آزاد کشمیر کے مختلف طبقات

جیسے آزاد کشمیر کی سر زمین پہاڑوں، دریاؤں، میدانوں، جنگلوں، بیابانوں، کھائیوں، وادیوں کا مرکب ہے۔ اسی طرح یہاں کے لوگوں کے طرز زندگی بھی مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ جس طرح قدرتی وسائل خاطر خواہ فائدہ ابھی تک اٹھایا نہیں جا سکا ہے اسی طرح لوگوں کی سوچیں بھی stillہیں۔ اگر توایک طرف قدرتی وسائل سے فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو پہلے انسانی وسائل کے ذہنوں کی پالشنگ کی بھی ضرورت ہے کہ فنا ہو جانے والی زندگی گزارنے کے لئے کیا کچھ کیا جا رہا ہے اور کونسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہاں مختلف سوچوں کے حامل لوگ رہتے ہیں مثلاً پہلاطبقہ حکمرانوں پر مشتمل ہے، آزادی کے بعد سے نسل در نسل یہ لوگ عوام کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں۔مسلہ کشمیر کے لئے ان کی خدمات اخباروں میں بیانات، خاص دنوں میں نعرے بازی،اپنے لوگوں کے لئے ملازمتیں فراہم کرنے، مراعات کے استعمال، وزیروں مشیروں کی تنخواہوں میں تبدیلیوں، اور سوائے ہزاروں بیرو نی دوروں کے اور کچھ خاص نہیں ہیں۔ان حکمرانوں پر چونکہ ساری آبادی کی ذمہ داری ہے، لہذا جلد از جلد مسلہ کشمیر حل کرائیں تاکہ باقی ماندہ مسائل کی طرف بھی نظر ڈالی جا سکے۔

دوسرا طبقہ سرکاری ملازمین کا ہے، ان جیسا ذہنی دباؤ کا شکار شاید ہی کوئی اور ہو گا۔بیشک یہ لوگ قابل اور محنتی ہوتے ہیں مگر ذہنی طور پر غلامی کی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کو ہر وقت دوسرے علاقے میں ٹرانسفر ہونے کا ڈر ہوتا ہے جو کہ یہاں کا متن ہے کہ اگر تو اوپر بیٹھے بندے اپنے ہیں تو کوئی مسلہ نہیں، مگر مخالف پارٹی ہونے کی صورت میں خطرے کی تلوار ہر وقت سر پر۔ اسی ٹینشن کی وجہ سے یہ لوگ مستقل شرک، منافقت،جھوٹ،حسد جیسے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ترس صرف ان بیچاری خواتین پر آتا ہے جوملازمت جاری رکھنے کے لئے ہر روز اٹھارویں صدی کی گاڑیوں میں سفر کی مشکلات برداشت کرتی ہیں اور ان گاڑیوں میں بیٹھے چند شیطان صفت لوگوں کی گندی نظریں بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اس بات پر توکل رکھیں کہ امیری غریبی صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے، جس کی قسمت میں جتنا رزق لکھا ہے، اور جس ذریعے سے لکھا ہے وہ کوئی چھین نہیں سکتا۔ نہ کسی کا حق ماریں اور نہ ہی اپنا حق بھولیں۔ صرف سچ بولیں اور رزق دینے والے رازق کو ہی خدا سمجھیں۔ خواتین کو سفری مشکلات سے بچانے کے لئے پور ے ملک میں نئی گاڑیاں فراہم کی جائیں۔

تیسرا طبقہ پرائیویٹ ادارے چلانے والا ہے، انڈسٹریز وغیرہ تو بجلی و پانی نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات میں ہیں۔ لیکن کامیاب کاروبار صرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے چلانے والوں کا جا رہا ہے۔ گورنمنٹ اسکول کالج بیچارے سیاسی فیصلوں کی نظر ہیں لہذا پرائیویٹ ادارے اس سے جائز و ناجائز فوائد حاصل کر رہے ہیں۔والدین اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے پیٹ کاٹ کر اخراجات پورے کر رہے ہیں، اور ان اداروں کے مالکان بھی اپنی محرومیوں کا بدلہ نقلی افسر بن کر بچوں کو ہر طرح سے قابو کر کے اپنے ملازمین اساتذہ سے کامیاب کرا رہے ہیں۔ مقصد صرف بچوں کا امتحان میں پاس ہونا اور زیادہ سے زیادہ کاروبار کو کامیاب بنانا ہے۔ بچوں کو کھیلوں،اخلاقی و مذہبی اور تعمیری سرگرمیوں سے کوئی واقفیت نہیں۔ بہرحال ترقی یافتہ ممالک کے نظام تعلیم کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔

چوتھا طبقہ پڑھے لکھے بیروز گاروں کا ہے۔ پروفیشنل تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان لوگوں کو دن میں بھی تارے نظر آجاتے ہیں جنکی کوئی تگڑی سفارش نہیں ہوتی یا قسمت کی دیوی بھی مہربان نہیں ہوتی۔ خواتین بیچاری تو اپنی حاصل کی گئی تعلیم کی لاج رکھنے کے لئے پرایؤیٹ اداروں میں کم تنخواہ پر زیادہ محنت کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں مگر مسائل مردوں کو درپیش ہیں جنہیں گھر کا خرچ چلانے کی ملازمت درکار ہوتی ہے۔ جب اپنی کشمیری حکومت سے مایوس ہو کے پاکستان ملازمت کے حصول کے لئے انٹریو دیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ ڈر خوف کے ماحول میں پڑھنے کی وجہ سے سوالوں کا کوئی جواب نہیں آتا، الٹا وہ پوچھتے ہیں کہ کس جگہ سے اپنی ڈگری فوٹو کاپی کرائی؟آخری آپشن باہر کے ملک جا کر روزی کمانا رہ جاتا ہے۔معلوم نہیں اساتذہ کی نالائقی ہے یا اعتماد میں کمی کہ بی۔اے، ایم۔اے یا اس زیادہ تعلیم یافتہ لوگ بھی سیکورٹی گارڈز اور لیبر ویزوں پر مسلسل باہر کے ممالک جا رہے ہیں۔ روپیہ پیسہ تو حاصل ہو جاتا ہے مگر خاندانی نظام ضرور ڈسٹرب ہو جاتا ہے۔ بیوی بچے ویسی سکون اور خوشیوں والی زندگی نہیں گزار سکتے جیسا کہ ایک خاندانی نظام کا طریقہ کار ہوتاہے۔ اگرغیر ممالک کشمیریوں کو بلاتفریق ملازمت فراہم کر سکتے تو یہاں بھی انکو انویسٹمنٹ کرنے دی جائے تا ملک میں بیروز گاری کا خاتمہ ہو اور خاندانی نظام کا تحفظ ہو۔

ضرورت اس امر کی ہے مسائل زدگان کے دکھوں کا مداوہ کیا جائے۔ جس طرح دوسرے ممالک ہمارے لوگوں کو بلا تفریق روزگا ر فراہم کر سکتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں بھی بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے سہولتیں ہونی چاہیں۔
Asma
About the Author: Asma Read More Articles by Asma: 26 Articles with 26031 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.