ولی اللہ
(سید جہانزیب عابدی, کراچی)
اللھم صلی علیٰ محمد وآل محمد
وعجل فرجھم اجعمین
جس قدر انسان کے علم و تجربے میں کمی آنی شروع ہوتی ہے, شعوری کیفیت تمام
ہونا شروع ہوتی ہے اُتنا ہی وہ بے جا تقدس میں مبتلا ہوتا جاتا ہے۔ تقدس!،
قلب کے اندر ایسی روح کی بیداری کی کیفیت ہے جس کے تعلقات ملاء اعلیٰ سے
پیوست ہوتے ہیں مگر وہ اس ملاء اعلیٰ کے احترام کے بدلے میں ملاء اعلیٰ کے
فیوضات و برکات کے حصول کے بعد اُن معنوی، روحانی اور فکری و عملی، نعمتوں
کو امانت سمجھتا ہے، اِس کو تقسیم کرکے ہی وہ اپنے ظرف کو نئی نعمتوں کیلئے
تیار کرتا ہے۔ان سب نعمتوں سے خدا کی خدمت کرکے اُس کے تقدس کے اُس مزاج کو
بیدار کرنا مقصود ہے جس میں منہ بند اور بس خُدا کی خدمت جاری رہے ، اس سے
یہ سامنے آیاکہ اگر انسان خود اپنے آپ کو جواب دیتے وقت اس بات پر یقین
رکھتا ہےکہ کیا وہ اپنے اندر اعلیٰ روح رکھنے والا تخلیقی انداز اپنائے
ہوئے ہے یا نہیں؟! کیوں کہ ملائے اعلیٰ کو اعلا کہا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ
وہ خلق کرتا ہے!
ماحول کائنات میں نت نئی ایجادات ہیں اُس کی ان ایجادات کو وہ مزید اپنی
سطح کی ایجادات کرکے اُسی خلاقیت کی عملی تصویر پیش کررہا ہوتا ہے۔ ایسی
خلقت جواِ س سے بھی زیادہ سطحی انسانوں کیلئے سب سے بڑے خالقِ کی تخلیق کار
کی تصویر پیش کردیں، اگر آدمی ایسا نہیں کرتا تو خلقت کا نظام اور زمانے کی
گردش اُسے خاک کے ذرے بنادیتی ہے۔اس دنیا میں ہی وہ رہے گا جو زمانے کے چکر
کے ساتھ زمانے کے خالق اور سب سے بڑے خالق کی پہچان رکھتا ہوگا !
سطحی خلاقیت کے مالک ! یعنی انسان !، اس طرح نہ سوچے کہ وہ بس اتنا ہی جمع
کرسکتا ہے !
نہیں! بلکہ وہ خود کو اعلےٰ ظرف کا حامل بنائے !
اور زیادہ تخلیق کرے اور زیادہ جمع کرے !
مگر یہ ذہن میں رکھے کہ اس ظرف کو جس میں ہمارا مال و دولت اور انواع و
اقسام کی نعمتیں ہیں اس کے کچھ حدود ااربعہ بھی ہے خواہ معنوی ہی سہی، مگر
اُس کو تقسیم کرنا ہے۔۔۔
یہ اس کی قیمت ہے !
فکری رزق بھی امانت ہے اور اس کا دوسروں کو تعلیم دینا اس کو یاداشت اور
تجربے کے ارکائیو میں محفوظ کرتا ہے، یہی ارکائیو جتنا قوی ہوگا اور اس کے
کارندے جتنے چابک دست رہیں گے اور اطلاعات کے تسلسل میں کمی نہیں ہوگی اور
اطلاعات خواہ خواب اور خواہ کسی خاص کیفیت میں ہی کیوں نہ ذہن میں وارد
ہوں۔
منکر و نکیر قبر میں بھی اُسے ایک اگلی حَسین دنیا میں لیجانے آئیں گے وہ
اُس سے اگلی دنیا میں جانے کیلئےویزا انٹرویو کریں گے جو اُن کے سوالات
کےمثبت جواب دے سکے گا وہ اگلے مرحلے کی حَسین وادیوں میں سیر کرے گا۔
نعمتوں کا نااہلوں کودیاا نعمتوں کا ضیاع ہے، ناہل یعنی سسٹم کو نہ سمجھتے
ہوئے اپنی خواہشات نفسانی میں مبتلا ہوکر نعمتوں کا غیر ضروری استعمال کرنے
والا۔
انسان شاید سب ہی کہیں نہ کہیں نااہل ہیں مگر جو کم نااہل ہے وہ ہی خلیفہ
اللہ ، ولی اللہ اور صبغتہ اللہ ہےوہ ایسا ہی ہوتا جس کی اپنی زندگی ہوتی
ہے، اور اُس زندگی میں سب انسان اُس کے رشتے دار ہیں ،
سب آدمی کچھ لوگوں کو جانتے ہیں اور زیادہ تر کو نہیں جانتے،
مگر نقصان اور سب سے بڑا نقصان یہ ہی ہے کہ اس کلمتہ اللہ کو نہیں جانتے
ہوں!
اُس کے نمائندوں کو نہیں جانتےہوں،
ہر وہ آدمی جو کلمتہ اللہ کوپہچانتے ہیں اورخدمت کی اعلیٰ مثالیں دیتے ہوئے
اس راہ میں قربانیاں دیتے ہیں ۔۔۔!!
اُس کے ولی ہیں!!
ولایت ایسی ہی ہستیوں کی ہی اہل ہے!
جو نظام وخلقت کو اُس کی فطری گردش میں مدد و طاقت و انرجی فراہم کررہے
ہیں۔ اور جو تقدس اور احترام کی آڑ میں چاپلوسانہ نفسیات کے حامل ہوں یا
سسٹم کی رفتار سے آگے نکل جانے والے بھی سسٹم کی رفتار پر آتے ہیں
۔۔۔!!ابتدائی طور پر انسان نئے سسٹم سے الجھتا ہے، پریشان ہوتاہے، مضطرب
ہوتا ہے یہاں صبر اور برداشت کرنا اور زندگی کے سسٹم کے رازوں کو خود پر
اُور اس کے اہل افراد پر منکشف کرنا اور اُس کے مطابق عمل ، اس دنیا کو
خوبصورت اور نازک بنادتی ہے کہ آدمی کو پھر ایمانی حلاوت محسوس ہوتی ہے۔
یہی وہ عارف و ولی ہیں جو صرف یہ نہیں جانتے کہ حقیقت کیا ہے۔
بلکہ وہ موجود حقائق کی بنا اپنی زندگیوں میں ایسے فیصلے کرتے ہیں اور ایسے
سماجی تجربات سے گذرتے ہیں جو انہیں ایک عملی عرفان عطا کرتی ہے۔
یہ عملی عرفان ہر اُس آدمی کے پاس ہے جو غور و فکر و توجہ کرتا ہے۔
جو اپنے تخلیقی مزاج کو مرنے نہیں دیتا ۔
خون کے آخری قطرے، سانس کی آخری ڈور ٹوٹنے تک خدمت و خلاقیت کا جذبہ اپنے
تجربوں کو بڑھاتے ہوئے تسکین دیتا ہے۔
خالق سب کی خلاقیت میں مزید توفیقات عطافر مائے !
|
|