پولیس والے بھی آخر انسان ہیں
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
کسی بھی فلاحی، جمہوری ریاست میں
عوام کی جان ومال کی حفاظت حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جہاں
تمام قانون نافظ کرنے والے ادارے عوام سے زیادہ حکومت وقت کی حفاظت پر
مامور ہوں وہاں جنتا کتنی محفوظ ہوگی اسکا ثبوت تو ہر روز کے اخبار اور
بریکنگ نیوز ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تمام محکموں کے کام کے
کوئی نہ کوئی نظام الاوقات ہیں لیکن محکمہ پولیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی
پوراسال دینے کی پابند ہے۔ ہرطرح کی عید اور خوشیوں کے تہوار کی مسرتوں سے
محروم یہ محکمہ عوام الناس میں سب سے زیادہ حدف تنقید ہے۔
ایک عام پولیس والے کی روز کی ذمہ داریوں پر نظر دوڑائیں تو ایک ناختم
ہونیوالا اور تھکادینے والا شیڈول نظر آئیگا۔ ملک کے قانونی ڈھانچے کی
پیچیدگیوں کا خمارہ پولیس والوں کوہی بھگتنا پڑرہاہے۔ آئے روز عدالتوں کی
طلبی ، وی آئی پی موومنٹ کے موقع پر پروٹوکول ، ایف آئی آر کا اندراج اور
تفتیش کا مرحلہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیاں اور ہر وقت جان ہتھیلی
پر رکھے پولیس والوں کو بونس میں عوام کی طرف سے بیہودہ گالیاں اور رشوت کے
طعنے بھی سننے پڑتے ہیں۔ تپتی دھوپ میں عوام کی خدمت میں ہمہ وقت مشغول
پولیس والوں کو باقی محکموں سے کوئی اضافی معاوضہ نہیں ملتا۔ سخت ڈیوٹی اور
راتوں کو جاگنے کے سبب پولیس والوں کے لب ولہجہ میں یقیناًتلخی آجاتی ہے۔
شہر کراچی میں پولیس کو جس بے دردی سے ٹارگٹ کیاجارہا ہے اسکی مثال دنیا
میں کہں نہیں ملتی۔ پچھلے چھ ماہ میں 4ڈی ایس پی 1ایس پی سمیت 100سے زائد
پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار ا جاچکاہے۔ کوئی پوچھے انکا جرم کیاہے؟
کیا وہ باقی محکموں سے زیادہ اجرت لیتے ہیں کہ ان کی اولاد کو یتیمی بے جرم
و خطا نصیب ہوئی ہے۔ وہ جن کے سہاگ اجڑے کیا وہ محلات میں رہتی ہیں یا انکو
انکے سہاگ کی موت کے عوض تادم موت محلات یا آسائش کی زندگی نواز دی گئی ہے؟
وہی 5لاکھ کے وعدے جو کبھی پورا نہیں ہوا کرتے وہ چیک جو کبھی کیش نہیں ہوا
کرتے۔ اپنے کام کی اجرت تو فسارے محکمے لیتے ہیں مگر زندگی کو ہروقت ہتھیلی
پر رکھ کر فرائض منصبی سرانجام دینا صرف پولیس والوں کا ہی کام ہے۔
جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں بدنام زمانہ ڈاکو ں کی مختلف گینگیں مختلف
گھناؤنی وارداتوں میں معروف ہیں۔ انکے ٹھکانے یا تو دریائی علاقے ہیں یا
پہاڑ ۔ ان کے خلاف کاروائی کے ردعمل کے طور پر کئی دفعہ راجن پور اور رحیم
یارخان کے کچ کے علاقے متعدد پولیس والوں کو یرغمال بنایا جاچکاہے۔ جدید
اسلحہ سے لیس ڈاکو قدیم اسلحہ سے مزین سادہ سے پولیس والوں کو آسانی سے
اٹھالے جاتے ہیں۔ قدیم دور کی تعمیر شدہ پولیس چوکیاں انکے دفاع کی مزاحیہ
تصویر پیش کرتی ہیں۔
یہ تلخ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ تھانہ پولیس والوں کی ایک علیحدہ
سلطنت ہوتی ہے جہاں وہ ہر سفید و سیاہ کے مالک ہوتے ہیں۔ انکی زباں سے مہذب
اور غیر مہذب گالیوں کے سوا کچھ بھی نہیں برآمد ہوتا۔ انکی اصل پہچان انکی
لمبی اور ترچھی مونچھیں ہیں جنہیں مزید خم دیتے ہوئے دوچار ایف آئی آر کاٹ
ہی لیتے ہیں۔ یہاں ایف آئی آر درج کروانے اور اسے خارج کروانے کے چارجز
مختلف ہیں۔ انکی تفتیش اور ضمنیوں کے معاملہ میں قابل ججز بھی ششدر رہ جاتے
ہیں ۔ عید اور فوری گھریلو ضرورت کو پورا کرنے کا فن صر ف اور صرف پولیس
والوں کی ایجاد ہے۔ کہیں بھی دستی چیک پوسٹ لگادیں نمبر اور بغیر نمبر موٹر
سائیکل سوار ان کا بہترین شکارہیں۔
ان تمام تر حقائق کے پس منظر میں انکی قلیل تنخواہ اور سخت ڈیوٹی ہے۔ اگر
انکی تنخواہیں دیگر ممالک کی طرح بڑھائی جائیں تو شاید بہت سی رشوتوں سے یہ
محفوظ رہ پائیں گے۔ اگر ارباب اختیار انکی تنخواہ کو ایک مناسب حد تک لے
آئیں تو بہت سے جائز سے ناجائز اور ناجائز سے جائز ہونے والے کام رک جائیں۔
پولیس مقابلہ میں زخمی ہونے والے پولیس والوں کو تامرگ مکمل تنخواہ دی جانی
چاہیے اور دوران فرائض شہید ہونے والے پولیس والوں کے اہل خانہ کا تاحیات
مکمل مالی و جانی تحفظ یقینی بنایا جائے اور انکی ڈیوٹی اور آرام کے اوقات
میں توازن قائم کیا جائے ۔ ملک میں تحفظ دینے والے حکمرانوں کے تحفظ کے لیے
علیحدہ پولیس تشکیل دی جائے جو صرف اور صرف انکے دفاع اور پروٹوکول پر
مامور ہو اور وہی حکمران تنخواہ کے علاوہ انہیں اضافی اجرت فراہم کریں۔
پولیس کی اخلاقی تربیت کا مستقل بندوبست کیاجائے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام
الناس سے بھی التجا ء ہے کہ ان کو درست معاملات سے آگاہ کریں اور غیر ضروری
اور ذاتی کدورتوں کو تھانہ تک نہ لے آئیں اور پولیس کو فریق نہ بنائیں۔
انہیں اس امر پر مجبور نہ کریں کہ وہ زبان پر قابو نہ رکھ سکیں۔ تھانہ کو
ایک تحفظ کی آماجگاہ تصور کیاجائے ناکہ جائے عبرت |
|