غریب حکومت کے مالدار حکمران

ضیاء الحق کی اسلامائزیشن سے اور بے نظیر بھٹو کی روٹی کپڑا اور مکان کے بعد نواز شریف کے نواز شریف آئیگا روزگار لائیگا جیسے نعروں سے لیکر پرویز مشرف کے سب سے پہلے پاکستان اور متحدہ مجلس عمل جسے ملا ملٹری الائنس بھی کہا گیا کے اسلام کے دعوؤں اور صوبائی خودمختاری کے دعوے کرنے والے افراد کے بعد اب ہم پرتبدیلی والی سرکار مسلط ہے -گذشتہ چالیس سال میں نہ تو ہم نے اس ملک میں اسلام دیکھا ، نہ ہی روٹی کپڑ اور مکان ، کیونکہ جس کے پاس روٹی ہے اس کے کپڑے نہیں اور جس کے پاس کپڑے ہیں تو مکان نہیں اور جن کے پاس یہ تینوں ہیں انہیں عام آدمی سے کوئی سروکار نہیں-جبکہ اب تو تبدیلی بھی آگئی ہے ایسی تبدیلی کہ اب ہمارے شہر میں ہیرؤنچی کھلے عام جی ٹی روڈ پر کے پی حکومت کی جانب سے بنائے گئے فلائی اوورز کے نیچے منشیات استعمال کرتے نظر آتے ہیں- اسے بھائی چارہ کہا جائے یا اخوت کا مظاہرہ لیکن یہ تبدیلی پشاور میں ہر کسی کو نظر آتی ہے-- ان چالیس سالوں میں عام شہری جس طرح روٹی ، کپڑے ، مکان ، روزگار ، خودمختاری اور اسلام کے پیچھے بھاگتے رہے انہیں کچھ نہیں ملا - اوراب جس طرح یہ ناچ ناچ کے تبدیلی لانے کے خواہشمند ہیں انشاء اللہ چالیس سال اور بھی گزر جائینگے لیکن ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئیگا اور پشتو مثل کے مصداق" لالے مے سوداگر دے ، تش زئی اور رازئی ، " والا کام ہوتا رہیگا-

لیکن ہاں ایک تبدیلی جو ضیاء کے دور سے شروع ہوئی اور ابھی تک دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہی ہے کہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں رکھنے والے اربوں کے مالک بن گئے اور اس کار خیر میں سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں- ملا نے اگر ڈیزل کے پرمٹ لیکر اسلام کا سودا کیا ، تو صوبائی خود مختاری کے دعویدار بھی تیل کے کارخانو ں کے مالک بن گئے- اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے دعویدار جو کسی زمانے میں ظالمو قاضی آرہا ہے جیسے نعرے لگاتے تھے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے گریز نہیں کررہے- بس ہمت کی بات ہے جو جتنا لے سکتا ہے لے رہا ہے- یہی صورتحال اب تبدیلی والی صورتحال کی بھی دیکھنے میں آرہی ہے- جن کے اثاثوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے-سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا کاروبار کیا ہے اور یہ کیسے قارون کے خزانے پر بیٹھے ہیں کہ ایک سال میں کروڑوں روپے کما لیتے ہیں-حالانکہ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بطور وزیر تنخواہ نہ لینے کا اعلان کرتے رہے ہیں لیکن پھر بھی سرکار کے خزانے سے اور غریب عوام کے جیبوں سے بہت کچھ نکال چکے ہیں- تبدیلی والی سرکار کے کچھ عہدیداروں کے سال 2013 ء سال 2014 ء میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کروڑوں روپے ان کی جائیدادوں میں اضافہ ہوا ہے-جبکہ بعض اسلامی بھائی چارے کا دعوی کرنے والے وزیروں کی زمینوں کی قیمتیں گر گئیں یعنی اپنے آپ کو خسارے میں ظاہر کیا ہے- ان میں بہت سارے اسلامی شریعت کے دعویدار بھی شامل ہیں -

