حد ہو گئی ! (قسط :۴)

ذات میں شرک
’’ شرک کی دو قسمیں ہیں ۔ شرک اکبر اور شرک اصغر ، پھر ہر ایک کی کئی اقسام ہیں ‘‘ ۔ پہلے میں شرک اکبر کی تفصیل بیان کروں گا (ان شاء اﷲ ) عبدالرحمن نے ہلکا سا جوشیلے ( Enthusiast ) انداز میں کہا ۔
اﷲ پاک اپنی ذات ، صفات اور عبادات میں یکتا اور بے مثل (Unique ) ہے ۔ اس کی ذات ، صفات اور عبادات میں کسی کو حصہ دار یا ہمسر سمجھنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ شرک اکبر کی تین بڑی اقسام ہیں : ’’ ذات میں شرک ، صفات میں شرک اور عبادات میں شرک ۔ ‘‘
’’ مخلوقات میں سے کسی کو اﷲ کا بیٹا ، بیٹی یا خدا میں سے قرار دینا ، ذات میں شرک کہلاتا ہے ‘‘ ۔مثلاََ: ’’عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور یہودیوں نے حضرت عزیر ؑ کو اﷲ کا بیٹا کہااور مشرکین مکہ نے فرشتوں کو اﷲ کی بیٹیاں قرار دیا‘‘ ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے : ’’ یہود کہتے ہیں عزیر اﷲ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اﷲ کا بیٹا ہے ‘‘ ، (التوبہ : ۳۰ ) ۔ اﷲ پاک نے فرمایا : ’’ کہہ دیجئے ساری تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۱۱۱) ۔ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ ان کا قول تو یہ ہے کہ رحمٰن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۔ یقیناًتم بہت بری اور بھاری چیز(گھڑ کر ) لائے ہو ۔ قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ کہ وہ رحمٰن کی اولاد ثابت کرنے بیٹھے ۔ شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ‘‘ ، (مریم : ۸۸ تا ۹۲ ) ۔
مشرکین کے متعلق اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ ان سے دریافت کیجئے ! کہ کیا تمہارے رب کے لئے تو بیٹیاں ہوں اور ان کے لئے بیٹے ؟ کیا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ۔ آگاہ رہو ! کہ یہ لوگ صرف اپنی افترا پردازی سے کہہ رہے ہیں ۔ کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد ہے ۔ یقیناًیہ محض جھوٹے ہیں ۔ کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کیسے حکم لگاتے پھرتے ہو ؟ کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ؟ یا تمہارے پا س اس کی کوئی صاف دلیل ہے ۔ تو جاؤ اگر سچے ہو تو اپنی ہی کتاب لے آؤ ‘‘ ، (الصٰفٰت : ۱۴۹ تا ۱۵۷ ) ۔یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح مسلمان بھی ذات میں شرک سے باز نہیں آئے ۔
ہندوستان میں کچھ علماء نے باطل رائے کو فروغ دیتے ہوئے ایک بالکل نیا عقیدہ متعارف کروایا جس کا اسلام کے ساتھ سرے سے ہی تعلق نہ تھا ۔ اُنہیں علم تھا ابن اﷲاور بنٰت اﷲ کا عقیدہ ، عیسائیوں ، یہودیوں اور مشرکین مکہ کی وجہ سے بد نام ہو چکا ہے کیوں نہ کسی نئے طریقے سے لوگوں کو گمراہ کیا جائے ۔ پہلے انہوں نے کم علم لوگوں کو بتایا کہ نبی پاک ﷺ بشر نہیں نور ہیں ، نبیوں میں ساری خوبیاں فرشتوں والی ہوتی ہیں اور انسان پر وحی نہیں اتر سکتی، وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آخر کار عقیدت و محبت کے نام پرسید المرسلین ﷺ کے بارے میں کہا گیا : ’’ آپ ﷺ ، نور من نور اﷲ : یعنی اﷲ کے نور میں سے نور ہیں ‘‘ ، نعوذبااﷲ ۔
یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ‘‘ ، (الکھف : ۱۱۰ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ لوگوں کے پاس ہدایت پہنچ چکنے کے بعد ایمان سے روکنے والی صرف یہی چیز رہی کہ انہوں نے کہا کیا اﷲ نے ایک انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا ؟ ، آپ (ﷺ ) کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے چلتے پھرتے اور رہتے بستے ہوتے تو ہم بھی ان کے پاس کسی آسمانی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ‘‘ ، (بنی اسرائیل : ۹۴ تا ۹۵ ) ۔ کتابُ اﷲ کی بہت زیادہ آیات سے واضع ہے کہ تمام انبیاء ؑ بشر تھے ، مثلاََ : ’’ (البقرۃ : ۱۵۱ ) ، (الانعام : ۵۰ ) ، (الاعراف : ۶۹ ) ، (یوسف : ۱۰۹ ) ، (ابراہیم : ۱۰ تا ۱۱ ) ، (النحل : ۴۳ ) ، (الحجر : ۳۲ تا ۳۳ ) اور (بنی اسرائیل : ۹۳ ) ‘‘ ۔
کافی وقت گزرنے کے بعد چپ چاپ کھڑے ابوبکر نے اپنی زبان کا تالا کھولا اور باغ باغ ہوتے ہوئے بولا :
’’ یہی تو میں کہتا تھا ! نبی پاک ﷺ کو نو ر کہنا ، آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے ، کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور فرشتوں نے اﷲ کے حکم سے بشر کو سجدہ بھی کیا تھا ۔ کیا نور ، انسانوں کے گھر پیدا ہوتے ہیں ؟ کیا نور کھاتے پیتے اور شادیاں کرواتے ہیں ؟ کیا نور کی قبر مبارک ہوتی ہے ؟‘‘
جزاک اﷲ خیر، عبدالرحمن نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی :
قرآنی دلیلوں کو پڑھنے کہ بعد کچھ لوگ کہتے ہیں : ’’ ہم فرشتوں والے نور کی نہیں بلکہ اﷲ کے نور کی بات کرتے ہیں ‘‘ ۔ اﷲ پاک پر بہتان باندھنے والو ! کیا آپ نے قرآن پاک غور سے نہیں پڑھا؟ آپ کے پاس اخبارات ، ڈائجسٹوں ، میگزینوں اور فحش سائن بورڈوں کے مطالعے کا تو وقت ہے ، کیا کتاب اﷲ میں غور و فکر نہیں کر سکتے ؟آپ ریڈیو ، ٹی وی ، وی سی آر ، ڈش ، انٹینا ، فلمیں ، ڈرامے اور شرکیہ قوالیاں دیکھ اور سُن سکتے ہو ، کیا الفرقان کی تحقیق نہیں کرسکتے ؟ کیا آپ فضول باتیں کرنے کی بجائے ترجمے کے ساتھ تلاوت نہیں سماعت فرما سکتے ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ آپ (ﷺ ) کہہ دیجئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ ایک (ہی ) ہے ۔ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ نہ اس میں سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ۔ اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ‘‘ ، (الا خلاص : ۱ تا ۴ ) ۔ اس سے واضع ہوا ، نہ الرّحمّن میں سے کوئی نکلا ہے اور نہ ہی اﷲ پاک کسی سے نکلے ہیں ۔ مثلاََ : ’’ اگر دودھ میں سے تھوڑا سا دودھ نکال لیا جائے تو بقیہ دودھ بھی نکلے ہوئے دودھ ہی جیسا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’’ دنیا کی کسی بھی چیز میں سے کچھ حصہ نکال دیں تو وہ بقیہ چیز ہی کی طرح کا ہوتا ہے ‘‘ ۔ اسی طرح اگر ہم سید المرسلین ﷺ کو ’’ نور من نور اﷲ‘‘ سمجھیں تو ، اﷲ کے نور میں سے نور ، الرحمن جیسا ہی ہو گا ۔ جبکہ یہ عقیدہ قرآن کے الٹ ہے ،رب کعبہ فرماتے ہیں : ’’لیس کمثلہ شیء: اس (اﷲ ) جیسی کوئی چیز نہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۱۱ ) ۔ اب قرآن و حدیث سے حق عیاں ہونے کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ : ’’ حضرت محمد ﷺ نور من نور اﷲہیں‘‘ ، وہ بھی یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرح ہی اﷲ پر بہتان باندھ رہا ہے ۔ ’’ بیٹا تم نور والی آیت کیوں نہیں پڑھتے ؟ ضعیف آدمی تھوڑا نرم لہجے میں بولا ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن:
