فریبی

نہرو باغ بینڈ اسٹینڈ کے پاس ’’سو ہا،،کسی کا انتظار کر رہی تھی بالکل سامنے باغ کے دروازہ کے پاس’’جواہر لعل نہرو کا مجسمہ اسٹریٹ لائٹ کی مدھم روشنی میں چمچما رہا تھا،وہ مجسمہ ’’سوہا،،کے دھیان کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا ، شام کے تقریباً چھ بج رہے تھے،سورج کی کرنوں نے آہستہ آہستہ اپنے پرَ سمیٹنے شروع کردئے تھے،اور رات کے پُر نورستاروں نے آسمان پر اپنا جلوہ دکھانا شروع کردیاتھا،چونکہ آج ہجری کی چودہویں تاریخ تھی اسلئے ہلال بھی اپنے شباب پر نظر آ رہا تھا، جوں جوں رات اپنی سیاہ چادر دراز کرتے جارہی تھی باغ کا موسم اور بھی سہانا اور دلچسپ ہوتا جا رہا تھا،وہاں کے دلفریب منظر اورپُرلطف فِضا سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیلانیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا، لیکن ’’سوہا،، اپنی جس سہیلی کابے صبری سے انتظارکر رہی تھی وہ اب تک نہیں آئی تھی۔

’’سوہا،، اس مجسمہ کو دیکھنے میں اس قدر غرق تھی کہ اسکوخیال تک نہیں تھا کہ کہاں کھڑی ہے؟ عین اسی وقت ایک شخص اسکے ’’گلے،،سے سونے کا’’ہار،،کھینچ کربھاگا’’سوہا،،نے محسوس کیاکہ کوئی اسکا ہار لیکربھاگ رہاہے وہ چلائی،چور․․․․․․․․․چور․․․․․․․․․پکڑو پکڑو،چور․․․․․․․․’’سوہا،، کی چینخ سن کرایک نو جوان اس کے تعاقب میں برق رفتاری سے ڈوڑا ور اس چور کو اپنے شکنجے میں لے لیا،دوچار گھونسے رسید کرنے کے بعد’’چین ،،سوہا کو لاکر دے دیا۔’’سوہا،، نے اس نوجوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسکا نام دریافت کیاتو اس نے اپنا نام ’’سورج،، بتا یااور یہ بھی کہ وہ کسی موبائل کمپنی میں مینیجر ہے جبکہ ’’سوہا،، ابھی ایم․اے(M.A)کی طالبہ تھی۔

جان نہ پہچان پھر بھی وہ میرے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس چور کے پیچھے بھاگا، اگرچور اسکو نقصان پہونچا دیتا تو!یہ سوچ کر ’’سوہا،،کو اس سے انسیت سی ہو گئی اور سورج کی آنکھ سے بھی پسندیدگی نمایا ہو رہی تھی،دونوں ایک دوسرے کا فون نمبر اور پتا لینے کے بعد اپنے اپنے راستے چل دئے ۔اسکے بعد دونوں کے درمیان ایس․ ایم․ ایس(SMS) سے بات شروع ہوکر فون کال تک پھر فون کال سے ملاقات تک پہونچ جاتی ہے۔اب دن بدن ملاقات میں اضافہ ہو تا گیا اور دونوں میں عشق ہوا،لیکن بات شادی پر آکر اٹک گئی۔چونکہ ’’سوہا،، نے جب ’’سورج،،کے ساتھ شادی کرنے کی بات اپنے گھر والوں کے سامنے رکھی توپہلے تواسے سمجھا یاگیا جسکا سوہا پر کوئی اثر نہ ہوا۔غصہ میں اسکی پٹائی کر دی گئی اورشادی سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ تمہا رے قابل نہیں ہے مو بائل کمپنی کا مینیجر ہے تو کیا ہوا؟ وہ ایک نچلی برادری کا (چمار )ہے،اسکے ماں باپ کا کوئی اتا پتا نہیں۔

لیکن’’سوہا،، ’’سورج،،کے محبت میں اس قدر ڈوب گئی تھی کہ اسے صحیح و غلط کا بالکل احساس تک نہ رہا،اور وہ ’’سورج،،کے عشق میں اندھی ہوکر اپنے خاندان وماں باپ کی عزت کو داؤں پر لگا کر ’’سورج،،کے ساتھ گھر سے نکل گئی۔اس نے ایک پل کے لئے نہیں سوچا کہ اسکے ماں باپ پر کیا گزرے گی معا شرہ میں انکی کیا عزت رہ جائیگی،سر اٹھاکر جینا انکے لئے عذاب ہو جائیگا۔

اس طرح سے جب کوئی گھر سے بھاگتا ہے تو عام طور پر بڑے شہروں کا رُخ کرتاہے تاکہ کوئی انہیں آسانی سے تلاش نہ کرپائے،سورج بھی سوہاکو سپنوں کے شہر ممبئی لے آیا۔ممبئی آنے کے بعد ایک مندر میں جاکرشادی کرلی اور ’’پٹھان واڑی(Pathan Wari) میں ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ چونکہ سورج ایک پڑھا لکھا ہونہار اور قابل لڑکا تھااسلئے بہت ہی جلد اسکوایک اچھی سی نوکری مل گئی اور دونوں کی زندگی بڑی خوشحالی سے گزرنے لگی۔

