علی آج صبح سے بے حد پریشان تھا اور یہ پریشانی اسکے چہرے
اور باتوں سے صاف جھلک رہی تھی سکندر اسے مسلسل دیکھ رہا تھا کے آج علی
اتنا چپ اور پریشان تھا کیوں کے اس سے پہلے اس نے اسے کبی ایسا نہیں دیکھا
تھا اور اس بات نہ سکندر کو مجبور کیا کے وہ علی سے پوچھے کےآخر ماجرا کیا
ہے ؟ اور سکندر کے کے بار بار پوچھنے پر بھی علی نے کچھ نہیں بتایا ٹیب
سکندر نے بولا کے یار آخر بتاؤ کے شید ہم مل کے اس کا کوئی حل نکل سکیں اور
شاید تمہارا دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو سکے .....
علی نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا ک یار مری بہن نے خودکشی کی کوشش کی ہے
لیکن بر وقت طبی امداد کی وجہ وہ بچ گئی ہے اس بات نے مجھے بے حد پریشان کر
رکھا ہے ک آخر ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے جو اس نے اتنا بڑا قدم اٹھا یا وہ
تو ہر بات مجھ سے شئیر کرتی تھی تو اب ایسی کیا بات ہو گئی تھی جو وہ مجھ
سے بھی نہیں بول پائی اب آخر میں کیسے پتا کروں کے و نے آخر ایسا کیوں کیا
؟ اور وہ خود تو بلکل چپ سی ہو گئی ہے کسی بات کا جواب نہیں دیتی اور ماں
اور ابا جان اسکی اس حالت سے بوہت پریشان ہیں اور ڈاکٹرز یہی بولتے ہیں کے
اسے کوئی شدید ذہنی صدمہ لگا ہے سکندر نے اسے تسلی دی کے تم پریشان نہ ہو
سب ٹھیک ہو جاۓ گے لکن کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا علی کی بہن ذہنی مریضہ بن گئی
کوئی بھی انجان بندہ اپنے اس پاس دیکھتی تو چلانا شروع کر دیتی تھی اور وہ
لڑکی جو ماں باپ کی آنکھوں کا تا را تھی برباد ہو گئی اور اصل وجہ سا سب
بےخبر تھے کے آخر اسے ہوا کیا تھا آخر ایک دن علی اسکی کتابوں کو دیکھ رہا
تھا وہ کتابیں جن سے اسکی بہن کو بے حد لگاؤ تھا اسکے ہاتھ ایک ڈائری لگی
وہ ڈائری جو اسکی بہن روز لکھتی تھی. جیسے جیسے وہ ڈائری پڑھتا گیا اسکا
چہرے کا رنگ اڑتا گیا اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر آی .......
اس کے ساتھ جو ہوا اسے جاننے کے لیے کچھ دن پیچھے چلتے ہیں.
نبیحہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ میٹرک کی طالبہ تھی اپنے
والدین کی بے حد فرمابردار اور پردہ دار لڑکی تھی وہ روزانہ جب بی اسکول کے
لیے نکلتی چوراہے پر کھڑا لڑکا روزانہ اس پے فکرے کستا تھا .پہلے پھل وہ
اسے نظر انداز کر دیتی تھی اور اپنے گھر والوں کو بتانے سے بھی ڈرتی تھی ک
کہیں وہ اسکو ہی غلط نہ سمجھ لیں اور اسکا پڑھنا نہ بند کرا دیں -
لیکن جہاں قدرت نے عورت کو شرم و حیا کا پیکر بنا یا ہے تو مرد کو بے باک
بنایا ہے اور اگر عورت بے باک بنتی ہے تو صرف مرد کی وجہ سے ہے . عورت اندر
سے بڑی نازک سی چیز ہوتی ہے- اس میں پندار ذات کا بڑا دھیان ہوتا ہے وہ
لاشعوری طور پر اس امر پہ ایمان رکھتی ہے کہ کائنات کا سب سے خوبصورت اور
اعلیٰ اثاثہ اس کے پاس محفوظ ہے- وہ اسے سنیت سنیت کر رکھتی ہے- اس کی
حفاظت کے لیے وہ اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتی- عورت کی
سنبھالی ہوئی اس دولت کو آپ اس کی عصمت ،عزت نفس کہہ لیں یا چاہت پیار
وغیرہ- یہ بھی افشا ہوا کہ عورت کی سب سے قیمتی چیز اس کا چاہے جانے کا
احساس یا خواہش ہے---
اسی طرح یہ سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا اور نبیحہ بھی آہستہ آہستہ اسکی
طرف مائل ہونا شروع ہو گئی اور پھر شروع ہوا خط و خطوط کا سلسلہ اور اپنی
چرب زبانی کا استعمال کرتے ہووے اس لڑکے نے نبیحہ کو اپنے جال میں پھنسا
لیے اور پھر وہ دونوں اکیلے کبھی پارک میں کسی ریستورنٹ میں ملنے لگے اور
جب بھی ملنے سے انکر کرتی ٹوہ وہ بولتا ک کل کو بھی تو ہما ری شادی ہونی ہ
تو ملنے میں حرج کیا ہے میں بہت جلدی اپنے گھر والوں کو تمھرے گھر بھیجوں
گے اسی طرح چار سے پانچ ماہ گزر گے اور ٹیب وہ لڑکا اس سیا کلی میں اپنے
کسی دوست کے گھر ملنے پے اصرار کرنے لگا اور نبیحہ نے انکار دیا اس نے کافی
دفع کہا لیکن نبیحہ نے ہر دفع انکار کر دیا اور جب اس نے دیکھا کے یہ تو
کسی صورت نہیں ماں رہی تو اس نے اسے بلیک میل کرنا شورو کر دیا کے وو سری
تصویریں اور خط جو اس کے اس لڑکے کے پاس تھے سب اس کے گھر والوں کو دکھا دے
گے اور اسکی تصویریں محلے کے سب لڑکوں کو دے کر اسے بدنام کر دے گے اور
نبیحہ نے اس سب سے بچنے کے لیے اس لڑکے سے اپنی جان چڑ وانے کے لیے اور
اپنے گھر والوں کی عزت بچانے کے لیے اپنی جان لینے کی کوشش کی.....
یہ تو صرف ایک لڑکی کی کہانی ہے لکن نہ جانے دن بھر کتنی لڑکیاں ان جیسے
درندوں کا شکار ہوتی ہوں گی اور بیچاری یا تو زبان بند رکھنے پر یا پاگل
ہونے پا مجبور ہوتی ہوں گی..
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کے پردہ صرف عورتوں کے لیے ہی ہے صرف انکو
ہی سر ڈھانپ کے گھر سے نکلنا چاہئیے لیکن اگر دیکھا جاۓ تو عورت کو پردے کے
حکم سے پہلے مرد کو بولا گیا ہے وو اپنی نظریں جھکا کے چلے قرآن پاک میں
سورت نور میں ارشاد ہے :
"مومن مردوں سے کہہ دو کے اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گا ہو ں
کی حفاظت کیا کریں .یہ ان کے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو یہ کام کرتے ہیں
خدا اس سے با خبر ہے "
ہم جب بھی بولتے ہیں تو عورت کو فتنہ بول دیتے ہیں لیکن اگر عورت فتنہ ہ تو
اسے ایسے کرنے پر اکسانے والے بھی یہی مرد ہیں .اگر دیکھا جے تو الله نے
مرد کو فطری طور پے بے باک بنا یا ہے اسی لیے اگر اسے بے باک بنا یا ہے تو
دوسری طرف اسے نظریں جھکا کے چلنے کا حکم دیا ہے لکن آج کے دور میں سب الٹ
ہو گیا ہے وہ مسلمان جن کے وقر اور عظمت کی دینا گواہ تھی آج خود ہی اپنی
تباہی کا سبب بن رہے ہیں حدیث شریف میں ہیں کے الله نے ہر ابن آدم کے حصّے
میں زنا لکھ دیا ہے صحا بہ نے پوچھا کے الله کے رسول وہ کیسے تو انہوں نے
جواب دیا کے اگر کوئی بندہ کسی غلط چیز کو دیکھتا ہے اور یہ جاننے کے
باوجود ک وہ چیز پر فتن ہے اور اسے دیکھنے سے منا فرمایا گیا یا روکا گیا ہ
اس کے باوجود دیکھتا ہے تو وو نظر کا زنا کرتا ہے اسی تہ لمس ک زنا بھی
ہوتا ہے اسی لیا الله کے نبی نے صحا بہ کو راستے میں نظریں جھکا کو چلنے کے
حکم دیا ہے اور انکو گزرگاہوں پر کھڑا ہونے سے منع فرمایا ... لیکن آج تو
ہر چوراہے پر ہر اس راستے پر جہاں سے ہماری مائیں بہن گزرتی ہیں کالج کے
باہر اسکول کے با ہر لڑکوں کا جمگٹا ہوتا ہے ... جن کی نظروں میں نہ تو شرم
و حیا ہوتی اور نہ ہی عورت ذات کا احترم .....
کیسی تربیت کر رہے ہیں ہم اپنی اولاد کی؟ کہ وہ اسلام سے اسلامی تعلیمات سے
کوسوں دور ہے .ہماری اولادیں غلط راستے پر چل رہی ہیں بے حیائی کے راستے پر
لیکن ہم بجائے انکو روکنے کے انکو شہ دیتے ہیں کے شاباش بچہ لگے
رہو......اور اسی غلط تعلیم کی وجہ سے ہم اپنا اصل اپنا وقار بھولتے جا رہے
ہیں.
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے آسمان سے زمین پر ہم کو دے مارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کے تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ
خدارا اپنی اولادوں کو سہی راستہ دکھاؤ تاکہ ہم لوگ بحثیت قوم اپنا ووہی
وقار حاصل کرسکیں جو ہماری میراث تھا .
عائشہ صدیقہ بنت گلزار"We have despoiled the inheritance that we from our
fathers won." |