حکمت، اقتصاد اور اخلاق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

جدید دور تعلیم کے نئے اہداف کے ساتھ آیا اور صنعتی ترقی کی آڑ میں کارخانہ چلانے والے انسان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی غرض سے تعلیم و تربیت اور امتحانات کا نظام لایا اوریہ نظام اسکول، کالج، یونیورسٹیوں کی شکل میں ایسی تیزی سے چھایا کہ جس نے بھی اِس دور کی تعلیم و تربیت میں حصہ نہ لیا وہ معاشی اعتبار سے پست و راندہ بازار یا کارخانہ ہوگیا۔

آج کے دور میں نظام تعلیم و تربیت دین اسلام کی نظر میں ایسا ہو کہ جس سے آج کے جدید صنعتی دور کی احتیاجات بھی پوری ہوں اور دوسری طرف سماجی عدل و انصاف کے ذریعے عبد الہٰی پیدا کیے جاسکیں۔ نہ کہ صرف صنعت کار یا منافع خور !

ایسا تعلیمی نظام جس میں اخلاق و کردار کے ذریعے سماجی ناہمواریوں کی پیدائش کی روک تھام اور معاشرتی عدل کی بنیاد قائم کرنا ہو۔

ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے کسی نے پوچھا : مولا ظالم حکومت کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے تو امام نے جواب دیا کہ اگر متقی با صلاحیت ہوں اور باصلاحیت متقی تو میں قیام کرلوں۔ تقویٰ کا معیار صرف نماز روزہ حج کی ظاہر ی شکل نہیں بلکہ ان کنایوں اور تمثیلوں سے سیکھ کر ایسا عمل مطلوب ہے جو انسانی سماج کوعدل و انصاف سے پر کرسکے۔ اُس کو دشمن کی ترقی و پیشرفت کے مقابل خود کو جہاں علمی اور تکنیکی مہارت سے لیس کرنا ہے تو دوسری طرف خدا پر ایمان کے اثرات اپنے عمل سے بھی ظاہر کرنے ہیں۔اس معتدل رویے سے ایسی تہذیب کی بنا ڈالنی ہے جو آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے روحانی خوام مواد میسر کرسکے۔

یعنی تعلیم جہاں انسان کو اس صنعتی دور کی ضرورت پوری کرواتی ہیں اور اُس کی اجرت اُسے جدید کرنسی کی صورت میں ادا کرتی ہے تو دوسری طرف اُس کو سماج کے بندھنوں کو نبھانا اور اپنے نمازی بھائیوں کی معاونت ، مدد و خبر گیری کرنا سکھاتی ہے اور تیسری طرف اُس کو ان سماجی ذمہ داریوں کے ذریعے آخرت میں بہترین ثواب کا حقدار بھی بناتی ہے۔

تعلیم و تربیت ایک ایسا سلسلہ ہے جو کائنات کے ارتقاء میں فکری اور پھر عملی میدانوں میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور پھر ہم اگلی نسلوں کیلئے تازہ فکری مواد دے کر اس تعلیم وتربیت کے زنجیری سلسلہ کو قائم رکھتے ہوئے ارتقاء کائنات میں حصہ دار بنتے ہیں۔

یہی تعلیم وتربیت ہے جو فرد یا معاشرےکواُن کے حقوق ادا کرواتی ہےحرمت و فضیلت اور رذالت و پستی کو پہچنواتی ہے تاکہ ہم اپنی زندگیوںمیں مسائل کی جڑ اور اُن کے سد باب کی طرف رجوع کریں۔
" رسول وہ ہے جو تمھارے اندر سے زنگ کی چادریں اتارتا ہے اور تمھیں تعلیم وتربیت دے کر پاکیزگی و طہارت دیتا ہے۔"( القرآن)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ فرماتےہیں کہ:
" جس نے اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت درست انداز میں کردی ، میں اُس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں اور ہر لڑکی کی تربیت پر اُس کا جنت میں درجہ بڑھتا جائے گا۔"

انسان بھوکا رہ لے مگر تعلیم وتربیت کے مواقع ہاتھ سے نہ جانے دے اور سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ کو دور کرے۔ تعلیم کسی مسلمان کیلئے اتنی ضروری ہے جیسا کہ کھانا پینا اور سونا! خود حصول علم کیلئے جن وسائل کی اشد ضرورت ہوتی ہے اُس میں رپیہ پیسہ کا بہت دخل ہے، انسان حصول تعلیم کے ساتھ اپنی اقتصاد اور معیشت سے غافل نہ ہو!

