اردو کی ترویج کیونکر ممکن ہے

 تحریر : سحرش فرحان : اٹک

اور یہ ا ہل ِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
کسی بھی قوم کی ترقی اور ترویج کے لیے اس قوم کی زبان اہم کردار ادا کرتی ہے۔اور ایک قوم کی بقا کے لیے اس کی زبان نا گزیر ہوتی ہے۔مگر بدقسمتی سے ایک طویل عرصے سے ہم لوگ اپنی زبان کو پسِ پشت ڈال کر ـانگریزی زبان کو اپنے گلے کا طوق بنائے ہوئے ہیں اور انگریزی لکھنے،بولنے اور پڑھنے کو قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔انگریزی زبان کو ہم نے اپنی ترقی کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے۔بہت ہی عجیب بات ہے کہ دوسری قومیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے معاشی،ثقافتی اور تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہیں جبکہ ہماری قوم مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اپنے نظام کو بد سے بدتر بنانے میں کوشاں نظر آرہی ہے۔

ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہو چکے ہیں مگر ہمارے ذہن ابھی تک انگریزوں کے قبضہ میں ہیں۔ہم انگریزی صرف بولتے نہیں بلکہ اس زبان کی غلامی کر رہے ہیں۔ہمارے ملک کے نظامِ تعلیم کو پیچیدہ ترین بنانے میں انگریزی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کا محاذ ہمارا کمزور ترین محاذ ہے،اور بیرونی دشمن جنگ کے لیے ہمیشہ ایسے محاذ کا انتخاب کرتا ہے جہاں اسے کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔اپنے ملک کی ترقی کے لیے چونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم ہمارے لیے ناگزیر اور وقت کی اہم ضرورت ہے،چنانچہ ملک دشمن عناصر ہماری اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام فہم بنانے کی بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنا رہا ہے۔اور ان کا سب سے کاری وار پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اردو کی بجائے انگلش میڈیم نصاب متعارف کروانا ہے۔ایک تو سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے اہم اور مشکل مضامین اوپر سے نصاب بھی انگریزی میں۔۔ایسے میں پاکستان کی آبادی جو کہ ذیادہ تر پسماندہ علاقوں پر مشتمل ہے،کیونکر ایسا مشکل نصاب پڑھ پائے گی۔۔؟؟؟

اصولاـــ ّـــ ـــ تو یہ ہوتا تو یہ ہے کہ ،نصاب خواہ سائنس کا ہو یا آرٹ کا ،اس کو بناتے وقت کچھ اصول و قوانین کو مدِنظر رکھا جاتا ہے مثلا بچوں کی نفسیات،ذہنی سطح ،زبان تہذیب و ثقافت وغیرہ کا موضوع جائزہ۔۔مگر ہمارا موجودہ نصابِ تعلیم کسی اصول اور ضابطے کا پابند نظر نہیں آتا۔ہمارے موجودہ نصاب میں اردو زبان کی تمام اصطلاحات کو ختم کر کے انگریزی زبان کی اصطلاحات کو ناقابلِ فہم انداز میں پیش کیا گیا ہے جو بچوں کے لیے پڑھنا تو دور کی بات معلم کے لیے پڑھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔

موجودہ نصابِ تعلیم ہماری قومی زبان اور ثقافت کے ساتھ ہمارا رشتہ مکمل طور پر کاٹ رہا ہے۔گذشتہ پچاس سال سے پاکستانی نصابِ تعلیم میں رائج اردو زبان کی سائنسی اصطلاحات کو ختم کردیا گیا ہے۔نتیجہ کے طور پر وطن کے معصوم بچے سائنسی مضامین کے نام سے ہی خوف کھانے لگے ہیں۔کسی بھی قوم کو کمزور اور اپاہج بنانے کے لیے اس کی تعلیم کا رشتہ اس کی زبان سے کاٹ دینا ایک ایسی گھناونی سازش ہے جو پچھلے کئی سالوں سے بیرونی دشمن ہمارے خلاف کر رہا ہے ۔اور ہمارے نصابِ تعلیم میں یہ بات واضح طور پر نظر آ رہی ہے کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔مگر ہم اب تک اس خرابی کی صورت کو رفع نہیں کر سکے اور نہ ہی ملت اور تہذیب کے خلاف ہونے والی سازش کو سمجھنے کے باوجود ختم کر سکے ہیں۔طبقاتی نظام کے باعث اردو کی تعلیم و تدریس صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ملک کا طاقت ور طبقہ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے غیر ملکی آقاؤں کی زبان اور افکار پر مبنی نصابِ تعلیم رائج کر کے حکمرانہ ذہنیت پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔

ہمارا ہمسایہ ملک بھارت جس نے ہمارے ساتھ ہی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا ،آج زندگی کے بہت سے میدانوں میں ہم سے آگے نکل گیا ہے۔خاص طور پر تعلیمی میدان میں بھارت ہمیں بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہزاروں اردو میڈیم اسکول کھل چکے ہیں جہاں تمام مضامین کی تعلیم اردو اور ہندی میں دی جاتی ہے۔بھارت انگریزی کو چھوڑ کر ہندی،اردو اور دوسری مقامی زبانوں کی طرف آ رہا ہے اور ان زبانوں میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ٹیکبالوجی میں ترقی کرنے کے لیے مختلف سوفٹ وئیرز تیار کر رہا ہے۔بھارت کے سائنسی نظامِ تعلیم میں موجود تمام نصابی کتابوں میں انگریزی کی جگہ اردو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔بہت افسوس کی بات ہے کہ اردو زبان تو ہماری ہے مگر اس پر قابض بھارت ہو رہا ہے جو کہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

ہم اپنی اصل آہستہ آہستہ کھوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اردو کو باقی دنیا کی طرح ہماری اپنی قوم ہی قومی زبان کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکا ر ہے۔پاکستان کی تخلیق سے لے کر آج تک اردو زبان ترقی پانے کی بجائے روبہ زوال ہے۔جس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری اپنی ہی قوم اردو کو وہ عزت و وقار دینے کو تیار نہیں ہے جس کی بحیثیتِ قومی زبان یہ حقدار ہے۔مغربی زبان کی تقلید اور نقالی میں ہماری اپنی پہچان اور تشخص کس حد تک مسخ ہو چکا ہے ،اس کا احساس سوائے چند ایک کے شاید ہی کسی کو ہو۔
ملک میں اردو کے نفاذ اور انگریزی کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے اس ملک میں اردو پڑھنی،لکھنی اور بولنی ہوگی۔اگر کوئی اردو کی ترویج اور فروغ کے لیے کام نہیں کر سکتا تو اسے کم از کم اس کی اصلی حالت میں تو اسے برقرار رکھنا چاہیے۔آج کل حال یہ ہے کہ اکثریت اردو کا ایک جملہ بھی انگریزی کا پیوند لگائے بغیر ادا نہیں کر سکتی۔
آخر اس سب کا انجام کیا ہوگا ۔۔۔۔؟؟؟

اپنی قومی تشخص کی علامت ایک زبان کو رد کر کے کوئی قوم کب تک بین الاقوامی طور پر اپنا وقار قائم رکھ سکتی ہے ۔۔سوچنے کی بات ہے ۔۔
سوچیئے ۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے ۔۔۔
عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تیری
بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.