بس یہاں تک اس سے آگے نہیں۔ہم میں سے شاید ہی
کوئی ایسا ہو جو اس تیز رفتار زندگی میں اپنی حدود میں رہ کر کام سر انجام
دے سکے۔ کیونکہ موجودہ دور میں اگر کوئی برق رفتاری نہیں دکھائے گا تو شاید
زندگی کی دوڑ میں چند قدم پیچھے رہ جانے کے ساتھ ساتھ الجھن کا شکار ہو کر
بیمار ہو گا یا حدود کو تجاوز کرنے کی کوشش کرے گا،موجودہ دور میں اکثر
اوقات ہم خود یا دوسرے لوگ مسلسل حدود کو تجاوز کرتے ہیں اور کبھی کبھی
ذہنی دباؤ میں آکر بیمار ہو جاتے ہیں،حدود یا دائرہِ اختیار پر شاید ہی
کوئی کتاب یا مضمون شائع ہوا ہو یا اسکی تعلیم دی جاتی ہو کہ ایک انسان کی
حد کیا ہے کہاں سے شروع ہوتی اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ہم سب اپنی
حدود سے اتنا باہر نکل جاتے ہیں کہ بعض اوقات اپنے عمل پر پشیمان ہونے کے
علاوہ شرمندگی سے کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہتے،انسان حدود کو دو ہی
صورتوں میں تجاوز کرتا ہے شدید غم و غصہ میں یا انتہائی خوشی کے عالم میں
کیونکہ دونوں صورتوں میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور دل و دماغ پر قابو
نہیں رکھ پاتا ان دونوں صورتوں میں ایسی بات یا اقدام کرتا ہے جس سے وہ خود
بھی انجان ہوتا ہے لیکن انہیں خاص لمحات میں دوسرے افراد شدید متاثر ہوتے
ہیں اور جب انسان اس انجانی کیفیت سے باہر آتا ہے تو طعنے اور مغلظات سننے
پڑتے ہیں لیکن وقت کے ہاتھ سے نکل جانے پر محض پشیمانی،شرمندگی اور پچھتاوا
باقی رہ جاتا ہے اور انسان ان حالات کا اتنا شدید اثر لیتا ہے کہ ڈپریشن
اور سٹریس میں مبتلا ہو جاتا ہے،مثلاً آج کے دور میں روزمرہ زندگی کے
معاملات کو مناسب وقت ، حدود ، سلیقہ اور ترتیب دئے بغیر حل کرنا مشکل ہی
نہیں ناممکن بھی ہے،وقت ،انسان یا دنیا نہیں بدلی بلکہ انسان نے ہی دنیا
اور وقت کو نئی ٹیکنالوجی سے تبدیل کر دیا ہے،کوئی آسمانی آفت نہیں آئی
،کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نے اس دنیا میں قدم نہیں رکھا کروڑوں سالوں سے
سب کچھ قائم ہے لیکن انسان قدم قدم پر اپنے مفاد کیلئے اس دنیا کو تباہ و
برباد کرنے پر تُلا ہوا ہے اس دنیا کو تباہی کے دھانے لا کر کھڑا کرنے والا
انسان ہی ہے کیونکہ یہی انسان ظالم بھی ہے مظلوم بھی ، جاہل بھی ہے ذہین
بھی ،انسان بھی اور حیوان بھی،اور یہ سب اسلئے کہ انسان حدود کو تجاوز کر
رہا ہے ،آج کے دور میں حدود کے دائرے میں رہ کر کسی کام کو پایہء تکمیل
پہنچانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ سو سال قبل ہم سب ترقی پذیر تھے جبکہ آج
ذہین اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں پچاس سال قبل ہر فرد کو اپنا ٹیلی فون نمبر
ذہن نشین ہوتا تھا اور آج ہمارے ارد گرد اتنے نمبرز گھومتے اور گڈ مڈ ہوتے
ہیں کہ پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اپنا فون نمبر کیا ہے ، موبائل نمبر کیا
ہے، کریڈٹ کارڈ نمبر کیا ہے ،میل کا کوڈ یا پن نمبر کیا ہے،فیس بک کی آئی
ڈی کیا ہے حتیٰ کہ اپنی ڈیٹ آف برتھ بھی سوچ کر بتانی پڑتی ہے،روز گار سے
وابستہ افراد کیلئے مزید پریشانیاں الگ ہیں ،اوور ٹائم کرنا ہے ،چیف کی
بکواس سننی ہے، اپوائنٹمنٹ کیلنڈر تین ہفتوں کیلئے فل ہو چکا ہے،دوست گلہ
شکوہ کرتے ہیں کہ ملاقات کیوں نہیں کرتے،میلز کا انبار لگ چکا ہے،شاپنگ
کرنی ہے،بچوں کو سکول چھوڑنا ہے،پانچ بجے ڈاکٹر سے ملنا ہے ،سات بجے سسرال
والے آ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ، بے ترتیبی نے زندگی میں ہلچل اور افراتفری مچا
دی ہے ہم جب ایک چھوٹا سا کام سلیقے سے نہیں کر سکتے تو پہاڑ جیسی زندگی کو
کب اور کیسے حدود اور ترتیب سے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں،ہم اپنی حدود کو پہچانے
بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے،ہم سب جانتے ہیں کہ انسان مرنے کیلئے ہی
پیدا ہوا ہے لیکن کہیں فوتگی ہو جائے تو دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں
حالانکہ افسو س ، دکھ اور رنج کا اظہار خاموشی سے بھی کیا جا سکتا ہے ہم
جانتے ہیں کہ جو انسان دنیا سے رخصت ہو گیا وہ کبھی واپس نہیں آئے گا ہمارے
رونے یا چیخنے چلانے سے مردہ جسم کو کوئی فرق نہیں پڑتا،اور جب کبھی
کامیابی کی ایک لہر ہمیں چھو کر گزرتی ہے تو باچھیں کھول کر ایسے کھلکھلاتے
ہیں جیسے دنیا فتح کر لی ہے حالانکہ جانتے ہیں ہماری خوشی صرف ہماری ذات تک
ہی محدود ہے کسی دوسرے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گاسوائے ان افراد کے جو
کسی لالچ یا غرض میں ہماری خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے مقاصد پورے
ہونے کے بعد ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔یہ تمام حرکات
ہم کسی کو خوش کرنے یا غمگین بنانے کیلئے نہیں کرتے بلکہ انسانی فطرت ہے
اگر ہم زندگی کے مشکل اور کٹھن راستوں پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو حدود کے
اندر رہ کر کامیاب ہو سکتے ہیں تو بڑے سے بڑے امتحان میں بھی حدود کی چار
دیواری میں رہ کر پایہء تکمیل پہنچا سکتے ہیں،حدود ہر انسان کے دو الفاظ پر
مشتمل ہے ہاں یا ناں۔ہم اکثر دوسرے لوگوں کو خوش کرنے یا دل رکھنے کیلئے
ہاں کہہ دیتے ہیں حالانکہ ہمیں پسند نہیں ہوتا اور اس ہاں کے نتائج اکثر
منفی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ہم لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے اور
خجالت میں بغلیں جھانکنے لگتے اور بہانے بناتے ہیں حتیٰ کہ جھوٹ بولنے سے
بھی گریز نہیں کرتے ،ہماری حدود کی شروعات ہی ہاں یا ناں سے ہوتی ہے ہم
اکثر اس خوف میں بھی مبتلا رہتے ہیں کہ فلاں چیز یا کام ہمیں پسند نہیں
لیکن اگر انکار کیا تو دوست یا کوئی بھی ہو ناراض ہو جائے گا اور یہی ہماری
غلطی ہوتی ہے ہر اچھی بری بات میں ہاں کرنے سے ہم ہمیشہ ایک ایسے جھنجھٹ
میں پھنس جاتے ہیں کہ فیصلہ نہیں کر پاتے، کیا صحیع ہے اور کیا غلط، ہم نے
اپنے ارد گرد حدود کی خلاف ورزی کا ایسا حصار اور جال بن رکھا ہے جس سے نکل
نہیں سکتے،حد ایک تکلیف دہ لفظ ہے لیکن ہے کیا؟۔حدود ایک طرح سے لائن آف
سیلف کنٹرول ہے ہم جب بھی اس لائن کو کراس کریں گے تو سب سے پہلے ہم خود بے
ترتیبی اور افراتفری کا شکار ہونگے،ہمارے معاشرے میں حدود سے ناواقفیت اور
بے جھجھک اس پر عمل کرنے ، ر د عمل اور نتائج سے بے خبر ہونے سے ہی اس لفظ
کو برا سمجھا جاتا ہے،عام طور پر حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی
فرد دوسرے کی مرضی کے خلاف اقدام نہ کرے تو مختلف زاویوں اور حیلو ں بہانوں
سے پابند اور مجبور کیا جاتا ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہوتمھیں میرے فلاں فلاں
اقدام کو مکمل کرنے کی حامی بھرنا ہو گی ،مجبوری ایک اجنبی لفظ ہونے کے
ساتھ ساتھ حدود کے دائرہ میں زبردستی پیوستہ کر دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے
انسان بے چین،ناخوش اور اعصابی طور پر کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے،ہر
باشعور انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ حدود میں رہ کر اہم ذمہ داریوں مثلاً
خاندان کو تحفظ فراہم کرنا ، مستحکم سماجی تعلقات اور دیگر معاملات کو خوش
اسلوبی سے نبھائے اور امن قائم رکھے اور دوسروں کو بھی حدود میں رہنے کی
تلقین کرنے کے علاوہ ممکنہ طور پر عمل کرنے پر آمادہ کرے ،خود بھی عمل کرے
اور دوسروں کو بھی باور کروائے کہ بس ۔یہاں تک اس سے آگے نہیں۔ |