عوامی نمائندگی کا نعرہ لگانے والے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 3 سے منتخب ہونیوالے جاوید نسیم نے ایک سال میں پینتیس لاکھ کا گھرحاصل کیا -صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے تھری سے منتخب ہونیوالے ممبر صوبائی اسمبلی جاوید نسیم نے سال 2013 ء میں الیکشن کمیشن کو دئیے گئے اثاثوں میں اپنے گھر کو ظاہر نہیں کیا تھا جبکہ سال 2014 ء میں انہوں نے پینتیس لاکھ روپے کا گھر اپنے اثاثوں میں ظاہر کیا تاہم اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی کہ یہ پینتیس لاکھ روپے کہاں سے آئے اور کس طرح انہوں نے گھر خریدا- اسی طرح سال 2013 میں ان کے پاس گاڑی نہیں تھی اور الیکشن کمیشن کو دئیے گئے گوشواروں میں جاوید نسیم نے nilلکھا تھا تاہم سال 2014 ء میں انہوں نے ٹویوٹا کرولا 2009 ء کو اپنی گاڑی ظاہر کیاجسے بقول جاوید نسیم کے انہوں نے پرائیویٹ کمپنی سے حاصل کیا تاہم اس گاڑی کی قیمت ظاہر نہیں کی گئی-جاوید نسیم کی بیگم کے پاس سال 2013 ء میں پچیس تولہ سونا تھا جو کہ سال 2014 ء میں کم ہو کر بیس تولے رہ گیا-سال 2013 ء میں جاوید نسیم نے ذاتی رقم الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں بیالیس ہزار روپے ظاہر کی تھی جو کہ سال 2014 ء کے گوشواروں میں نہیں رہی-ممبر صوبائی اسمبلی کے گھر کے فرنیچر کی قیمت بھی گر گئی سال 2013 ء میں ان کے گھر میں رکھے گئے فرنیچر کی قیمت ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھی جس کی مالیت کم ہوگئی اور سال 2014 ء میں ڈیڑھ لاکھ روپے تک رہ گئی-

تبدیلی کے نام پر صوبے میں حکومت کرنیوالی پی ٹی آئی کے وزیر معدنیات نے ایک سال میں ستاون لاکھ روپے کے پرائز بانڈ حاصل کئے خیبر پختونخواہ اسمبلی کے حلقہ پی کے ون سے منتخب ہونیوالے پی ٹی آئی کے ضیاء اللہ آفریدی جو کہ اس وقت صوبائی کابینہ میں وزیر معدنیات ہیں نے الیکشن کمیشن میں سال 2013 ء میں جمع کئے گئے کاغذات میں کسی قسم کی پرائز بانڈ ظاہر نہیں کئے تاہم سال 2014 ء میں ستاون لاکھ کے پرائز بانڈ ظاہر کئے گئے سال 2013 ء میں ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ جو کہ الیکشن کمیشن کو جمع کرائے تھے کی مالیت 4000000 تھی جسے 2014 ء میں ظاہر نہیں کیا گیا-سال 2013 ء میں کیش اینڈ ہینڈ میں14463138 روپے تھی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ گئی اور الیکشن کمیشن کو جمع کئے گئے اثاثوں کی مالیت میں یہ 15148783 روپے تک پہنچ گئی ضیاء اللہ آفریدی نے سال 2013 ء میں بینک میں کوئی کیش نہیں دکھائی گئی تاہم سال 2014ء کے ریکارڈ میں انہوں نے بینک میں 79354 روپے بینک میں ظاہر کئے-صوبائی وزیر معدنیات کے سال 2013 ء کے ریکارڈ کے مطابق دیگر اثاثہ جات کی مالیت 35014403 روپے تھی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ کر 37478137 تک پہنچ گئی یعنی ایک سال میں صوبائی وزیر معدنیات خیبر پختونخواہ نے 2463734 روپے دیگر اثاثہ جات کی مد میں بھی کمائے-
خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی کے اثاثوں میں گذشتہ ایک سال میں اضافہ ہوا -صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے تیرہ سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب ہونیوالے ممبر اور وزیراعلی خیبر پختونخوا ہ نے گذشتہ ایک سال میں اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا ہے- سال 2013 ء میں جمع کئے گئے الیکشن کمیشن کے گوشواروں کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت 221240780 تھی جو کہ سال 2014 ء میں 257261689 تک پہنچی پرویز خٹک کے پاس ذاتی نقدی سال 2013 ء میں 3137341 تھی جبکہ سال 2014 ء میں کم ہو کر2442360 تک رہ گئی اسی طرح بینک میں سال 2013 ء میں 147883 رقم تھی جو کہ سال 2014 ء میں بڑھ کر 9528597 تک پہنچ گئی وزیراعلی پرویز خٹک کے راولپنڈی کے شیرپاؤ کالونی میں پلاٹ نمبر 28 جو کہ زیر تعمیر تھی کی سال 2013 ء میں مالیت 120300000 تھی جس میں ان کا شیئر37.5 فیصد تھا جس کی سال 2014ء میں قیمت 146004650 تک پہنچ گئی سوات میں پرویز خٹک کی زمین کی مالیت سال 2013 ء میں 1815000 تھی جس میں2014 ء میں اضافہ ہو اور اس زمین کی قیمت 1996500 تک پہنچ گئی لاہور میں بدین روڈ پر واقع پرویز خٹک کی اہلیہ کے نام سال 2013 ء میں پلاٹ کی قیمت 7000000 تھی جس میں سال 2014 ء میں اضافہ ہوا اور پرویز خٹک کی اہلیہ کی پلاٹ کی قیمت 7700000 تک پہنچ گئی -

