ڈرامہ

کردار :۔ [(زینب) (حسیب)] (بیٹا)
[ما ما ۔ پا پا ۔ ] خا لہ جان ۔ طلحہ ۔
آمنہ لامی) صدیق لابو ) انور ۔ زینت۔
منظر نمبر 1
خالہ جان زینب اور حبیب صاحب کو سامان سنبھالتے بڑی عجیب اور حیران کن نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ زینب (طلحہ کی ماما) اپنا زیور نکال کر ایک خوبصورت سے ڈبے (بکس) میں ڈال رہی ہیں۔
حبیب صاحب (طلحہ کے پاپا ) طلحہ کی ماما سے کہتے ہیں ۔
(حبیب) پاپا :۔
یہ سب ضروری کا غذات اور بانڈز وغیرہ سب زیورات کے ساتھ لاکر میں رکھوا دو۔
اور ہاں دو نوں بڑی گاڑیوں کی چا بیاں ڈرائیور سے لے کر اُن کو گیراج میں بند کرا دو اور گیراج کی چاجی اپنے پاس رکھنا۔
طلحہ کو چھوٹی گاڑی دے دینا اور ڈرائیور کو چھٹی نہ دینا۔ اور خالہ جان سے پوچھ کر انکی دوائی وغیرہ اور دوسرا سامان خود ڈرائیور کے ساتھ جاکر لے کرلے آنا تاکہ خالہ جان کو بعد میں کوئی دقت نہ ہو۔
میرے فیکڑی کے اور باہر کے دوسرے بڑے کام ہیں۔ میں ناشتہ کرنے جا رہا ہوں اور آپ بھی جلدی ہی آ جائیے گا۔
(زینب) ماما:۔
آپ میرے کاموں کی فکر نہ کریں۔ میں کون سا پہلی دفعہ مُلک سے باہر جا رہی ہوں۔ اس سے پہلے کبھی شکایت کا موقع دیا۔
پاپا :۔
پہلے کی اور بات تھی ہم ہفتہ دو ہفتے کیلئے جا یا کرتے تھے ۔ اب تو دو مہینے کیلئے جارہے ہیں۔
سب چیزیں ذرا دھیان سے سنبھال لینا ۔ اور ہاں درائینگ روم اور اپنے کمرے کو لاک لگا دینا۔ بڑا قیمتی سامان ہے۔ سمجھتی ہو نا تُم ۔نو کروں پر تو بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
ماما :۔
میں تو سمجھتی ہوں ۔ میں نے تو پہلے بھی کہا ہے کہ میں کوئی پہلی دفعہ نہیں جارہی ہوں ۔ جانا چاہے دو ہفتے کیلئے ہو یا دو مہینے کیلئے ، چیزیں تو سنبھالنی پڑتی ہیں۔
پا پا (حبیب):۔
اچھاآؤ اب ناشتہ کرلو۔ گھنٹہ تو تُم نے ناشتہ کرنے میں لگا دینا ہے۔
ما ما (زینب):۔
آپ کو پتہ ہے کہ افرا تفری میں مجھ سے کھایا نہیں جاتا ۔ ویسے بھی کھانا آرام و سکون سے کھانا چاہیے خالہ جان اِن دونوں کو بڑی حیرانی پریشانی سے عجیب نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ ان کی نظریں کیا کہہ رہی ہیں۔ سامان سمیٹتے ہوئے حبیب صاحب اور زینب سمجھ نہیں پا رہے۔
وہ اُن کو آتا جاتا دیکھتی جارہی ہیں۔
حبیب:۔
خالہ جان آپ تو ہمیں اس طرح سے دیکھ رہی ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کہوں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیسے دیکھ رہی ہیں۔ چلیں آئیں تھوڑا ناشتہ ہمارے ساتھ بھی کر لیں ۔ وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔
خالہ جان:۔
میں ایک ہی دفعہ ناشتہ کرتی ہوں ۔ وہ بھی صبع سات بجے، تمہاری طرح 10 بجے نہیں۔
حبیب پاپا :۔
اچھا تو آپ اس لیے اس طرح دیکھ رہی تھیں لیکن نہیں آپ کی نظریں تو کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔
(وہ جوس پیتے ہوئے بولے)
زینب (ما ما):۔
(اپنے کمرے سے تیز تیز چلتی ہوئی آتی ہیں)۔
شکر ہے ابھی آپ جو س ہی پی رہے ہیں۔ میں تو سمجھی آپ ناشتہ کرچکے ہوں گے۔ اچھا ہوا خالہ جان آپ نے انہیں باتوں میں لگائے رکھا۔
ہاں تو آپ کیا کہہ رہی تھیں (وہ کُرسی پر بیٹھتے ہوئے بولیں)
خالہ جان:۔
میں نے کیا کہنا ہے۔ میں تو سوچ رہی ہوں کہ والدین چاہے امیر ہوں یا غریب ، اگر انہیں کہیں اکیلے جانا پڑ جائے تو انہیں اپنے گھر اور سامان کی فکر ہوتی ہے کہ اپنا سونا چاندی ، روپیہ، پیسہ، جانور، بھیس ، بکری حتٰی کہ مرغی تک کی فکر ہوتی ہے کہ انہیں کسی محفوظ جگہ اور ایماندار لوگوں کے پاس چھوڑ کر جاتے ہیں۔
لیکن اولاد جو سب سے قیمتی اثاثہ ہے اُسے امیر لوگ نوکروں کے حوالے کر جاتے ہیں اور غریب یا درمیانے طبقے کے لوگ گلیوں کے حوالے کر جاتے ہیں اور بچے کو کہہ جاتے ہیں کہ باہر نکلو تو گھر کو تالا لگا کر جانا اور ہمسائے کو بھی کہہ جاتے ہیں کہ بہن ہمارے گھرکا دھیان رکھنا۔ لیکن اولاد کی کسی کو کوئی پروا نہیں ، نہ فکر ہے۔
ماما (زینب):۔
لیکن ہم تو انہیں گلیوں میں چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں۔ اتنے پرانے خاندانی نو کر ہیں۔ بڑا خیال رکھتے ہیں۔
خالہ جان:۔
تو اُن کے پاس یہ دولت ، زیورات جو لاکر میں رکھنے جارہی ہویہ بھی ان کے پاس رہنے دو ۔ یوں گاڑیوں اور کمرے بند نہ کرو۔
خاندانی نوکر ہیں۔ خیال رکھیں گے۔
اولاد کو کیا تم قیمتی شے نہیں سمجھتے ۔
میرا تو خیال ہے تم اولاد کو کوئی شے سمجھتے ہی نہیں۔
ابھی تم لوگ جاؤ گے طلحہ صاحب گاڑی کو اُ ڑاتا ہوا نکل جائے گا ۔
جب تک گھر نہیں آجاتا میں سکتے کی سی حالت میں رہتی دُعائیں مانگتی رہتی ہوں کہ نہ یہ کسی کا نقصان کرے نہ اِ سے کچھ ہو۔
شکر ہے میری بہن اور تمہاری ساس اس دُنیا سے جلدی چلی گئی ورنہ تو اُ س کا یہ اکلوتا پوتا روز اُسے ہارٹ اٹیک کرواتا۔
زینب (ماما)
اَوخالہ آپ فکر نہ کریں اب وہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا۔
خالہ جان:۔
(آپ فکر نہ کریں) ۔ یہ کہہ کر تُم کیا میری فکر دور کر دوگی جو میں دیکھ رہی ہوں وہ تُم کیوں نہیں دیکھ سکتے۔
پاپا (حبیب)
دراصل خالہ جان آپ لوگوں نے خالص خوراک کھائی ہوئی ہے، اس لیے آپ کی دور کی نظر ٹھیک ہے اور ہم کوتو قریب کی چیز بھی صاف نظر نہیں آتی۔ اس میں ملاوٹ کا قصور ہے۔
(وہ ہنستے ہوئے بولے) اچھا اب میں چلتا ہوں۔
خالہ جان :۔
یہ ہنسنے کا ہی نہیں شرمندہ ہونے کا مقا م ہے ۔ ایک تو آ ج کل کے لو گوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ ہسنے کی بات ہے کہ شرمندہ ہونے کی یا سوچنے کی بات بس ہر بات پر ہسنا شروع کر دو ۔

منظر نمبر 2
آمنہ اور صدیق کہیں جانے کی تیاری کر رہے ہیں کہ انور اور زینت اسکول سے آجاتے ہیں۔
زینت:۔
امی آپ پھر جارہی ہیں۔ میں نے رات کو بھی کہا تھا کہ شادی پر جانا ضروری ہے ۔ میں ڈرتی ہوں بھائی تو باہر چلا جاتا ہے ۔
امی (آمنہ):۔
تُم گھر ہی میں ڈرتی رہتی ہو۔ ہمارے یہاں کون سے کنال کنال کے گھر ہیں جو ایک دوسرے کی کسی کو خبر نہ ہو ۔ تین تین یا پانچ پانچ مرلے کے گھر ہیں۔ ذرا اونچا سا نس بھی لو تو دوسرے گھر آواز چلی جاتی ہے۔ ساتھ والی خالہ تمہارا دھیان رکھتی ہے۔ ایک آواز دو سب آجاتی ہیں۔
زینت:۔
مجھے کمروں سے ڈر لگتا ہے۔
امی:۔
تو صحن میں بیٹھ جا یا کرو۔
زینت:۔
تو پھر یہ درخت کٹوا دیں۔
انور:۔
کیوں (وہ جلدی سے بولا) جب بجلی جاتی ہے تو اِسی چھاؤں میں اور ہوا مزے دیتی ہے۔
ابو صدیق:۔
کیا بچوں کے ساتھ بحث کرنے لگ گئی ہو پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔
امی:۔
اب لڑائی نہ شروع کر دینا ۔ آرام سے کھانا کھانا اور جب بھائی ٹیوشن جائے تو دروازہ اچھی طرح بند کر لینا اور تُم انور ٹیوشن سے آکر بہن کو پڑھا دینا ہم رات نو دس بجے تک آجائیں گے۔
زینت:۔
مجھے ڈر لگتا ہے (وہ امی کے ساتھ لگ گئی)
امی:۔
بہادربنو بیٹا اپنے گھر میں کون ڈرتا ہے اب چھٹی کلاس کی بچی کتنی بہادربنے۔
طلحہ اپنے کمرے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ عجیب قسم کی ملی جلی smell آرہی ہے ۔ خالہ جان کے پوچھنے پر وہ طرح طرح کے بہانے کرتا ہے ۔
لیکن وہ اُس کی باتوں کا یقین نہیں کرتیں۔ وہ حبیب اور زینب کو فون بھی کرتی ہیں کہ مجھے نہیں پتہ کہ لڑکے کیا کرتے ہیں۔ لیکن اتنا اندازہ ہے کہ کچھ اچھا نہیں کرتے ۔ تُم زینب اپنا کام جلدی سے ختم کرکے آجاؤحبیب بعد میں آجائے گا لیکن وہ یہی کہتیں کہ خالہ جان آپ فکر نہ کریں بچے گھر پر ہیں کون ساباہر ہیں اب تو آپ پریشان نہ ہوں ۔
دیکھو بیٹا بچے چاہے گھر پر ہوں یا گھر سے باہر ماں باپ کو ان پر نظر رکھتی چاہیئے۔ ماں کو بچوں کے پاس ہونا چاہیے لیکن وہ ان کی بات سمجھ نہ سکیں اور پھر خالہ چپ ہوجاتیں۔
خالہ جان باہر لان میں بیٹھی ہیں۔ مالی بڑا پریشان ہے پودوں کو پانی دے رہا ہے لیکن نہ جانے کن سوچوں میں گُم ہے کہ خالہ جان پوچھتی ہیں۔
خالہ جان :۔
کیا بات ہے بیٹا بڑے پریشان ہو۔ گھر سب خریت ہے ناں۔
مالی :۔
جی بیگم صاحبہ
خالہ جان :۔
میں تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ مجھے بیگم صاحبہ نہ کہو خالہ ، ماں جی کہہ لو۔ ہم درمیانے طبقے کے خوشحال کھاتے پیتے لو گ ہیں کوئی امیر ترین لوگوں میں سے نہیں۔ محنت کرکے یہاں تک پہنچتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ نے ہمارے اندر غرور پیدا ہونے ہی نہیں دیا۔ ہم اپنا ذاتی کام کسی نوکر سے نہیں کرواسکتے تھے۔
مالی:۔
وہ تو حبیب صاحب اور بیگم صاحبہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے لیکن آپ اگر بُرا نہ مانے تو طلحہ صاحب کو آج کل کی ہو الگ گئی ہے ۔
اور رہی میری بات بیگم صاحبہ کہنے کہ تو ہم کو عادت ہے ہم میں دو چار بنگلوں میں کام کرتا ہوں ۔ وہاں میں میڈم یا بیگم صاحبہ کہہ سکتا ہوں ۔
اس لیے آپ میری زبان کو یہ خالہ جان وغیرہ جیسے الفاظ بولنے کی عادت نہ ڈالیں۔
خالہ جان :۔
اچھا تُم یہ طلحہ کی بات کہیں اور تو نہیں کرتے ۔

مالی:۔
نہیں جی ہم تو بڑا کچھ دیکھتے ہیں لیکن چپ رہتے ہیں نوکری جو کرنی ہے ۔ ابھی طلحہ صاحب نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہے انہیں روک لیں نہیں تو پھر چل سو چل ۔ لیکن شاید آپ نہیں روک سکتیں جیسے میں اپنے بھائی اور بھابی کو نہ روک سکاکہ بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر نہ جائیں لیکن انہیں تو سارے خاندان کی خبر گیری کرنی تھی بس اپنے گھر کی کچھ خبر نہ تھی ۔
خالہ جان :۔
بڑی پریشانی سے کیا ہوا اﷲ خیر کرے۔
مالی:۔
اﷲ تو خیر ہی کرتا ہے ۔ لیکن بندہ ہی خود ایسے کا م کرتا ہے کہ خیر کی جگہ شر آجاتا ہے ۔
میری پھولوں جیسی بھتیجی اتنی لائق ۔ ماں گھر میں اکیلی چھوڑ کر جاتی تھی جن کا سایہ ہوگیا۔
بس کیا بتاؤں میرے بھائی اور بھابی شروع ہی سے خاندان والوں کے گھر گھر جانے کے شو قین تھے۔ میرے پاس بچے چھوڑ جاتے کہ چاچو ان کا خیال رکھے گا ۔ بچے تو پالے ہی میں نے ہیں اور زینت سے تو مجھے بڑا ہی پیار ہے۔ بڑا علاج کروایا ۔ دم بھی کر وایا لیکن وہ بڑا سخت سایہ ہے۔
ہم بچے کو ترستے ہیں لیکن جن کو اﷲ اولاد دیتا ہے وہ اُاس کو پاؤں کی زنجیر سمجھتے ہیں کہ ان کو چھوڑ و اور سیر کرتے پھرو۔
خالہ جان :۔
بچے امیر کے ہوں یا غریب کے جب ان کی نگرانی نہ کی جائے ان پر نظر نہ رکھی جائے تو ان کا بیڑا غرق ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیں یاکوئی ان کے پیچھے پڑ جائے۔
مالی:۔
اپنے آپ کو نقصان کیا مطلب ۔
خالہ جان:۔
یہ جو خود کشی بڑھ رہی ہے یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی ناپسند ید ہ حالات میں ان کے پاس سمجھانے والا نہیں ہوتا کہ بیٹا صبر کر و ، بہادری سے حالات کا مقابلہ کرو یا اگر کوئی تمہیں نہیں ملا تو یہ تمہاری قسمت میں نہیں تھا ۔
والدین اور اولاد میں تعلق رہا ہی نہیں ۔ کچھ مائیں گھر کے کاموں میں اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ انہیں اولاد سے بات کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور کچھ مائیں گھر پر ہوتی ہی نہیں کہ اولاد کے مسائل جان سکیں۔
تُم نہ پریشان ہو۔ تُم نے اتنے گھروں کا کام کرنا ہے۔ کہیں بیمار نہ ہو جانا۔ اﷲ تمہیں بھی اولاد دے ۔
مالی:۔
آمین ۔ اﷲ آپ کو بھی کبھی کسی کو محتاج نہ کرے میں آپ کیلئے ابھی پیار ا سا گلدستہ بنا کر لاتا ہوں

منظر نمبر 3
خالہ جان 21 گریڈ کے افسر کی بیوی تھیں اور اکثر مہمان خصوصی بنتی تھیں اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ تقریر بڑی اچھی اور مختلف موضوع پر کرتی تھیں۔ لوگ اب بھی اُن کو اکثر بلا لیا کرتے تھے یا ان سے تقریر لکھوا لیا کرتے تھے۔ صبع بھی بیگم وحید کا فون آیا کہ اُن کی بیٹی نے بچوں کے عالمی دن کے موقع پر تقریر کرنی ہے۔ کوئی منفرد سا مضمون لکھ دیں۔ کل بیگم شیراز کا فون آیا کہ میرے بیٹے کیلئے مضموں لکھ دیں۔
تو خالہ جان سوچنے لگیں موضوع تو عام ساہے اور عا م سی بات ہے لیکن ماں باپ کی سمجھ میں نہیں آتی۔
کہ ماں با پ سمجھتے ہیں کہ ان کو (کمپیوٹر ، موبائیل وغیرہ جتنے بھی شیطانی آلات ہیں) ۔ لے کر دے دیے اور گلیوں میں گھومنے سے بچا لیا تو بڑا کام کیا۔ یہ نہیں پتہ کہ بچے کمرے میں بیٹھے بیٹھے کن کن برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ان شیطانی آلات کی موجودگی میں۔
اگر ہم لوگوں نے اپنے مال کی طرح اولاد کی حفاظت کی ہوتی تو ان کی اچھی تربیت کرتے تو آج سب کی جان ، مال ، عزت خود بخود محفوظ ہوتی ۔ یوں ڈاکو ، چور ، رہزن ہمیں گلیوں ، سڑکوں اور گھروں میں نہ لوٹ رہے ہوتے۔
جس دولت (اولاد) کو سنبھال کر رکھتا تھا اُسے زمانے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور جس چیز (دولت) کو زمانے والوں کودے کر اُن لوگوں سے اپنے لیے اور اولاد کیلئے دُعائیں لینی تھیں اُسے لوگوں سے دور محفوظ مقام پر رکھا۔
یاد رکھو اولاد اﷲ کی امانت ہے اور اﷲ تم سے حساب لے گا کہ تم نے میری امانت کی حفاظت کی کہ نہیں۔ تمہارا مالک (باس ) اگر تمہیں کسی کام (ڈیوٹی) پر لگاتا ہے تو تم اُس کی نظروں میں اچھا بننے کیلئے اس کام کو بڑے اچھے طریقے سے بنھاتے ہو۔
لیکن جو ڈیوٹی تمہارے اصل مالک (اﷲ) نے تمہیں اولاد دے کر تمہیں سو نپتی ہے تم اسے کتنے اچھے طریقے سے نبھا رہے ہو؟
ہر کام کی طرف دھیان ہے لیکن اولاد کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں۔
اگر صرف چند لمحے اولاد کی آنکھوں کی طرف ہی دیکھ لیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ اُن کی اولاد نے نشہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
نیک اولاد دُنیا ہی میں باعث عزت نہیں بلکہ آخرت میں بھی تمہاری نجات کا سامان ہے۔
اگر اولاد نیک ہوگی تو لوگ تمہیں اچھے لفظوں سے یاد کریں گے کہ فلاں کی اولاد ہے اچھی تربیت کی ہے۔ ہر ایک کا خیال کرتی ہے ۔
احترام کرتی ہے۔
اﷲ اس کے والدین کو جنت میں اعلیٰ دے۔ اور بُری اولاد دنیا و آخرت میں ذلت کا سامان ہے۔ لوگ یہی کہیں گے کہ خود تو چلے گئے اور یہ عذت (اولاد )ہمارے لیے چھوڑ گئے۔
اولاد کو حقیر اور اپنے پاؤں کی زنجیر نہ سمجھ کہ اُس کو گھر میں چھوڑ دیا گلیوں میں ہم سیر کو چلیں ۔
حبیب صاحب جو خالہ جان کی تقریر پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے فوراً بے ساختہ بولے۔
پاپا:۔
سب کچھ انہی کیلئے ہی تو کرتے ہیں۔ دن رات محنت ، اپنے آرام تک کی ہوش نہیں۔
خالہ جان :۔ پیچھے مڑکر دیکھا ارے تم آگئے۔
حبیب:۔ آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں۔
خالہ جان:۔
مجھے پتہ ہے کوئی کام ہوگا ابھی آئے ہو کل آفس کا کام کروگے اور رات کی فلائٹ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبیب:۔
ارے خالہ جان آپ تو نجومی ہوگئیں ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
(وہ اپنا ہاتھ تو خالہ جان کی طرف کرتے ہوئے بولے)
خالہ جان :۔
میں ہاتھ دیکھے بغیر بھی آگے کا حال بتا سکتی ہوں۔ وہ تمہاری اولاد کا مستقبل خطرے میں ہے۔
میں تُم سے ابھی بات کرتی ہوں۔ میں ذرا بیگم وحید کو فون کروں۔ ذرا نمبر ملانا۔
وہ موبائیل حبیب صاحب کی طرف کرتے ہوئے بولیں۔ ہا ں وحید تم اپنے ڈرائیور کو بھیج دو کہ وہ تقریر لے جائے وہ شیراز نے بھی کہا۔
میں طلحہ کی وجہ سے بڑی پریشان تھی ۔ نہ جانے کیا لکھ دیا ہے۔ خود ہی اُن دونوں کو کہنا کہ مل کر دو مضمون بنا لینا۔ دونوں کزن ہیں۔
مل کر کچھ کرلیں۔
بیگم وحید:۔
آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔ آپ نے جو لکھ دیا ہو گا یقینا اُن دونوں کیلئے کافی ہوگا اور باقی جب کوئی موضوع مل جاتا ہے تو انسان خود بھی اضافہ کر لیتا ہے ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
میں کسی دن آؤں گی ۔



خالہ جان :۔
اچھا باقی باتیں پھر اﷲ حافظ۔
چلو کچھ کھا پی لو پھر بات کرتے ہیں۔
حبیب صاحب:۔
آپ بات بتائیں آپ کس لئے پریشان ہو رہی ہیں۔
خالہ جان :۔
طلحہ گھر پر نہیں۔ تمہارے پاس تو اُس کے کمرے کی دوسری چابی ہوگی۔ کھول کر دیکھو ۔ حقہ جدید انداز کا ملے گا اور ۔ ۔۔۔۔۔
حبیب :۔
نہیں خالہ جان ایسے اچھا نہیں لگتا کہ میں اُس کے کمرے کی تلاشی لوں۔ جب وہ آئے گا تو میں اُس سے پوچھ لوں گا کہ کیا مصرفیات ہے۔
خالہ جان :۔
کیا وہ تمہیں سچ سچ بتائے گا؟ یہ اچھا نہیں نہیں لگتا ۔ وہ اچھا لگے گا جب وہ کسی کی جان ، مال ، عزت سے کھیل جائے گا ۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے ۔ اُسے ابھی کالج جانے سے پہلے روک لو ۔ اُسے زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھو۔ تاکہ وہ فضول قسم کے دوستوں کے پاس نہ بیٹھ سکے ۔
حبیب:۔
کہاں سے لاؤں اتنا وقت ۔ یہاں اپنے لیے وقت نہیں سب کچھ ان کیلئے ہی تو کرتے ہیں تاکہ ان کی زندگی آرام سے گزر ے۔
اعلیٰ تعلیم اچھے اداروں میں حاصل کریں۔
خالہ جان :۔
بس ؂تعلیم تعلیم تعلیم ، تربیت کا ذکر ہی نہیں ۔ جدید تعلیم کے ساتھ اگر بچے کی تربیت نہ کی جائے تو وہ جانور سے بھی بدتر ہوتا ہے ۔
نتیجہ دیکھ لو۔ اُستا د ہے تو وہ کیسا ہے ۔
ڈاکٹر ہے تو کسی کی جان کی پر واہ نہیں ۔
سول انجیر ہے تو کیسے پل عمار تیں بن رہی ہیں۔
کسی کی جان کی پرواہ نہیں۔ انسانیت ختم ۔
اسلامی تعلیمات بھول گئے۔
میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ نہ غریب کو نماز کی فکر ہے نہ امیر کو ۔
امیر کو تو اﷲ کی زیادہ عبادت کرنی چاہیے اور شکر کرنا چاہیے کہ اﷲ نے اُسے دولت دی اور لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اور غریب اﷲ سے دُعا کریں کہ اﷲ اُسے رزق روزی دے لیکن سب اﷲ کو بھولے ہوئے ہیں۔
ویسے تم نے کنتا عرصہ ہوا نماز پڑھے ہوئے اور تمہارے بچے کو تو عید کی نماز پڑھتے ہوئے بھی نہیں دیکھا کہ رات بھر وہ گھومتے پھرتے ہیں اور صبع بارہ ایک بچے سو کر اُٹھتے ہیں عید کے دن ۔
اولاد کیلئے اتنا کرو جتنی اُس کو ضرورت ہے ۔ ضرورت سے زیادہ کام کرتے ہو تو تمہیں اپنی ہوش نہیں رہتی اور ضرورت سے زیادہ بچوں کو دیتے ہو (روپیہ پیسہ) تو بچے ہوش میں نہیں رہتے۔
ہم لوگ سردی گرمی برداشت کرلیتے ہیں لیکن یہ نسل جس نے پاکستان کو سنبھالنا ہے ۔
ان بچوں کو تم نادان دوستوں نے (والدین ) اتنا نازک بنا دیا ہے ٹھنڈے اور گرم کمروں کا کہ یہ سورج نکلا بھی ہوتو ہیڑ میں بند کمرے میں رہتے ہیں۔
باہراگر بارش بھی ہو رہی ہو تو یہ A.C میں بیٹھے کمپیوٹر وغیرہ پر کھیلتے رہتے ہیں۔
بتاؤ جو نسل اتنی آرام طلب ہوگی وہ کیا باہر نکل کر کام کر ے گی ۔
پہلے تو امیر لوگ 24گھنٹے کے نوکر گھر پر رکھتے تھے اور اُن کے بچے کوئی کام نہیں کرتے تھے ۔
چلو اس سے کو ئی خاص فرق نہ پڑتا تھا کہ امیر لوگ ہوتے ہی کتنے تھے لیکن اب تو درمیانے طبقے کے گھر خوش حال گھر میں دن رات کے نوکر ہیں ۔ بچے کمروں میں اور ماں کام والی کے سا تھ کچن میں ہر گھر ، چپس ، کباب بریانی وغیرہ بنانے میں ہر وقت مصروف ۔
درمیانے طبقے کی ملک میں کیا حیثیت ہوتی ہے کہ تم بھی جانتے ہو۔ اتنی آرام طلب قوم ایک کما رہا ہے باقی بیٹھے کھا رہے ہیں کیا ہم سارے گھر والے 18-18گھنٹے کام نہیں کر سکتے۔
اگرکوئی کام نہیں تو ماں کے ساتھ ہی گھر کا کام کروادیں کہ ماں بیچاری کھانا، صفائی ، برتن اور کپڑے دھو دھو کر پاگل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہر کسی کو کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے نہ اُسے اپنا ہو ش ہوتا ہے کہ اپنا خیال بھی کرے۔
حبیب:۔
خالہ جان ویسے آپ کی بو ل بول کر لکھنے کی عادت خوب ہے۔ مجھے تو آپ کی کتاب پڑھنی ہی نہیں پڑھے گی۔ جو والدین اور بچوں کیلئے لکھ رہی ہیں ۔

ویسے بھی آپ کی کتاب پڑھے گا کون ؟ بلاوجہ محنت کر رہی ہیں۔ یہاں کون کسی کی نصحت مانتا ہے ۔ اس سے کو ن سا انقلاب آنے والا ہے ۔
خالہ جان :۔
حضر ت ابراہیم کی آگ کا واقعہ ۔ اس میں ایک چڑیا کا ذکر ہے مجھے صحیح تو یا د نہیں رہا لیکن کچھ اس طرح تھا کہ چڑیا اپنی چونچ میں پانی بھر کر لاتی ہے اور آگ پر ڈالتی ہے۔ کوئی پوچھتا ہے کہ اس سے اتنا بڑا الاؤ تو نہیں بجھ سکتا ۔
تو چڑیا کہتی ہے ۔ میں جو کر سکتی ہوں وہ کر رہی ہوں تاکہ اﷲ سے کہہ سکوں کہ جو میرے بس میں تھا میں نے کیا ۔ صحیح واقعہ تو یاد نہیں لیکن خلاصہ کچھ یوں ہی تھا۔ میں بھی چڑیا کی طرح جو میرے بس میں ہے وہ کر رہی ہوں تاکہ قیامت کے دن کہہ سکوں کہ جو میرے بس میں تھا وہ کیا ۔
 
Humera Sajid
About the Author: Humera Sajid Read More Articles by Humera Sajid: 8 Articles with 5530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.