دنیا کی نعمتوں میں رہتے ہوئے خدا کی عبادت اور خدا کی یاد رکھنے والا شخص ایسے شخص سے افضل ہے جو صرف سختیوں اور پریشانیوں میں ہی خدا کا تابع بنتا ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مومن کیلئے فقر یا فقیری کا خوف، ہر قسم کی برائی اور فتنہ کی چابی ہے۔"

یعنی تعلیم یافتہ کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ڈگری ہولڈر اور پی ایچ ڈی پڑھا لکھا کہے جانے کے لائق ہے !
ایسی تعلیم جو انسان میں عمومی فہم نہ پیدا کرسکے تاکہ وہ اِس عمومی فہم کے ذریعے پیش آنے والے مسائل کی گتھیوں کو سلجھا سکے تو ایسی تعلیمی اسناد گدھے پر لدی کتابوں کی مانند ہیں۔

تعلیم اگر انسان کو روحانیت اور معنویات سے دور لیجائے یا روحانیت ، معرفت کا سبب نہ بنے بلکہ غرور و سرکشی کا باعث بنے تو ایسی تعلیم انسان کو شیطان کا خدمتگار بنا دیتی ہے۔ایسی تعلیم جو انسان کو مثبت حرکت کے بجائے منفی حرکات یا جمود کا شکار بنادے، آبا ء اجداد کے جاہلانہ رسوم اور اُن کی غلطیاں جو جینز میں داخل ہوگئی ہیں اُن کا سدباب دعا و عمل سے نہ کرے تو یہ طاغوت اور شیطان ہے۔

ایسی تعلیم جو فقر سے بچنے کیلئے حرکت پر نہ اکسائے اور خدمت ِ خلق کا جذبہ قلب انسانی میں پیدا نہ کرسکے، جو باطل کے فریب میں آجائے یا باطل کے خوف سےبے جا مصلحتوں اورنہ ختم ہونے والی منصوبہ بندی میں الجھادے تو یہ تعلیم گمراہی ہے اور جہنم کی آگ ایسے نام نہاد علماء کیلئے خالق نے تیار کررکھی ہے اس دنیا میں ایسے نام نہاد تعلیم یافتہ افراد کیلئے ذلت اُن کا مقدر اور آخرت میں بھی رسوائی تقدیر میں لکھ دی گئی ہے۔

مگر اگر تعلیمی سلسلہ اپنے درست خطوط پر استوارو گامزن ہے اور متعلمین اور طالب علموں میں عام فہمی کے ذریعے مسائل کی پیش بینی کے ساتھ الہی رہنماؤں کی ہدایات اور توسل کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل ہورہا ہے توہم اس دنیا کو جنت کے نمونے کے طور برقرار رکھ سکتے ہیں، یہ سسٹم صرف تعلیم و تربیت کی ہی بدولت اپنی زندگی کی میعاد پوری کرسکتا ہے۔

اسلام وہ واحد صارف دوست نظام ہے جس کو وہی سیکھ سکتا ہے اور اِس کی تعلیم حاصل کرتا ہے جو اسے سیکھنا چاہے ورنہ جو اس کو راہنما نہیں بناتے وہ ممکن ہے قلیل مدتی آسائشوں کو تو حاصل کرلیں مگر طویل المدتی بنیاد پر فوائد اسی کو ملتے ہیں جو مسائل کے حل اور مسائل کی پیش بینی کے طورپر اسلامی تعلیم و نظام تربیتی کو اپنا راہنما قرار دے۔
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70895 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.