قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے

تاریخ انسانیت پر ایک طائرانہ سی نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں اہل علم اور اہل ادب لوگوں نے نسل انسانی کے دلوں پر راج کیا ہے۔ انہوں نے قلم کے ذریعے پوری دنیا میں امن و آتشی کا پیغام پھیلایا ہے اور وقت کے جابر اور سفاک حکمرانوں کے خلاف بازور قلم جہاد کیاہے۔بعض کم فہم اور شدت پسند لوگوں کی رائے یہ ہے کہ تلوار قلم سے زیادہ طاقت ور ہے اور دنیا میں مذہب کی ترویج با زور تلوار ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ تلوار سے آپ کسی کی بے بسی اور مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بظاہر اپنے مذہب کی طرف راغب کرسکتے ہیں مگر دلی طور پر وہ کبھی بھی ایسی اپنے اوپر مسلط کی گئی سوچ کو قبول نہیں کریگا ۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیاکہ تلوار کی دھار تیز ہے یا قلم کی نوک۔ ارے قلم کو امن کی علامت اور تلوار دہشت کی نمائندگی کرتی ہے۔ میں اب آپکے سامنے وہ دلیل پیش کررہا ہوں جسکو کوئی ذی شعور انسان جھٹلانے کا تصور بھی بہتر کرسکتاہے ۔

اگر قلم سے زیادہ تلوار میں طاقت ہوتی تو رب کائنات سروردو عالم کو سب سے پہلے قلم کی بجائے شمشیر اٹھانے کا درس دیتے ۔ اس کائنات کا سب سے عظیم درس کچھ یوں ہے۔
"پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے علم سکھایا۔ قلم کے ذریعے" ۔

اس امر پر غور فرمائیے کہ اگر تلوار میں طاقت ہوتی تو اصحاب صفہ درس قرآن و حدیث کی بجائے شمشیر زنی کی تربیت لیتے۔

اب میں آپکو قلم اور تلوار کے حقیقی مفہوم سے آگہائی دیتا ہوں ۔ قلم ایک ادیب اور دانشوروں کا ہتھیار ہے اور تلوار سپاہ سالاروں کا زور بازو ہے۔ دنیا میں امن کی علامت قلم ہے اور تلوار کی کوکھ سے نفرت دہشت اور بغاوت نے جنم لیاہے۔ تلوار جسم پر وار کرتی ہے جبکہ قلم کی حکمرانی انسان کے دل سے شروع ہوکر اس کے شعوراور لاشعور، تخیل اور تخلیق جیسی صلاحیتوں پر گہرے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ تلواروں سے بوئی گئی فصل سے کبھی پھول نہیں کھلتے۔

آئیے میں آپکو لے چلتاہوں ادب کے ایوانوں میں اور دیکھتے ہیں اقبال جیسا مرد قلندر قلم کی عظمت اور تلوار کی زیرگی کو کس طرح بیان کرتاہے۔ اقبال کے نزدیک قلم جب لوح و قلم بن جاتاہے تو پھر تقدیر کے فیصلے اوپر نہیں نیچے ہوا کرتے ہیں اور تلوار کی نفی اقبال نے ان الفاظوں میں کی۔
؂ اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
اور ایک او ر موقع پر کچھ یوں کہا
؂ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتاہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی

عصر حاضر میں تو تلوار کا تصور بھی ختم ہوچکا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے دور میں تلواریں صرف عجائب گھر کی رونق بن کر رہ گئی ہیں۔ خدا نہ کرے اگر تیسری جنگ عظیم ہوتی تو یہ صرف بٹن کی جنگ ہوگی۔ زنگ آلود تلواروں سے تو اب قربانی کے بکرے بھی ذبح نہیں ہوتے ۔ مان لیتے ہیں ایک دور میں تلوار کی طاقت کا اعتراف پوری دنیا کیا کرتی تھی ۔ لیکن یہ ایک قصہ پارینہ ہے۔ قلم کی طاقت ہر دور میں یکساں اور موثر رہی ہے۔ قلم کی سیاہی نے دلوں پہ جو انمٹ نشان چھوڑے ہیں وہ آج بھی زندہ جاوید ہیں۔ ہمارے اسلاف کے قلب و جگر سے آگاہی کا واحد ذریعہ وہ تحریر یں اور تقریریں ہیں جو ہم تک قلم کی بدولت پہنچی ہے۔ ہمارا تاریخی ورثہ اور اعلیٰ اخلاقی روحانی اقدار کی نسل درنسل منتقلی صرف اور صرف قلم کی مرھون منت ہے۔

آج بھی دنیا کا گلوبل ویلج سے گلوبل سٹی کا سفر قلم کے زور پر ہورہاہے۔ دنیا کے عظیم ترین معائدے تلوار کی دھار سے نہیں تحریر کیے گئے بلکہ قلم کی سیاہی سے۔

آج اس دور جدید میں جہالت کی باتیں کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ پرامن اور معزز قوموں کی درباروں میں تلوار سے زیادہ قلم کی فرمانروائی نظر آتی ہے اور قلم کی طاقت ہی ان کا طرہ امتیاز ہے۔

آخر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم نے ایک پرامن قوم کے طور پر دنیا کو کوئی پیغام دینا ہے تو وہ صر ف اور صرف گفت و شنید اور تحریری معاہدوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جنگ یا دہشت گردی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ ام المسائل ہے۔ ہمارا ایمان کامل صرف دین اسلام پر ہے اور دین اسلام کے داعی برحق آپ کے اور میرے آقا کی پسندیدہ دعا "رب ذدنی علماء" تھی ۔علم بصارت سے بصیرت کی طرف ایک وسیلہ ہے ۔ ضعیف قومیں ہی تلواروں کا سہارا لیا کرتی ہیں۔ امن کی آشا اور علم کی سربلندی تلواروں سے نہیں قلم کی لازوال نعمتیں ہیں ۔

دعا ہے رب دوجہاں سے کہ ہمیں تلوار سے زیادہ قلم کی طاقت عطا ء فرمائے ۔ آمین
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114670 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More