بطور وزیر تنخواہ نہ لینے کا اعلان کرنے والے شوکت یوسفزئی سال 2013 ء میں 62 ہزار روپے بطور وزیر صحت لیتے رہے ہیں -خیبر پختونخواہ اسمبلی کے حلقہ پی کے ٹو سے منتخب ہونیوالے شوکت یوسفزئی نے سال 2014 ء میں جمع کئے گئے اپنے گوشواروں میں اپنے اخبار روزنامہ سرخاب کو مکمل طور پر غائب کردیا ہے-جس کی مالیت سال 2013ء کے گوشواروں میں 1500000 روپے تھی اسی طرح جب وہ صوبائی وزیر صحت رہے تو سال 2013 ء میں باسٹھ ہزار روپے اعزازیہ لیتے رہے جس کا ذکر بھی سال 2013ء کے الیکشن کمیشن کو جمع کئے گئے گوشواروں میں کیا گیا-سال 2013 ء میں شوکت یوسفزئی کے پاس 200000 روپے ذاتی تھے جس میں کمی ہوئی اور سال 2014 ء میں یہ رقم 264476 تک پہنچ گئی - سال 2013 ء میں الیکشن کمیشن کو جمع کئے گئے گوشوارے میں ایک اکاؤنٹ میں 240000 روپے تھے جس کا ذکر سال 2014 ء میں جمع کئے گئے گوشواروں میں بالکل نہیں-شوکت یوسفزئی کے دوسرے اکاؤنٹ میں سال 2013 ء میں 2900 روپے تھے جو سال 2014 ء میں بڑھ کر تیس ہزار روپے تک پہنچ گئے-وزیر صحت کے طور پر کام کرنے والے شوکت یوسفزئی کے سال 2013 ء کے گوشواروں میں فرنیچرکی قیمت نہیں تھی جو کہ سا ل 2014 ء میں 75000 روپے تک دکھائی گئی یعنی ایک سال میں شوکت یوسفزئی نے پچھتر ہزار روپے کا فرنیچر گھر کیلئے خریدا- سال 2013 ء میں جمع کئے گئے گوشواروں میں شوکت یوسفزئی نے اپنے آپ کو قرضدار ظاہر کیا جو کہ 64000 تھی جو کہ انہوں نے ایک سال میں ختم کیا اور سال 2014 ء میں ان پر کوئی قرضہ نہیں رہا-

یہ تبدیلی والی سرکار کے دو چار افراد ہیں-جو اکثر میڈیا پر آکر صوبے کے سادہ لوح عوام کو مزید بے وقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ڈھول کے آگے ناچنے والے یہ لوگ " صرف آوے اور جاوے" کیلئے ہی زندہ ہیں - ایسے صوبے میں پر جہاں پر عام لوگ پانچ سو روپے مزدوری کیلئے بھی خوار ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ لوگ نہ تو ماضی سے سبق سیکھتے ہیں اور نہ ہی ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور یہی وجہ بھی ہے کہ ان کا کاروبار اوربینک بیلنس بڑھ رہا ہے اور عوام تبدلی کے خواب دیکھ رہی ہیں- جس پر کسی کو کوئی پابندی نہیں- جبکہ حقیقت میں یہی اور اس طر ح کے بہت سارے لوگ اپنے اثاثے بڑھا کر تبدیلی لا رہے ہیں-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497878 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More