ا بھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک دن ’’سورج،، کسی کام سے گھر سے باہر گیا تھا اسی وقت آفیسر ’’پرکاش راؤ،،اپنے ساتھی کے ساتھ’’سوہا،، کے مکان پر آیا اور سوال کیا ’’سورج یہاں رہتا ہے؟،،سوہانے سہمی ہوئی حالت میں جواب دیتے ہوئے کہا،جی جی یہی رہتے ہیں لیکن ابھی وہ کسی کام سے باہر گئے ہیں،کب واپس ہونگے کچھ کہہ نہیں سکتی،کہئے کیا بات ہے؟ اور آپ کون ہیں؟ اور انکے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟کوئی ضروری کام ہے کیا؟مجھے بتا دیجئے میں انکو بتا دونگی، میں انکی بیوی ہوں۔

سوہاکی بات سنتے ہی ’’پرکاش ،،نے کہا کیا بات ہے!! سورج نے بہت جلدی دوسری شادی کرلی !پرکاش کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ سوہا پر بجلی سی ٹوٹ پڑی جیسے کائنات کی ہر چیز ساکت ہو گئی ہو، اور دل نے دھڑکنا بند کردیاہو،سوہا آنکھ پھاڑ کرپوچھنے لگی،کیا کہہ رہے ہیں آپ!دوسری شادی! سورج کی دوسری شادی!آپ جھوٹ بول رہے ہیں سورج ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے۔

ارے․․․ وہ تو پرلّے درجہ کا جھوٹا ،مکار،اور دھوکے باز انسان ہے،وہ تم سے کیا محبت کریگا؟۔ہمکو دھرم پور سے اسکی تفتیش کے لئے بھیجا گیا ہے،اسکی پہلی بیوی دو مہینے پہلے مر چکی ہے وارث کے طور پر’’میناکشی،،کے کرائے ہوئے انشورنس کے دو لاکھ کی رقم سورج کو ملی ہے۔لیکن میناکشی کے بھائی نے فریادلکھوائی ہے کہ اسکی موت قدرتی طورپر نہیں ہوئی ہے بلکہ اسکا قتل کیا گیاہے،اسی سلسلے میں انشورنس کمپنی نے تفتیش کروانا چاہا ہے ،کہ حقیقت کیا ہے؟اس لئے مجھے سورج سے پوچھ تاچھ کرنی ہے۔وہ آئے تو اسکواس علاقے کے تھانے بھیجو ورنہ ہم اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ نکا لیں گے، کیونکہ قانون کے ہاتھ۔۔۔۔۔۔سمجھ گئی ․․ہاں․․․۔

پرکاش تو چلا گیا لیکن سوہا دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ سورج نے مجھے بتایا تک نہیں کہ پہلے اسکی شادی ہو چکی ہے!،اور پولس اسکو اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں تلاش کر رہی ہے!!۔دھوکے باز،دغاباز،فریبی،یہ سوچتے سوچتے سوہا کا چہرہ انگاروں کی طرح سُرخ ہو گیااوروہ ایسے تیزتیز سانسیں لینے لگی جیسے دمے کی بیماری سے جوجتا انسان جلدی جلدی سانسیں لیتا ہے اسکو سورج سے نفرت سی ہو نے لگی،اور اسنے سوچ لیا کہ آج گھر آنے پر وہ ساری حکایت جان کر رہے گی۔

اُدھر پرکاش ابھی محلے کی گلی سے باہر بھی نہیں نکلا تھاکہ سامنے سے ایک نو جوان لڑکا آتا ہوا دکھائی دیا۔پرکاش نے سوچا یہ سورج تو نہیں ہو سکتاپھر بھی تسلّی کے لئے گلی کے کونے پر موجود’’کَلّو،، پان والے کی طرف بڑھا’’کلّو،، پان بنانے میں کچھ اس انداز میں مست تھا’کھَیکے پان بنارس والا کھُل جائے بند عقل کا تالا‘پرکاش کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر․کہیئے ساہب کا سیوا کروں۔ہم C.I.D سے ہیں․CCC.C.I.Dسے․ک ک ک کیا ہوا ساہب کُ کُ کُچھو ہوا ہے کیا؟۔ارے ڈرو مت یہ بتاؤ وہ لڑکا جوابھی ابھی یہاں سے گیا کون ہے؟’’اُووو ․لڑکا ۔ار ے ․․․ساہب اُوو تو سورج ہے ابھی تھوراسمیے پہیلے ہی اِیہاں رہنے آیا ہے،،پان والے کی بات سنتے ہی پرکاش اسکے پیچھے ہو لیا،جب اسکے گھرکے قریب پہونچا تو دروازہ بند تھا ’’پانڈے،، کو دروازے پر تعینات کرکے خودگھر کے پیچھے ایک کھڑکی پرکان لگاکر کھڑے ہو گیا اور اندرکی باتیں سننے کی کو شش کرنے لگا۔

