آزاد کشمیر یونی ورسٹی اور شعبہ اردو

۲۶ فروری ۲۰۱۵ء : شعبہ اردوآزادکشمیر یونی ورسٹی میں میری پہلی کلاس تھی۔اور فیض کی نظم ’بہار آئی ‘ بہت یاد آئی اور وہ سب بھی جنھوں نے اس شعبے کے قیام کے لیے کام کیا۔ڈاکٹر صابر آفاقی اور ڈاکٹر افتخار مغل ہم میں نہیں رہے صرف ان کی یادیں ہی اس لمحے میں ہمارے ساتھ تھیں۔جناب عطاء اﷲ ، جناب یامین ، جناب رحمت علی خاں اور وہ سب کہ جن کے نام لینے کی ضرورت بھی نہیں کہ ان سب کا فرمانا تھا کہ ’ہمیں بھی یادکرلینا چمن میں جب بہار آئے‘۔بہار آئی تو جیسے وہ سب یادیں اور زخم ہرے ہو گئے۔کبھی ہم کہہ سکتے تھے کہ ہم تنہا ہیں لیکن ’یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں‘۔سالوں پہلے ہونے والی طویل نشستیں یاد آئیں کہ جن میں کبھی مرحوم صابر کلوری بھی تشریف لائے تھے۔سالوں بیتے۔کبھی جامعہ کی بیوروکریسی آڑے آتی رہی اور کبھی ان کے رویے۔کبھی جگہ کا بہانہ اور کبھی اشتہار ہی غلط دے دینا۔غیریقینیوں کی اس فضا میں کئی سال گزر گئے اور ۲۰۱۴ء کا سال ایک نئی امید کے ساتھ طلوع ہوا۔ایک اور طویل نشست کہ جس میں پاکستان سے ڈاکٹر رشید امجد ، ڈاکٹر ساحر ، ڈاکٹر نذر عابد :میرپور سے پروفیسرمنیر یزدانی ، راولاکوٹ سے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر، باغ سے پروفیسر عتیق راجا اور مظفرآباد سے پروفیسر رحمت علی اور میں بھی شامل ہوئے۔اس بار جامعہ کے کارپردازان کے رویوں میں سنجیدگی نظر آرہی تھی۔سارے مسائل پر کھل کر بات ہوئی۔وقت اور طریقہ کار سے لے کر نصاب تک پر بات ہوئی۔یہ بھی طے پا گیا کہ ہر کوئی داخلہ لے سکے گا اور بے جا پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی۔جامعہ کی طرف سے ڈین شعبہ فنون ڈاکٹر ندیم بخاری کا کردار بہت مثبت رہا۔بیم ورجا کی کیفیت میں داخلے شروع ہوئے۔کبھی دس،پھر بیس اور پھر تیس کا سنا۔دسمبر اور جنوری گزر گئے۔جامعہ نے پروفیسر اکرام رشید صاحب کو رابطہ کار مقرر کیا۔جو اسلامیات کے پروفیسر ہیں۔داخلوں کا سلسلہ مکمل ہوگیا۔جامعہ میں دوبارہ فروری کے دوسرے ہفتے میں اکرام صاحب اور ڈاکٹر ندیم بخاری کے ساتھ ملاقات رہی اور پہلے سمسٹر کے پیپر اور طریقہ کار پر بات ہوئی۔فیکلٹی پربھی بات ہوئی۔ میں نے پروفیسر رحمت ، میر یوسف اور عاصمہ کبیر کے نام پیش کیے۔اکرام صاحب نے صداقت شاہ صاحب اور ڈاکٹر سکندر کے۔فیصلہ ہوا کہ فیکلٹی ایم فل اساتذہ پر مشتمل ہوگی۔میرا اصرار تھا کہ کلاسیں مرکزی کیمپس اور اوقات شام کے ہوں۔اکرام صاحب نے وائس چانسلر سے بات کی اور یہ دونوں معاملات ہماری منشا کے مطابق طے نہ ہوسکے اور یہ طے پایا کہ کلاسیں شعبہ کشمیریات میں صبح کے اوقات میں ہوں گی۔کلاسوں کا اکرام صاحب نے خود ہی طے کر دیا کہ تین کلاسیں سوموار سے بدھ اور دو کلاسیں جمعرات سے جمعہ ہوا کریں گی۔میری قسمت میں افسانوی نثر اور جمعرات ،جمعہ کا دن آیا۔کلاس دن گیارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے طے کی گئی۔مجھے اکرام صاحب نے بتایا اور انھیں کہا بھی کہ یہ کیسے ممکن ہوگا۔فرمانے لگے کہ مستقبل میں دیکھ لیں گے۔پہلے ۲۶ اور پھر ۲۳ فروری کو آغاز کی بات کی گئی لیکن مقررہ وقت ، جگہ کا فیکلٹی کو مناسب انداز سے نہ بتایا گیا۔جس کی وجہ سے صداقت شاہ صاحب ، عاصمہ کبیر تو موجود تھے لیکن میں ، ڈاکٹر سکندر اور رحمت صاحب نہ تھے۔۲۳ فروری کی شام اکرام صاحب سے بات ہوئی۔فرمانے لگے آغاز ہوگیا ہے۔رحمت صاحب کیوں نہیں آئے۔ان کی کلاس میں نے میر یوسف صاحب کو دی آج۔