دو گز زمین
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
ظہور احمد نے میٹرک کرتے ہی گاؤں
سے نکل جانے کو ٹھان لی تھی۔اُس کو معلوم تھا کہ زندگی میں اگر کچھ کرنا ہے
تو پھر یہاں سے دور جاکر اپنی زندگی کو ایک ڈھنگ سے طریقے پر ڈال کر ہی وہ
اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتا ہے ۔یہاں اُسکی بوڑھی ماں کے علاوہ کوئی بھی
تو اس کا اپنا نہ تھا جس کو وہ اپنے دل کی باتیں سنا سکتا تھا۔اُس کا دل ہی
بہتر حال جانتا تھا کہ والد کے بچپن میں ہی انتقال کرنے اور اسکی والدہ کی
دوسری شادی کے بعد اُس کی ذہنی حالت کس کرب میں گذررہی تھی۔ایک بھائی تھا
مگر وہ اپنے حال میں مست تھا اور بہن توبس شادی کے بعد اپنے ہی گھر کو
پیاری ہو چکی تھی ۔لہذا اُس کو اپنی زندگی کسی کے سہارے کے بنا ہی جینا تھی
اور وہ شروع سے ہی کچھ ایسا مزاج رکھتا تھا کہ اُسکی اپنے سوتیلے بھائیوں
سے بھی کبھی نہ بن سکی تھی تو اس کے لئے بہتر تھا کہ وہ گاؤں سے دور پہلے
بھاولپور شہر میں جاکر اپنی کچھ تعلیم مکمل کرے اور پھر روشنیوں کے
شہرکراچی میں روز گار میں مشغول ہو جائے۔اُس کی بوڑھی ماں یوں بھی بے پناہ
محبت کے باوجود اُس کو زیادہ اپنے پاس نہ رکھ سکتی تھی کہ وہ بھی اپنی نئی
زندگی میں متوجہ ہوچکی تھی اور گاہے بگاہے پیش آنے والے حالات و واقعات نے
ظہور احمد کے دماغ پر یہ بات ثبت ہو چکی تھی کہ وہ’’تنہا ہے ،اورکوئی اسکا
ہمدرد نہیں ہے‘‘۔
ظہور احمد اپنے آپ کو ذیادہ چالاک و ہوشیار تو نہیں سمجھتا تھامگر بعض
معاملات میں وہ ایسے حاضر جوابی سے مسئلوں کو حل کر لیتا تھا کہ اُسکے دوست
بھی اُس پر رشک کرتے تھے اور حسد کرنے لگ گئے تھے ،جیسے عملی زندگی میں آنے
سے قبل اُسکے سوتیلے بھائی کرنے لگے تھے اور اُسکو گاؤں سے نکلنا پڑ گیا
تھا۔اپنے آپ کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد وہ بطور اُستاد ملازمت کرنے
لگا اور پھر وکالت میں دلچسپی نے وکیل بننے پر بھی مجبور کر دیا ۔اُسی
دوران اُسکی شادی ہو گئی اور پھر اُسکے جو خواب تھے وہ کچھ دھرے کے دھرے رہ
گئے کہ اُس کو اب اپنے گھریلو زندگی پر بھی توجہ دینے پڑ گئی اور وہ جو
اپنے پیارے پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا پھر اپنی ہی دو وقت کی روٹی
کی مشقت میں ہی کھو سا گیا۔رفتہ رفتہ بچوں کی پیدائش نے بھی اس کو مزید
اُنکی محبت میں گرفتار کر دیا او راُنکے لئے اپنے آپ کو بھول سا گیا ۔اِسی
دوران اسکی والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ جو پہلے ہی ذہنی طور پر الجھا
ہوا سا تھا اور ٹوٹ سا گیا کہ پہلے چھوٹا بھائی بھی ایک حادثے کا شکار ہو
کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا ۔
اپنی زندگی میں وقت کے سرد گرم سے گذرتے ہوئے وہ بھی اُس عمر میں آپہنچا
تھا جب کچھ آرام طلبی کی ضرورت ہوتی تھی مگر اُس نے خود داری قائم
رکھی،اپنی جہدوجہد کو جاری رکھا او ردو وقت کی روٹی کے لئے اپنی وکالت آخری
وقت تک نہ چھوڑی اور یہی عادت اپنے بچوں میں بھی پیدا کی اوراپنی مانند حق
سچ کے لئے لڑنے کے لئے قربانی دینے پر اُکسایا۔وقت نے ظہور احمد کو وہ سب
دیا جو وہ چاہتا تھا مگر اس نے اپنی شرافت سے نام تو پیدا کیا مگر بچوں کو
مکان نہ دے سکا۔چونکہ لڑائی بھڑائی میں مہارت حاصل نہ تھی ،اکیلے پن کا بھی
خوف تھا اور قانون سے بھی محبت تھی تواُس نے اپنے بچوں کو ویسا بنایا جیسا
وہ چاہتے ہوئے بھی نہ بن سکا تھا۔اُسکی فطری شرافت ،خوداری نے وارثت میں
بہت کچھ جائیداد میں حقدارہونے کے بس یہی صلہ ملا جب اُ س کا آخری وقت آیا
تو اسکو اپنی مٹی میں دفن ہونے کو بھی دو گز جگہ نہ ملی اور اُسے وہاں جہاں
اس نے عملی زندگی شروع کی وہیں دفن ہونا پڑا۔
|
|