اِدھر سورج یہ جان چکا تھا کہ C.I.Dآفیسر پرکاش اسکی چھان بین میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے ہے اور ہاتھ دھوکر اسکے پیچھے پڑ اہے۔گھر آتے ہی سوہا کو دیکھے بغیربیڈروم کی طرف جاتے ہوئے کہا:سوہاچلو سامان پیک کر لوہم یہ شہر چھوڑ رہے ہیں۔پرکاش راؤکو معلوم ہوچکا ہے کہ ہم یہاں ہیں وہ کبھی بھی آ سکتاہے۔اگر وہ آگیا تو ہمیں پریشان کریگا اور تھانے لیجا کر پوچھ تاچھ کریگااور ہمیں سکون سے رہنے بھی نہیں دیگا۔سوہا تو ابھی پرکاش کی بات پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔سورج نے چلا کر کہا: سوہا․․․سوہا․․․ میں کچھ کہہ رہا ہوں۔ اگر آپ نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے،میناکشی کا قتل نہیں کیا ہے تو ڈر کس بات کی ہے پرکاش چھان بین کر رہا ہے تو کرنے دو۔

ارے یار تو سمجھتی نہیں ہے میں تجھے سب بتاؤنگا،تو․․․تو․․․تو․․․بس سامان باندھ لے،ارے تُوسامان پیک کرنا یارPlease۔سوہاجو اب تک غصے کو ضبط کئے بیٹھی تھی سورج سے چلّاکر پوچھنے لگی تم کو میری فکرہے یا نہیں ؟مجھ سے محبت ہے یا نہیں؟سورج :کیوں نہیں محبت بھی ہے،اور فکر بھی۔لیکن رہنے کے لئے گھراور کھانے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے پاس پیسوں کی کمی تھی اسلئے میں نے پیسوں کے لئے اسکا قتل کیا،اور یہ صرف تیری خاطر تجھے خوش رکھنے کے لئے تیرے تمناؤں اور خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے کیا۔ میناکشی کا قتل کرکے اسکو قدرتی موت دکھانے کی کوشش کی تاکہ اسکے انشورنس کے دو لاکھ روپیے مجھے ملے،اسی پیسوں سے ہم گھر خریدینگے تیرے ماڈل بننے کے سپنے کو پورا کرینگے، ایک خوشحال اور پُر سکون زندگی گزارینگے۔یہ کہتے ہوئے سورج کہیں کھو سا گیاتھا پھر اچانک مُڑکر ۔ارے تو بیٹھے بیٹھے میرامُنہ کیا دیکھ رہی ہے چل چل جلدی سامان پیک کر۔

یہ سننا تھا کہ سوہا کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اسکی آنکھ پھٹی کی پھٹی اور مُنہ کھلا رہ گیا ابھی وہ کچھ کہتی اس سے قبل پرکاش کھڑکی سے کود کر اور ہولدار دروازہ سے آیا دونوں نے سورج کو گھیر لیا۔واہ بیٹا واہ ایک بے گناہ کی جان لیکراسکابے رحمی سے قتل کر کے اسکے ہی پیسوں سے اور ایک کی زندگی برباد کرنے چلا ہے تو!۔تونے کیا سوچاتھا شہرچھوڑیگا تو۔تو اپنے اتیت سے پیچھا چھڑا لیگا۔تونے ایک وحشیانا کام کیا ہے اسکی سزا تو تجھے مل کر ہی رہے گی۔پا نڈے دھرم پور کی میناکشی کے قتل کرنے کے جرم میں گرفتار کرلواسے․․․ اریسٹ ہِم(Arest Him)سورج نے بھاگنے کی بہت کوشش کی لیکن فولادی بازروالے ہولدار کے ہاتھوں سے خود کو چھڑانا اسکے بس کی بات نہ تھی۔

چند دنوں کے بعد سورج کو عدالت میں پیش کیا گیا چونکہ سوہا کے سامنے وہ اقبالِ جرم کر چکا تھا اسلئے سوہا کو ہی گواہی کے لئے بلایا گیا سوہا کی گواہی پرسورج کو عمر قید کی سزا ہوگئی اور سوہا اندر ہی اندر کہتی رہی ،میں نے اپنا خاندان چھوڑا، گھر بار خیر آباد کہا، اپنے ماں باپ کو دُکھ دیا، اپنے والدین کے لئے ذلت کا باعث بنی،اور سورج نے مجھ سے چیٹ کیا،مجھے دھوکہ دیا۔جھوٹا ․․․․مکار․․․․ دھوکے باز․․․․فریبی․․․․فریبی․․․․فریبی․․․۔

Mehtab Ansari
About the Author: Mehtab Ansari Read More Articles by Mehtab Ansari: 5 Articles with 5186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.