مجھے حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی کہ یہ کیا طریقہ ہے۔نیا شعبہ اور آغاز اس انداز میں۔خیر انھوں نے خطاب کیا اور خوب کیا۔خوش رہیں۔آغاز اچھا نہ ہو تو مسائل بڑھتے رہتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔جب ہم نے طے کیا تو پھر میر یوسف کو کلاس نہیں دی جانی چاہیے تھی۔یہ نرسری کی کلاس تو تھی نہیں کہ بچوں کو مصروف رکھنا ضروری تھا۔کلاس میر یوسف اور رحمت صاحب کے مسئلے پر تقسیم ہو گئی اور آج تک ہے۔اس کا اکرام صاحب کو اندازہ نہیں۔بہرحال میں نے اس مسابقت کو قبول کیا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔

میں ماضی سے حال میں اور کلاس میں داخل ہوا۔خوش گوار حیرت ہوئی کہ کلاس میں تیس سے زیادہ طلبہ و طالبات موجود تھے۔طالبات کا حجم تین چوتھائی تھا۔ویسے بھی اب پڑھنے کا کام طالبات کا ہی رہ گیا ہے۔ہر ادارے اور شعبے میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔یہ سب تو ٹھیک لیکن اس کے ساتھ پڑھی لکھی لڑکیوں کے رشتوں کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیں۔یہ تو اب بین الاقوامی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔میں روایتی انداز میں پڑھانے کے ہمیشہ خلاف رہا ہوں اس لیے کلاس کا پہلے دن تعارف نہیں لیتا کہ یہ وقت کے ساتھ ہو ہی جاتا ہے۔کمرے میں مجھے کچھ گھٹن کا احساس ہوا کہ کمرہ چھوٹا اور افراد زیادہ تھے۔۲۶ اور ۲۷ کی کلاسیں داستان اور کہانی کے گرد گھومتے گھومتے ختم ہوگئیں۔ویسے ۹۰ منٹ کی کلاس مجھے کچھ بوجھل سی لگی۔خیر دست سوال تو ہم دراز کرتے نہیں۔ایسے ہی چلے گا۔دو ہفتے گزرے ایک اور مسئلہ سامنے آیا۔تھرڈ ڈویژن والے اپنا بوریہ بستر لپیٹ لیں۔ان جامعات کا عجب دستور دیکھا۔اگر داخلہ نہیں دینا تو پاس کیوں کرتے ہو۔پھر یہ کہ جامعہ کی گریڈنگ متاثر ہوتی ہے اس لیے ایسے داخلے نہ دیے جائیں۔ویسے جامعہ کا معیار اب یہی رہ گیا ہے کہ اردو میں ایسے داخلے نہ دیے جائیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ کچھ طلبہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سیکھتے ہیں۔ہمارا ایک دوست انٹر میں تھرڈ ڈویژن لے کر پاس ہوا۔بی ایس سی سیکنڈ اور ایم ایس سی میں گولڈ میڈل۔یہ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے۔منٹو تھرڈ ڈویژن میٹرک پاس اور علامہ اقبال تھرڈڈویژن ایم اے فلسفہ تھے۔فی الحال اتنا ہی ۔دایہ سے پیٹ کہاں چھپتے ہیں۔مارچ کا مہینہ تقریباپرسکون ہی رہا۔طلبہ کی شکایت پر کلاس ہال میں منتقل کی گئی۔کلاس کا جحم ۴۲ تک جا پہنچا۔ شام کی کلاس ہوتی تو یہ ۵۰ تک جا پہنچتی۔ طلبہ و طالبات کو میں نے خاموش ہی پایا کہ وہ نہ کھل کر شکایت کرتے اور نہ کسی استاد کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ ان کا انداز کیسا ہے ۔کچھ میں نے اگلوایا۔احترام ایک الگ چیز ہے لیکن استاد سے کام لینا ایک الگ چیز۔احترام کو ملحوظ رکھ کر استاد کو پڑھ کر آنے پر مجبور کم ہی طلبہ کر سکتے ہیں اور یہ ایک فن ہے۔تاہم کلاس میں میں نے پڑھائی کے حوالے سے سنجیدگی دیکھی جو اچھی بات ہے۔

