کچے اور
ویران راستے پرتین چار کلو میٹر چلنے کے بعد قبرستان کے ساتھ بنے ہوئے ایک
ویران سے مکان پر رُک گئی۔ ڈرائیور کو کہا گیا کہ مکان سے ہٹ کر دور سامنے
درخت کے نیچے گاڑی لے جائے اور وہ شخص نوجوان کے ساتھ مکان میں داخل ہو گیا۔
نوجوان اردگرد کے پراسرار ماحول کو دیکھ کر پہلے گھبرایا مگر پھر ہر طرح کے
حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو کر مکان میں داخل ہو گیا۔ گھر کے اندر
داخل ہو کر وہ شخص نوجوان سے کھل کر باتیں کرنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے
نوجوان کو مبارکباد دی کہ وہ آج ایک شاندار ملازمت حاصل کر رہا ہے۔ اس نے
بتایا کہ کمپنی کا چیرمین بہت سادہ دل آدمی ہے جسے بلا لے اس کی ملازمت پکی
ہوتی ہے۔ اب تھوڑے سے انتظار کی بات ہے چیرمین صاحب آتے ہی ہوں گے۔
اسی دوران ایک اور شخص کمرے میں داخل ہو ااور ان دونوں کے درمیان ایک عجیب
مکالمہ شروع ہوا۔ کیسے آئے ہو؟ بڑی مشکل سے آیا ہوں، چیرمین صاحب سے فقط دو
تین منٹ کی ملاقات کرنی ہے۔ جواب ملا یہ نہیں ہو سکتا۔ تمہیں پتہ ہے وہ بہت
مصروف آدمی ہیں۔ لاہور آفس کے لیے ان صاحب کو ملازم رکھنا ہے۔ بس ان کے
انٹرویو کے لیے بمشکل پانچ منٹ نکال کر آرہے ہیں۔ تمہیں دیکھ کر مجھ پر
ناراض ہونگے بہتر ہے تم یہاں سے چلے جاؤ۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کے کان
میں کھسر پھسر کی اور طے ہوا کہ چیرمین سے کامیاب ملاقات کروانے پر آنے
والا شخص پہلے شخص کو دس ہزار دے گا۔ اب آنے والا شخص کہنے لگا کہ چیرمین
اس کا پرانا واقف ہے بہت سادہ آدمی ہے، مگر جوا کھیلنے کا بہت شوقین ہے۔
مگر مجھ سے جب بھی کھیلتا ہے ہار جاتا ہے۔ مگر پھر بھی کھیلتا ہے۔ کبھی
کبھی مجھے انٹرنیشنل کلبوں میں لے جاتا ہے اور میں اسے بڑے پیسے جیت کر
دیتا ہوں۔ نوجوان یہ عجیب سی گفتگو سن رہا تھا کہ پتہ چلا چیرمین صاحب آگئے
ہیں اس نے پیشہ ور جواری کو ہدایت کی کہ ایک طرف بیٹھ جائے۔ انٹرویو شروع
ہونے لگا ہے۔
فوراً ہی چیرمین صاحب تشریف لے آئے۔ شکل و صورت سے چیرمین کم اور بدمعاش یا
فراڈیے زیادہ محسوس ہو رہے تھے۔ نوجوان سے انہوں نے فقط اتنا کہا کہ ٹھیک
ہے آپ کے بارے مجھے سب پتہ چل گیا ہے۔ میرے بندوں نے سب معلومات لے لی تھیں
میں صرف ملنا چاہتا تھا۔ اب ملاقات ہو گئی۔ آپ مطمئن ہو جائیں آپ ہمارے
لاہور آفس کے انچارج ہوں گے۔ ایک ہفتے میں دفتر لے کر آپ کو اطلاع دے دیں
گے۔ ہمارا دبئی آفس آپ کو لیٹر بنا کر بھیجوا دے گا۔ پھر سائیڈ پر بیٹھے
شخص کو مخاطب کر کے بولے او! تم کہاں؟ یہاں کیسے پہنچے؟ جواری نے کہا جناب
آپ سے کھیلے بڑے دن ہو گئے بس کھیلنا چاہتا ہوں۔ چیرمین صاحب ہنسے اور بولے،
تمہیں پتہ ہے کہ میں تم سے ہار جاتا ہوں مگر تم سے کھیلنے میں مجھے بہت مزہ
آتا ہے۔ اس لیے بہت چکر باز ہو۔ مجھے لوٹنے آجاتے ہو۔ خیر چلو کھیل لیتا
ہوں پیسے کتنے لائے ہو؟ جواری بولا جناب اس وقت تو فقط دس پندرہ ہزار ہیں۔
نہیں نہیں میں بھوکے ننگوں سے نہیں کھیلتا۔ میرے ساتھ کھیلنا ہے تو میں