’’ بابا جی ، کونسی نور والی ؟ ‘‘
بوڑھا شخص :
جس میں اﷲ پاک فرماتے ہیں : ’’ قد جا کم من اﷲ نور و کتب : یعنی اﷲ نے نور اور کتاب اتاری ‘‘ ، نور سے مراد نبی پاک ﷺ ہے ۔
عبدالرحمٰن:
بابا جی ، آیت جس طرح آپ نے پڑھی ہے اس طرح نہیں بلکہ : ’’ قد جاء کم من اﷲ نور و کتب مبین ‘‘ ، ہے ۔ جس کا مطلب ہے : ’’ تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ ‘‘
بھائیوں ! توجہ فرمانا اور بابا جی آپ بھی ’’نوراور کتاب مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان واؤ ، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ، یھدی بہ اﷲ ،کہ اس کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے ۔ اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ، یھدی بھما اﷲ ہوتے ’’ یعنی اﷲ پاک ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے ‘‘ ۔ قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہو گیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے ۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت ﷺ اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے ‘‘ ، (تفسیر احسن البیان ، المائدۃ : تفسیر آیت ۱۵) ۔
قرآن پاک میں کئی مقام پر نور سے مراد قرآن مجید ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر نور قرآن مجید کی صفت بیان ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ و انز لنا الیکم نورا مبینا : اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے ‘‘ ، (النساء : ۱۷۴ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ فامنو ا باﷲ ورسولہ و النور الذی انزلنا : سو تم اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان لاؤ ‘‘ ، (التغابن : ۸ ) ۔ تیسرے مقام پر ہے : ’’ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ : آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اس کتاب کو نور بنایا ، اس سے راہنمائی کرتے ہیں ‘‘ ، (الشوریٰ : ۵۲ ) ۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ فالذین امنوا بہ وعزروہ ونصروہ واتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون : سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان پر نازل کیا گیا ، ایسے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ ، (الاعراف : ۱۵۷ ) ۔
مسلمانو ! کیوں آپ سید المرسلین ﷺ کو اﷲ کا حصہ کہتے ہو حالانکہ قرآن میں بڑا واضح ہے کہ : ’’ اور انہوں نے اﷲ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا یقیناًانسان کھلم کھلا نا شکرا ہے ‘‘ ، (الزخرف : ۱۵ ) ۔کیا آپ اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہیں بننا چاہتے ؟ میرے عزیز دوستو ! کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ نبی ﷺ بشر نہیں نور ہیں ؟ بہت زیادہ لوگوں نے بلند آواز میں جواب دیا :
’’ نہیں ! اب ہم ساری زندگی اتنا بڑا گناہ نہیں کریں گے ۔ ‘‘
(جاری ہے )
Abdullah Amanat Muhammadi
About the Author: Abdullah Amanat Muhammadi Read More Articles by Abdullah Amanat Muhammadi: 62 Articles with 70163 views I am a Google certified digital marketing expert and CEO at AAM Consultants. I have more than three years’ experience in the field of content writing .. View More