اس دوران طلبہ و طالبات نے ایک ادبی مجلس کا قیام بھی عمل میں لایا۔جو وقت کی ضرورت اور آواز تھا۔ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں طلبہ و طالبات کو منفرد انداز میں سوچنے اور آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہیں۔مارچ کے آخری ہفتے میں اوپن یونی ورسٹی کی ورکشاپ بھی شروع ہوگئی۔کالج ،یونی ورسٹی اور یونی ورسٹی:مصروفیات نے لکھنے کے عمل کو بالکل ہی کم کردیا۔لیکچرز کی تیاری اور پرچہ جات کی پڑتال۔حالت یہ ہوگئی کہ حیدرآباد سے آنے والے دوستوں کو صرف چائے کی پیالی پر وقت دے سکا۔آج کل بچوں کاوقت بھی تدریس کو دے رہا ہوں جو اگرچہ ان کے ساتھ زیادتی ہے لیکن میرے پاس سردست اس کا کوئی حل نہیں۔کتاب میرے لیے نشہ بن چکی ہے اور اس کے بغیر وہی کیفیت ہو جاتی ہے جو کسی نشہ کرنے والے کی ہوتی ہے۔اپریل کے پہلے ہفتے کی کلاس میں طلبہ نے آگاہ کیا تھا کہ ۱۴ اپریل کو یوم اقبال منائیں گے کیونکہ اس کے بعد وسط مدتی امتحانات شروع ہو رہے ہیں۔طلبہ و طالبات نے اپنے اپنے انداز میں تیاری کی۔تقاریر،اظہار خیال، کلام اقبال، نعتیہ کلام۔یہ میرے لیے بھی ایک تفریح تھی کیونکہ میں مسلسل کلاسوں سے تنگ تھا۔۱۴ اپریل سویرے یونی ورسٹی گیا جہاں طلبہ و طالبات کے ساتھ ڈیڈھ گھنٹہ پروگرام کی تیاری میں صرف کیا۔ہم اکٹھے بیٹھ کر املا، تلفظ اور معیار پر بات چیت کرتے رہے۔گیارہ بجے پروگرام کا آغاز ہوا۔رابطہ کار پروفیسر اکرام صاحب صدر تقریب تھے۔صرف شعبہ اردو کے طلبہ و طالبات ، اساتذہ شریک تھے۔ ہم نے باہر سے کسی کو اس پروگرام میں شامل نہیں کیا۔اس لیے بھی کہ ہم مستقبل کے لیے اپنے معیار کا تعین کرنا چاہتے تھے۔

تلاوت ، حمدیہ ، نعتیہ ، اچھی تقاریر اور اظہار خیال سب ہی طالبات کے حصے میں آیا۔طالبات نے طلبہ کی نسبت اچھی تیاری کی ہوئی تھی اور معیار بتا بھی رہا تھا۔ہما کاظمی ، پوشمال وسیم، عروج اقبال ، طلعت سب نے اپنے اپنے موضوع اور ذمہ داریوں سے انصاف کیا۔فاضل کو فاضل بننے کے لیے مواد اور تلفظ پر مزید محنت کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی غلطیوں پر قابو پالیں گے۔یہی حال باقی طلبہ کا بھی ہے کہ ان سب کو اپنے معیار کو بلند کرنے کے لیے مزید محنت کی ضرورت ہے اور میں ان سب سے مایوس نہیں ہوں۔پروفیسر رحمت علی نے اپنے خطاب میں شکوہ کے دس بند پیش کرکے سماں باندھ دیا۔ان کو شاعری اور خاص طور پر اقبال کی شاعری ازبر ہے۔ڈاکٹر عبدالکریم نے اپنے محتصر خطاب میں اقبال اور کشمیر کے تعلق پر بات کی نیز طلبہ و طالبات کے تلفظ اور معیار کے مسائل کو زیر بحث لایا۔صدر تقریب نے اپنے تفصیلی خطاب میں طلبہ و طالبات کو مختصر وقت میں موثر پروگرام پر مبارک باد پیش کی نیز فکر اقبال کے عصری امکانات پر بھی روشنی ڈالی۔اس طرح ۹۰ منٹ کی یہ سنجیدہ اور پروقار تقریب اختتام پزیر ہوئی۔یہ شعبہ اردو کی پہلی تقریب تھی۔اس لیے میزبان مستنصر اور ماریہ دونوں سہمے سہمے سے نظر آئے۔امید ہے کہ مستقبل کے لیے وہ بہتر تیاری کے ساتھ آئیں گے۔ایک آہنگ ، ترتیب اور توازن کی ضرورت بھی ہے جو کم تھا۔وسط مدتی امتحانات کی وجہ سے طلبہ و طالبات پر امتحانات کا بھوت ہر وقت سوار رہتا ہے، اس کے باوجود اس پروگرام کے لیے ان کی سنجیدگی، محنت اور یکسوئی قابل ستایش ہے۔مستقبل میں شعبہ اردو ذرا بڑی سطح پر اپنے وجود کا اظہار کرے گا اور یہ پروگرام اسے آکسیجن فراہم کرے گا۔شعبہ اردو ایک نیا لیکن منفرد شعبہ ہے کیونکہ اردو ہماری قومی اور سرکاری زبان ہے۔پاکستان کی تو صرف قومی زبان ہی راہ چکی ہے۔ہم اپنی مادری زبان ، روایات اور اقدار کے پاسبان ہیں اور اس زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی سی کوششیں جاری رکھیں گے۔طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں میں برکت کے لیے دعاگو ہوں۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51508 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More