پچاس لاکھ سامنے رکھوں گا۔ تم بھی اتنے لے کر آؤ۔ جواری نے پھر کہا جناب
پچاس لاکھ میرے بس میں نہیں۔ ٹھیک ہے کم از کم دس لاکھ لے آؤ۔ میں پچاس
لاؤں گا۔ آگے تمہاری قسمت۔ ویسے مجھے پتہ ہے کہ میں ہاروں گا، مگر تمہارے
ساتھ کھیل کا مزا بہت ہے اس لیے کھیلوں گا۔ میں دو دن یہاں ہوں پرسوں دس
لاکھ لے آؤ۔ پھر اپنے بندے سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ پرسوں دس لاکھ لے آئے
تو بنک سے میرے پچاس لاکھ منگوا کر مجھے اطلاع دینا میں فوراً آجاؤں گا۔
چیرمین چلے گئے جواری اس شخص سے کہنے لگا کہ یار دس لاکھ کا انتظام ذرہ
مشکل ہے ورنہ پچاس تو جیت ہی لوں گا۔ تم بھی کچھ مدد کرو۔ وہ سوچنے لگے۔ اس
شخص نے کہا پچاس میرے گھر میں ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ کا بیوی کا زیور ہوگا، مجھے
کیا ملے گا؟ جواری نے کہا جو دس لاکھ کرے پچیس اس کا اور پچیس میرا، تم دو
لاکھ کرو تمہیں پانچ مل جائے گا۔ باقی کا کیا کریں۔ یکدم وہ نوجوان کی طرف
مڑے بھائی تم کیا مدد کر سکتے ہو؟ نوجوان نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔
بہت بے وقوف ہو، صرف ایک دن میں ڈھائی گنا پیسے مل رہے ہیں۔ قسمت کی
مہربانی کو ٹھکرا رہے ہو۔ بیوی کے زیور بیچ دو، کسی عزیز یا دوست سے ادھار
لو اور کھیل جاؤ، جو خرچ کرو گے ڈھائی گنا لے کر جاؤ گے۔ نوجوان نے ان کے
تیور دیکھے، باہر ویرانے اور قبرستان کا سوچا اوراپنی بحفاظت واپسی کی خاطر
کہا، شاید تین لاکھ ہو جائیں۔ نہیں کوشش کرو پانچ ہو جائیں۔ اچھا کوشش کرتا
ہوں۔ ساڈے بارہ اسی دن مل جائیں گے، بالکل مل جائیں گے۔
تھوڑی دیر بعد نوجوان ڈرائیور کے ساتھ بخیریت واپس جا رہا تھا۔ اس نے
ڈرائیور سے سوال کیا کہ جانتے ہو یہ کون لوگ ہیں، جن کے پاس آپ ڈرائیور کے
طور پر کام کر رہے ہیں۔ پہلے ڈرائیور کچھ جھجکا۔ پھر بتانے لگاکہ وہ رینٹ
اے کار پر ملازم ہے اور ان لوگوں نے ایک ہفتے کے لئے گاڑی کرائے پر لی ہوئی
ہے۔ روز ایک یا دو دفعہ کسی نوجوان کو سیالکوٹ سے لاتا ہوں۔ کسی کو واپس
جانا ہو تو چھوڑ آتا ہوں۔ جسے میں نہیں چھوڑتا پتہ نہیں وہ کیسے جاتا ہے
کیونکہ یہاں سے گاڑی کے بغیر جانا کچھ ناممکن سا ہے۔ مجھے جس دن میرے پیسے
مل گئے دوبارہ نہیں آؤں گا۔یہ لوگ تو بڑے پراسرار سے ہیں۔
یہ ایک نہیں بہت سے نوجوانوں کے ساتھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ کوئی منظم گروہ
نوکری کا جھانسہ دے کر لوگوں کو لوٹ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ نوجوانوں کو
مالی کے علاوہ بھی ان لوگوں سے نقصان پہنچا ہو۔اس قدر دھوکہ، اتنا فریب،
پتہ نہیں کتنے لوگ ان کے جھانسے میں آ کر لٹ چکے۔ لوگوں کے پاس وہ فون نمبر
ہیں جن سے ان سے رابطہ کیا گیا۔ حکومت کی کسی نہ کسی ایجنسی کو چاہیے کہ اس
معاملے کی پوری تحقیق کرے اور اس کی تہہ تک پہنچے۔ ہو سکتا ہے لاپتہ ہونے
والے کچھ لوگوں کا بھی سراغ مل جائے۔ حکومتی سطح پر ان جعلسازوں اور دھوکہ
دہی کرنے والوں کے خلاف فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ |