حد ہو گئی ! ( قسط : ۳ )
(Abdullah Amanat Muhammadi, Kasur)
امت مسلمہ میں شرک
عبدالرحمٰن :
تمام حضرات قریب آ جائیں ، تھوڑا اور نزدیک ہو جائیں (لوگ قریب ہو گئے ) بس
! ٹھیک ہے اب توجہ فرمائیں ۔’’سب سے بڑا گناہ شرک ہے ۔مشرک کو اﷲ تعالیٰ نے
معاف نہیں کرنا ، باقی جسے چاہیے گا بخش دے گا ۔ شرک امت مسلمہ میں بڑی
تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے ‘‘ ۔ ’’دیکھو لوگو ! یہ کیا کہہ رہا ہے ؟ ا مت
مسلمہ تو شرک کر ہی نہیں سکتی‘‘ ۔ ایک ضعیف آدمی ، عبدالرحمٰن کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے بولا ۔ عبدالرحمٰن نے تھوڑی اونچی آواز کرتے ہوئے کہا :
’’ کون کہتا ہے مسلمان شرک کے مرتکب نہیں ہوسکتے ؟ ‘‘
بوڑھا شخص تھوڑا غصے میں بولا :
’’ میں پاگل ہو ں ؟ بچپن سے سُن رہا ہوں مسلمان جو مرضی کریں شرک سے بچے
رہیں گے‘‘ ۔ میرے سفید بال نہانے سے نہیں ہوئے ؟ ۶۵ سال عمر گزاری ہے میں
نے ۔ ہمارا عالم کہتا ہے : ’’ جو چاہو عمل میں لاؤ ! اولیاء کو سجدہ کرو ،
قبروں پر نذرونیاز چڑھاؤ اور ماتھا ٹیکو ، پیروں کے پاؤں چومو، مزاروں کے
درختوں کے پتے کھاؤ، درباروں پر مجاور بن کر بیٹھو ، گیارویں شریف دو ، غیر
ا ﷲ سے مدد طلب کرو ، اولیاء کے بارے میں غلط نہ سوچو کیونکہ وہ دلوں کے
حال تک جانتے ہیں ، پیر جو کہے وہ مانو، اگر مرشد قرآن کے خلاف بھی بات
کرئے تو کتاب اﷲکو چھوڑ دو ۔ کیونکہ قرآن شریعت بتاتا ہے اور پیر عشق ،
جہاں عشق آجائے وہاں شریعت کا زور بھی نہیں چلتا ۔ زکوۃ چاہے نہ دو گیارویں
ضرور دو ، کیونکہ اگر یہ نہ دی تو پیر صاحب تمہیں نقصان پہچائیں گئے ۔ ہاں
! اﷲ کے غضب سے تو گیارویں والے پیر چھوڑوا لیں گئے لیکن پیر سے تمہیں کوئی
نہیں بچا سکے گا۔ جہاں سے پکارو گے بزرگ تمہاری سنیں گئے اور مدد کریں گئے
۔حج بیت اﷲ کی بجائے پاکپتن ، اجمیر ، لاہور ، ملتان ، شرقپور ، گولڑہ ،
قصور اور بغداد شریف جاؤ ، حج سے زیادہ ثواب ملے گا ۔ قوالیاں سنتے رہو ،
بزرگوں سے ہی اولاد مانگو ، کیونکہ اﷲ ہماری سنتا نہیں اور اُن کی موڑتا
نہیں ۔ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، رب جانے اور مرشد جانے ، بس ہر
تنخوا اور ہر فصل میں سے پیر صاحب کو حصہ پہنچا دو۔ حتی کہ جو مر ضی کرو
شرک نہیں ہو گا ‘‘ ۔ لوگو ! مجھے بتاؤ کہ : ’’ جو نماز پڑھے ، روزے رکھے ،
زکوۃ دے ، حج کرے اور سارے نیک اعمال کرے وہ کیسے مشرک ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمٰن ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ‘‘ ، پڑھتے ہوئے :
بابا جی ! یہ بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے کہ : ’’ مسلمانوں میں شرک نہیں ہوگا
‘‘ ۔ قرآن و حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ : ’’ امت مسلمہ شرک کرے گی
‘‘ ۔ سب بھائی توجہ فرماؤ :
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وما ےؤمن اکثرھم باللّہ الّا وھم مّشرکون : ان
میں سے اکثر لوگ باوجود اﷲ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ‘‘ ، (یوسف :
۱۰۶ ) ۔
نبی پاک ﷺ سے کثیر التعداد احادیث مروی ہیں جن سے واضح ہے کہ : ’’ مسلمان
بھی پہلی قوموں کی طرح شرک کریں گئے ‘‘ ۔ جیسا کہ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے
کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے
لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جاملیں گے اور قیامت کے قریب
تقریباََ تیس جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ
نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ‘‘ ، (ابن ماجہ
:۳۹۵۲ ) ۔سیدنا ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ’’
میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ )آیا ۔ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ
میری امت سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک
نہ ٹھہرایا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ‘‘ ، (بخاری : ۱۲۳۷ ) ۔ حضرت ابو
ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی
جاتی ہے ، ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی
شفاعت کے لیے قیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ’’ان شاء
اﷲ‘‘ ، میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ
وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا ‘‘ ، (مسلم:۴۹۱) ۔
سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ اﷲ تعالیٰ
نے فرمایا ۔۔۔اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے
پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ
ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا‘‘ ،
(ترمذی : ۳۳۱۰) ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے
اسلام کے بعد اﷲ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک
کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں شامل ہوجائے ‘‘ ، (ابنِ ماجہ :۲۵۳۶ ) ۔
اور سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، جب سورۃ الانعام کی یہ آیت اتری جو
لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں گناہوں (ظلم ) کی آمیزش نہیں
کی ، تو آپ ﷺ کے اصحاب نے کہا یا رسول اﷲ ! ﷺ یہ تو بہت ہی مشکل ہے ۔ ہم
میں کون ایسا ہے جس نے گناہ (ظلم ) نہیں کیا ۔ تب ا ﷲ پاک نے سورۃ لقمان کی
یہ آیت اتاری ’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ ، کہ بیشک شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ ،
(بخاری :۳۲) ۔
موسم بھی حیرت انگیز نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ جاڑے (Winter ) میں دھوپ کی
کرنیں تحفے سے کم نہ تھیں ۔ سورج کی حرارت سے دھند (Fog) کا زوال بھی ہم سے
کھیل رہا تھا ۔ آفتاب کا جوش جکڑے ہوئے جسم کے لہو کو اپنی موٹر وے پر گشت
کرنے میں آرام مہیا کر رہا تھا ۔ تپتا ہوا سماں ، گرمیوں میں شام (
Evening) کو سمندر کے کنارے بیٹھنے کے مترادف تھا ۔ عبدالرحمن بھی کتاب و
سنت کی چاشنی سے دل و روح کے ٹمپریچر ( Temperature ) کو بڑھا رہا تھا :
سلف صالحین کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ : ’’ مسلمان مشرک ہو سکتے ہیں ‘‘ ۔ جیسا
کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ جو لوگ انبیا ؑ اور نیک
لوگوں کی قبور کی زیارت کرنے آتے ہیں اور انہیں پکارنے اور ان سے سوال کرنے
کی غرض سے آتے ہیں یا اس لیے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں اور انہیں اﷲ کے
علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں ‘‘ ، (الرد علی الاخنائی :۵۲ ) ، (کلمہ
گو مشرک ، ص : ۹۲ )۔ امام مالک ؒ کے دور میں بھی مسلمانوں کے بہت سے فرقے
