گلگت میں پاک آرمی کاایم آئی
17ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہمارے دوست ممالک ناروے اورفلپائن کے سفیرجابحق
جبکہ دو مسلم ممالک انڈونیشیا اور ملائشیاکے ہائی کمشنرز کی بیگمات اور
عملے کے دیگر ارکان کی شہادت نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار بنا دیا ہے ،اور
یہ حادثہ ہمارے دکھوں اور غموں میں اضافہ کا باعث بنا ہے۔آرمی چیف جنرل
راحیل شریف نے بجا فرمایا کہ ’’ایم آئی 17کا حادثہ ہمارے لیے غمناک ہے
‘‘ہماری توقع کے عین مطابق ایک کالعدم تنظیم نے اس حادثے کی ذمہ داری قبول
کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ جبکہ مغربی اور بھارتی میڈیا کی جانب سے اس سانحہ
کو دہشت گردی کی واردات قرار دیا جا رہاہے لیکن ہمارے سکیورٹی کے ذمہ دار
اداروں اور وزارت خارجہ اور داخلہ نے ہیلی کاپٹر کو دہشت گردی کا شکار
بنانے کے تمام دعووں کو باطل قرار دیا ہے اور کہا کہ روسی ساخت کے ایم
آئی17 ہیلی کاپٹر بہت مضبوط ہیں اور ہیلی کاپٹر کو مارگرائے جانے کے کوئی
شواہد نہیں ملے ۔
سکیورٹی کے ذمہ دار ذرائع ابھی اس سانحہ کو اتفاقی حادثہ ہی قرار دے رہے
ہیں اور پاکستانی قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بتایا
گیا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر میں آذربئیجان کے سفیر اور آسٹریلیا کے ہائی کمشنر
نے بھیگلگت سے نلتر کی تقریب میں شریک ہونا تھا لیکن آسٹریلیا کے ہائی
کمشنر ایک ٹریننگ پروگرام میں مدعو ہونے کے باعث بد قسمت ہیلی کاپٹر میں
سوار ہونے سے رہ گئے اور آذربئیجان کے سفیر بھی کسی مجبوری کے آڑے آنے کی
وجہ سے تقریب میں شرکت سے معذور رہے ۔ جنوبی افیقہ کے ہائی کمشنر میپنڈ ول
جیلی نے اپنے اور دیگر افراد کے زندہ بچ جانے کو معجزہ قرار دیا ہے اور کہا
ہے کہ اس قدر خوفناک حادثے میں انہیں خراش تک نہ آنا معجزہ ہی تو ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بدقسمت ہیلی کاپٹر کے پائیلٹ میجر التمش میجر فیصل اور
نائب صوبیدار ذاکر اپنی جانیں بچا سکتے تھے لیکن قوم کے ان بہادر سپوتوں نے
اپنے معزز مہمانان گرامی قدر کو موت کے منہ میں چھوڑ کا اپنی زندگیاں بچانا
گوارا نہیں کیا اور اپنی جان کی بازی لگا کر مہمانان ذوقار کی زندگیاں
محفوظ بنانے کی جدوجہد کرتے رہے حتی کہ اپنی جان کی بازی ہار گئے، آرمی چیف
جنرل راحیل شریف کی جانب سے پاک فوج اور قوم کے ان باہمت ،جرات مند اور
بہادر بیٹوں کو پاکستان کا فخر کہنا اورحکومت کی جانب سے وطن کے ان سجیلے
جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنا درست اقدام ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں گلگت سے نلتر جانے والے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والا
سانحہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے۔ 17اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق کے سی ون
تھرٹی طیارہ اپنی پرواز کے کچھ ہی لمحے بعد زمین سے آن ٹکرایا ،اس اہم ترین
طیارے میں اہم ترین سول ، عسکری اور غیر ملکی شخصیات بہاولپور سے اسلام
آباد کے لیے سوار ہوئیں، ان اہم ترین سول ،فوجی اور غیر ملکی شخصیات میں
پاک فوج کے چیف آف آرمی سٹاف و صدر مملکت جنرل ضیاء الحق،چیئرمین آف دی
جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل اخترعبدالررحمن( ہمایوں اختر اور ہارون اخترآف
پیپسی کولا کے والد)آئی ایس آئی کے سربراہ و دیگر ملٹری آفیسرز کے علاوہ
امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور پاکستان میں امریکی فوجی مشن کے کے سربراہ
جنرل ہربرٹ ایم ویسن شامل تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئے
،ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کی
تحقیقاتی رپورٹ سے پاکستانی قوم ابھی تک لاعلم ہے…… اس کے بعدبیس فروری20
13کو پاک فضائیہ کا ایک فوکر طیارہ کوہاٹ کے قریب پہاڑی سے ٹکرایا جس کے
ملبہ تک کا سراغ نہ مل سکا ہے، اس فضائی حادثے میں ایر مارشل مصف علی میر
کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور پاک فضائیہ کے دو ائیر وائس چیف مارشل ، سات دیگر
اعلی حکام سمیت کل سولہ افراد شہیدہوئے تھے، لیکن یہاں بھی مقام افسوس یہ
کہ اس حادثے کی بھی تحقیقات ہنوز پردہ راز میں ہیں۔
جہاں تک کالعدم دہشت گرد تنظیم کی جانب سے سانحہ نلتر کی ذمہ داری قبول
کرنے کا تعلق ہے تو اس جدید دور میں اس تنظیم تک رسائی ناممکن نہیں رہی
حکومت اور اس کے ادارے اس تنظیم کے ان ارکان تک پہنچ کر ان کا سراغ لگائیں
اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لائیں تاکہ ان سے تحقیقات کی جاسکیں۔دنیا بھر
کے مروجہ آصولوں کے تحت عام طیارے کی پرواز سے قبل اس کی ضروری دیکھ بھال
کی جاتی ہے اور متعلقہ حکام کی طرف سے کلیئرنس ملنے کے بعد اس طیارے کو
پرواز کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور وی وی آئی پی طیارے کے حوالے سے تو ذمہ
داریاں اور برھ جاتی ہیں، اگر جنرل ضیاء الحق اور مصف علی میر کے طیاروں کی
درست سمت تحقیقات کی جاتیں تو آج کے سانحہ سے محفوظ رہا جا سکتا تھا،
آج بھی اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اس سانحہ کی مکمل انکوائری کرائے
اور ذمہ داران کا تعین کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دیکر مستقبل میں
اس نوعیت کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یک بعد دیگرے
ایسے حادثات سے دوچار ہونے کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلنی اور ہم نے
اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت کر ایسے حادثات کو جنم دیتے رہنا ہے تو الگ
بات ہے…… اس بات کو بھی نظر انداز کرنا قرین قیاس نہیں ہے کہ ممکن ہے کہ
ہمارے حساس اداروں اور سکیورٹی کے اداروں میں دہشت گردوں کے ’’دینی بھائی‘‘
اپنا دینی فریضہ سرانجام دے رہے ہوں ،ان سب امور کو تحقیقات کے دائرے میں
شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ دفتر خارجہ اور داخلہ کو اس امر کو یقینی بنانا
ہوگا تاکہ تحقیقات میں کسی پہلو سے چشم پوشی نہ ہو اور اس امر کو بھی یقینی
بنایا جائے کہ تحقیقاتی رپورٹ عوام سے لازمی شیئر کی جائے اور اسے سرد کانے
کی زینت بنانے سے گریز کیا جائے اور ایسے اقدامات بھی اٹھائے جائے کہ
مستقبل میں اس قسم کے سانحات سے بچا جائے۔ہم کب نید غفلت سے بیدار ہوں گے؟
دعا ہے اﷲ پاک اس سانحہ کے مسلمان شہدا کو اپنے جواررحمت میں اعلی مقام عطا
فرائے اور ہمیں اپنی قومی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
|