سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی
(MD JAHANGIR HASAN, New Delhi)
آپ سے عقیدت و محبت
کاتقاضایہی ہے کہ ہم آپ کی مہاجرانہ زندگی کے نورسےاپنےایمان وایقان کو
جلابخشیں
محترم قارئین:ہجرت کا لفظ آتے ہی ذہن میں سب سے پہلے جو بات ابھرتی ہے وہ
ہے’’ ہجرت نبوی‘‘جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکم الحاکمین کے حکم
سے مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ کی طرف کی تھی اور یہ ہجرت اقامت دین کے لیے
تھی ،چنانچہ اس کے بعد نہ صرف دین اسلام کی بالا دستی قائم ہوئی بلکہ اسلام
نے توحیدورسالت اور تصور آخرت کے ساتھ انسانیت کا جو پیغام دیا ہے وہ آج
بھی تاریخ انسانی میںایک انمٹ نقوش کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس وقت مہاجرین کے ساتھ انصارنےبڑی فیاضی کا مظاہرہ کیاکہ اپنی دولت میں
شریک کرنے کے علاوہ اگر کسی کے پاس چندبیویاں تھیں تو اپنی ایک بیوی
سےعلاحدگی اختیارکرلی اورپھراُسےمہاجربھائی کے نکاح میں دے دیا،اخوت ومحبت
والایہ عمل دیکھ کر بعض صحابہ کرام جو اب تک مکہ مقدسہ میں تھے ہجرت کرنے
لگے تاکہ انھیں بھی وہ چیزیں حاصل ہوں جو اولین مہاجرین کے حصے میں آئی
ہیں،لہٰذانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے
ارشادفرمایا:
إِنَّمَاالْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ،وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا
نَوىٰ،فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلٰى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى
امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهٗ إِلٰى مَا هَاجَرَ
إِلَيْهِ۔(بخاری،باب کیف کان بدء الوحی)
ترجمہ:اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے اور ہرشخص کو وہی ملے گا جس کی نیت اس نے
کی،اب جس کی ہجرت دنیاکے لیے ہے اُسے دنیاہی ملے گی اور جس کی ہجرت کسی
خاتون کے لیے ہےتواُس کی ہجرت عورت اورنکاح کے لیےہو گی ،کیوںکہ اس کی ہجرت
اسی کے لیے ہےجس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔
یہاں ایک سوال اٹھتاہے کہ اس ہجرت کااصل مقصدکیاتھا؟میرےخیال میںاس کا اصل
مقصدیہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے دنیاکی ہر چیزسے
علاحدگی اختیارکی جائے۔لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےجو ہجرت فرمائی
،یہ بظاہر مکہ مقدسہ سے مدینہ منورہ کا ایک سفر تھالیکن اس ہجرت کے ذریعے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےخالص اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کے لیے تمام
دنیااور اس کی چیزوں سے منھ موڑلیا اور دعوت وتبلیغ اوراقامت دین کے لیے
خود کووقف کردیا ۔
یہ حق ہے کہ فتح مکہ کے بعد فرمان نبوی کے مطابق کوئی ہجرت نہیں ،لیکن اس
کایہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی کوئی معنویت و اہمیت نہیں رہی بلکہ اصل ہجرت
آج بھی عام وتام ہے کہ خالص اللہ کی رضا کے لیے تمام فانی چیزوں سے کنارہ
کشی اختیارکرلی جائے اور ہر گناہ سے ہجرت (ترک)کرکےصرف اللہ رب العزت کی
طرف توجہ کی جائے۔یہ ہجرت صحابہ کرام سےلے کر مشائخ عظام تک جاری وساری