ہوچکے تھے ، اس وقت کے قدریہ ، جو تقدیر کے منکر تھے جب ان کے ساتھ شادی کے
بارے میں امام مالک ؒ سے پوچھا گیا تو انہوں نے قرآن پاک کی یہ آیت پڑھی :
’’ ایمان والا غلام ، آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا لگے ‘‘ ،
(البقرۃ : ۲۲۱) ، (کلمہ گو مشرک ، ص : ۹۱ )۔
قرآن و حدیث اور محدثین کے اقوال سے نمایاں ( Clear) ہے کہ : ’’ مسلمان شرک
کر سکتے ہیں ‘‘ ۔ میرے ذہن میں مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے وہ اشعار
ہتھوڑے کی طرح ٹکرا رہے ہیں جن میں وہ فرماتے ہیں :
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دُعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اِسلام بگڑے نہ ایمان جائے
وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں وہ بدلہ گیا آکے ہندوستان میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
فرق جامی بھی فرماتے ہیں :
سر بتوں کے سامنے غیروں کا جھکنا کافری اور مسلمانوں کے سجدے سجدھائے
احترام
دین کی تعلیم جنس خا م ہو کر رہ گئی حق پرستی کفر کا پیغام ہو کر رہ گئی
برادران ! اتنی باتوں کا مقصد یہ ہے کہ :’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں اور
کرتے ہیں ‘‘ ۔ جس کے زیادہ ہونے کی خاص وجہ ہے کہ ہم کتاب و سنت کا علم
حاصل نہیں کرتے ۔ رسول اﷲ ﷺ نے امت کو نصیحت کی تھی کہ : ’’ میں تم میں دو
چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی
گمراہ نہیں ہوسکو گے ، ایک کتاب اﷲ (قرآن ) اور دوسری میری سنت (حدیث ) ‘‘
۔ ہم نے قرآن و حدیث پر نہ تو عمل کیا بلکہ اس پر غورو فکر کرنا ہی چھوڑ
دیا ۔ ہم تحقیق کرتے نہیں لیکن لڑائی جگڑے ، مناظرے ، گالی گلوچ ،مار کٹائی
، لعن طعن اور مار دھاڑ کی تلواریں چلاتے رہتے ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو
ترجمے کے ساتھ پڑھیں تو مولوی حضرات ہمیں غلط بات نہیں سمجھا سکتے ۔ ہمارا
تو حال ایسا ہے کہ اگر کوئی شرکیہ بات کرے ، اسے ٹوکنے کی بجائے اونچی آواز
میں ’’ سبحان اﷲ‘‘ ، کہہ دیتے ہیں ۔دن بہ دن توحید و سنت سے دوراور شرک و
بدعت سے تعلق جوڑ رہے ہیں ۔
کیا یہی رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات تھی ؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ سید
المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ
مخفی ہوگا اور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے
تو اﷲ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا ۔ تم یہ دعا پڑھنا :
اللّھمّ انّی أعوذبؤ أن أشرأ بأ وأنا أعلم ، وأستغفرأ لما لا أعلم ‘‘ ،
(صحیح الجامع للالبانی : ۳۷۳۱ ) (زاد الخطیب ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۵۱ ) ۔ نبی
پاک ﷺ نے فرمایا کہ :’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا‘‘
، مسلمان سمجھتے ہیں امت مسلمہ جو چاہیے کرے شرک کی مرتکب ہی نہیں ہو سکتی
۔ ہم لوگ جو زنا کرے اسے بدکار ، جو چوری کرے اسے چور ، جو جھگڑا کرے اور
لڑاکا اور جو ہلاک کرے اسے قاتل کہتے ہیں ؟ جب کوئی شرک کرے تو کہتے ہو نیک
اعمال کرنے والا یا مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ۔ عبدالرحمٰن کی بائیں طرف
کھڑا ہوا ایک لڑکا بولا :
ہمیں اس بات کا علم تو ہوگیا ہے کہ : ’’ مسلمان شرک کر سکتے ہیں ۔ لیکن شرک
ہے کیا ؟ ‘‘
(جاری ہے ) |
|