ہےاور تاقیامت باقی رہے گی،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی
صراحت فرمادی ہے:
لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الفَتْحِ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا
اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا۔(سنن ترمذي ،کتاب السیر، باب ما جاء في
الہجرة)
فتح مکہ کے بعد ہجرت مدینہ کی معنویت نہیں رہی لیکن جہاد نفس اور ترک گناہ
کی نیت تا قیامت باقی رہے گی، جب بھی دین کی سر بلندی کے لیے ہجرت کی ضرورت
پڑے تو تم ضرور ہجرت کرو۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّ الْهِجْرَةَ خَصْلَتَانِ: إِحْدَاهُمَا أَنْ تَهْجُرَ
السَّيِّئَاتِ، وَالْأُخْرىٰ أَنْ تُهَاجِرَ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهٖ،
وَلا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ مَاتُقُبِّلَتِ التَّوْبَةُ، وَلا تَزَالُ
التَّوْبَةُ مَقْبُولَةً حَتّٰى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنَ
المَغْرِبِ۔(مسنداحمد،عبدالرحمن بن عوف)
ترجمہ:ہجرت دو طرح کی ہیں ،ایک گناہوں کو ترک کردیا جائے اور دوسرا اللہ
ورسول کی طرف ہجرت (توجہ) کی جائے، کیوں کہ جب تک توبہ کا سلسلہ بندنہیں
ہوگا اس وقت تک ہجرت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگااور توبہ اس وقت تک مقبول ہوتی
رہے گی جب تک کہ سورج مغرب سےطلوع نہ ہوجائے۔
اس کے علاوہ بھی ہجرت کی مختلف صورتیں ہیں جیسے:
ے اگر کسی مقام پر دعوت دین ،تعمیرانسانیت،اقامت دین ،دین پر عمل اور صالح
معاشرے کی تشکیل کا موقع نہ مل رہا ہو تو وہاں سے ایسے مقام کی طرف ہجرت کی
جائے جہاں ان مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔
ے بندہ ان تمام چیزوںسے رک جائےجن سے اﷲ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نےمنع فرمایاہے ۔
ے طلب دین و تزکیہ نفس کے لیے احباب ووطن سےدورمدرسہ و خانقاہ، استاذ و
مرشد کی تلاش میںجانا اور مل جائے تو وہاں رہ کر طلب دین و تزکیہ حاصل کرنا
۔
دین میں کامل ومکمل ہوجانے کے بعدشیخ کی اجازت سے عوام وخواص کی تعلیم و
تربیت اور تزکیہ کے لیے سفر کرنا اورجہاںجیسی ضرورت ہو وہاں جانا۔
لیکن سردست ہجرت کی آخرالذکرقسموںپر گفتگو کریںگے ،کیوںکہ دینی تعلیم
وتربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے صالحین و صادقین کی بارگا میں جانااور کامل و
مکمل ہوجانے کے بعدعوام وخواص کی تربیت وتزکیہ کے لیے احباب واقارب اوروطن
محبوب سے دوری اختیارکرلینےپرنہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل رہا
ہے بلکہ مشائخ عظام نے بھی اس پر سختی سے عمل کیا ہے اور دعوت وتبلیغ کی
شمعیں ہمیشہ روشن کی ہیں۔
ان میں ایک اہم نام خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہٗ (ولادت:۵۳۷ھ
مطابق۱۱۳۹ء)کابھی ہے جنھوںنے پندرہ سال کی عمرسے ہی اس راہ میں قدم رکھ
دیاتھا کہ والدین کریمین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہونے کے بعدورثے میں صرف
ایک پن چکی اور ایک باغ ملالیکن حضرت ابراہیم قندوزی قدس اللہ سرہٗ نے آپ
کے دل میںعشق حقیقی کاایسا صورپھونکاکہ آپ نے نہ صرف اپناسارا مال واسباب
اللہ کی راہ میں صدقہ کردیابلکہ تمام دنیاسے کنارہ کش ہوکرتزکیہ نفس کے لیے
ایک مرشد برحق کی تلاش میں نکل پڑے اورایسے نکلے کہ اسی راہ حق ہی میںاپنی
تمام عمرتمام کردی۔
خواجہ معین الدین چشتی جب’’نیشاپور‘‘کے ایک قصبہ ’’ہرون‘‘پہنچےتو وہاں ان
کی ملاقات شیخ کامل خواجہ عثمانی ہارونی قدس اللہ سرہٗ سےہوئی، انھوںنےپہلی
ہی ملاقات میں بیعت سےنوازا،اورپھر ڈھائی سال بعد اجازت وخلافت بھی عطاکردی
۔ تقریباً بیس سال تک مرشد گرامی خواجہ ہارونی نے مختلف دعوتی وتبلیغی سفر
میںاپنے ساتھ رکھا۔اس درمیان مرشد گرامی نے حقیقت ومعرفت کی وہ سیر کرائی
کہ اپنے وقت کےعظیم مشائخ کرام بھی ان کی نگاہ کرم کے محتاج نظر آنے
لگے۔پھرشیخ ہارونی کی اجازت سے مختلف مقامات کاسفرکیا اور اپنے وقت کےعظیم
مشائخ سے فیضیا ب ہوئے ۔
جب مرشدگرامی خواجہ عثمان ہارونی حج کے سفر پر روانہ ہوئے،توسلطان
الہندخواجہ معین الدین چشتی کو بھی اپنے ساتھ لیتے گئے اوریکے بعد
دیگرےبارگاہِ الٰہی اور بارگاہ نبوی میں انھیں پیش کیا،چنانچہ دونوں
بارگاہوںسےخواجہ ہند کو شرف قبولیت کا مژدہ سنایاگیا ،پھر ایک دن بارگاہ
نبوی سے ہندوستان کی ولایت کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہدایت کی گئی کہ
ہندوستان چلے جاؤ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم پاتے ہی آپ
نے ملک ہندوستان کارخ کیا ، اور ہرات،بلخ ،افغانستان ہوتے ہوئے ہندوستان
پہنچےجہاںسنہ ۵۸۸ ھ مطابق ۱۱۹۰ء کو شہرلاہورمیںقدم رکھا،وہاںحضرت شیخ علی
ہجویری داتاگنج بخش قدس اللہ سرہٗ کے مرقدانورپر دوماہ تک عبادت وریاضت میں
مشغول رہے ،پھر جالندھر ہوتے ہوئے دہلی کا رخ کیااور قطب الدین ایبک کے عہد
میں چالیس نفوس قدسیہ کے ساتھ دہلی تشریف لائے،دہلی میں کچھ دن قیام کے بعد
اجمیرکے لیے کوچ کیا اور۱۰؍محرم سنہ ۵۹۱ھ مطابق ۱۱۸۹ءکو اجمیرقدم رنجہ
فرمایااوراسی مقام پر سنہ ۶۳۳ھ مطابق ۱۲۳۵ء میں وصال ہوا۔
اس طرح دیکھیں توخواجہ معین الدین چشتی نے اپنی چھیانوے سالہ زندگی میںسے
اکیاسی سال مہاجرانہ زندگی بسر کی، یعنی انھوںنےاپناگھربار،دھن دولت،احباب
واقارب اوروطن سب کچھ خالص اللہ رب العزت کی محبت میں اور اس کی رضا
وخوشنودی کے لیے ترک کردیا،ان کایہ عمل ہم سب کے لیے قابل عبرت ہےکہ ہم
سبھی لوگ خواجہ معین الدین چشتی سے عقیدت ومحبت کادم بھرتے ہیں،ان کے نام
پر محفلیں سجاتے ہیں،اوران کے نام پر غریبوں میں صدقات وخیرات تقسیم کرتے
ہیں لیکن کیا کبھی اس پہلوپرغورکرتے ہیں کہ انھوںنے ہجرت کی اپنے
گناہوںسے،اپنی انا نیت سے ،اوراپنی نفسانی خواہشات سے، تو ہم بھی ان تمام
باتوںسے ہجرت کریں،اورانھوںنے ہجرت کی طلب دین ، تزکیہ نفس ،اور دعوت
وتبلیغ کے لیےتوہم بھی ان تمام باتوںکے لیے ہجرت کریں،اور اگر یہ نہ ہوسکے
توکم ازکم اپنے کسی قریبی صالح یا عالم ربانی کی صحبت میں ہی زندگی کا کچھ
نہ کچھ لمحہ ضرور گزاریں،کیوںکہ سلطان الہندخواجہ معین الدین چشتی سے عقیدت
و محبت کاتقاضایہی ہے کہ ہم ان کی مہاجرانہ زندگی کے نورسے اپنے ایمان
وایقان کو جلا بخشیں۔
(ایڈیٹرماہنامہ خضرراہ الہ آباد) |
|