یہاں ہر چیز لٹ جاتی ہے

خالہ جان ا وراُن کے میاں گزشتہ بیس سال سے بیرون ملک مقیم تھے۔ بھوک مٹانے اور پیسے کمانے کا جنون انسان کو اپنوں سے اور اپنے وطن سے جد اکر دیتا ہے۔ پردیس میں دونوں نے بہت محنت سے بہت کچھ کمایا۔ اب بچے جوان ہو گئے۔ پڑھ لکھ کر برسرِ روزگار بھی ہو گئے۔ معاشی تنگدستی جو وطن میں اُنہیں محسوس ہوتی تھی اس دیار غیر میں اس کا شائبہ بھی گزشتہ بیس برسوں میں انہیں نظر نہیں آیا۔ ریٹائرمنٹ میں اب کچھ سال ہی باقی تھے۔ اب دونوں کو وطن کی یاد ستانے لگی۔ وہ محلے اور وہ گلیاں یادوں کے جھروکوں سے نکل کر اُن سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگیں۔وہ عزیز اور وہ دوست جنہیں وہ بیس سال پہلے معاشی مجبوریوں کے سبب چھوڑ آئے تھے نہ چاہتے ہوئے بھی اُنہیں یاد آنے لگے۔ بچے جوان ہو چکے اب اُن کے اپنے بیوی بچے ہیں۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہ تھی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ پاکستان میں عزیزوں، رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کے درمیان گزارا جائے اور چھ ماہ بچوں کے ساتھاس نئے دیار میں، جہاں انہوں نے جوانی کے بہترین بیس سال گزارے۔ میاں بیوی نے پیسے تو معقول اکٹھے کر لئے تھے۔ بہت سوچ بچار کے بعد رہنے کے لیے جگہ کا انتظام کرنے اور حالات کا جائزہ لینے وہ دہ ماہ کی چھٹی لے کر پاکستان آگئے۔

آبائی گھر اب انہیں بہت چھوٹا چھوٹا لگا۔ چھوٹے بہن بھائی بہت تپاک سے ملے۔ مگر گھر میں ہر کمرہ کسی نہ کسی کے قبضے میں تھا۔ پاکستان میں رہنے والے بہن بھائیوں کے بچوں نے گو انہیں رہنے کو جگہ دے دی، مگر یہ عارضی انتظام تھا۔ مستقل یہاں اس گھر میں نہیں رہا جا سکتا تھا۔ انہوں نے بہت سوچ کر گھر کے نزدیک ایک کنال جگہ خریدی اور اس پر مکان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ایک عزیز نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی زمین بیچ رہا ہے۔ مین روڈ کے پلاٹ کمرشل ہیں اور بہت قیمتی ہیں۔ وہ ایک پلاٹ خرید لیں۔ کسی وقت وہاں دکانیں بنا لیں۔ ساری عمر کرایہ ملے گا اور بڑھاپے میں پیسے کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مشورہ مفید جان کر انہوں نے لبِ سڑک وہ دو کنال زمین بھی خرید لی۔ دونوں زمینوں کا اپنے نام انتقال کروانے کے بعد وہ مطمئن ہو گئے۔ پہلے انہوں نے دو کنال زمین کی چار دیواری تعمیر کی پھرآبائی گھر کے قریب والی ایک کنال زمین پرمکان کا نقشہ بنوایا۔ تعمیر شروع کی اور بھائی کو تعمیر کی ذمہ داریی ، ضروری ہدایات اور ضرورت کے پیسے دے کر واپس چلے گئے کہ چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔ اگلے چھ ماہ میں وہ مکان تیار تھا۔ تعمیر کے دوران وہ دو تین دفعہ فقط چند روز کے لیے صورتحال کا جائزہ لینے آتے رہے۔ گھر مکمل ہوا تو بہت خوش ہوئے۔ ان کا اپنا ایک کمرہ، ہر بچے کے لیے ایک کمرہ کہ اُن میں سے جب کبھی بھی کوئی پاکستان آنا چاہے تو رہنے کو جگہ ہو۔ اب وہ ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ جس کے بعد وہ ہر سال چھ ماہ اس گھر میں رہ سکیں گے۔

مکمل گھر کو خالہ اور خالو نے آکر پوری طرح دیکھا۔ ایک ہفتہ اس میں قیام کیا۔ چند کمروں میں ائرکنڈیشنر بھی لگوائے۔ باورچی خانے میں شاندار چولہا لگوایا۔ ایک فریج بھی خریدا اور گھر کو رہنے کے لیے پوری طرح تیار کر کے واپس چلے گئے۔ جاتے ہوئے گھر کی چابیاں چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کو ،جو اُنہیں عزیز تر تھا، دے دیں ، اُسے گھر کا خیال رکھنے کا کہا اور مطمئن ہو کر واپس اپنے کام کاج پر پہنچ گئے۔ وہ خوش تھے کہ چند سال بعد جب وہ مستقل اپنے وطن آئیں گے تو اُن کا اپنا ایک گھر ہوگا۔

ابھی انہیں واپس گئے چند ماہ ہوئے تھے تو بھائی سے بات کرتے ہوئے انہیں پتہ چلا کہ ان کے گھر کے ایک کمرے میں ایک بھتیجے نے مستقل رہائش اختیار کر لی ہے۔ وہ اس لئے کہ آبائی گھر میں بچوں کا بہت شور تھا اور اُسے پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی۔ پھر بجلی کے بل کے نام پر بھائی نے معقول رقم مانگنا شروع کر دی۔ پتہ چلا کہ سارا خاندان اُن کے نئے گھر میں منتقل ہو چکا ہے اور ان کے ائرکنڈیشنر اور فریج وغیرہ کا بے دریغ استعمال جاری ہے اور بل بھی انہی سے مانگا جا رہا ہے۔ ایک دن پیسوں کی بے جا فرمائش پر انہوں نے چھوٹے بھائی کو ڈانٹا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر تم نے پورے مکان میں رہائش کیوں اختیارکر لی ہے؟ تو چھوٹا بھائی ناراض ہو کر فون بند کر گیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوا۔ انہوں نے کچھ عزیزوں سے بات کی مگر بھائی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ بلکہ الٹا کہہ رہا تھا کہ انہوں نے میری بے عزتی کی ہے میں اس کا بدلہ لوں گا۔ پھر پتہ چلا کہ بھائی مکان خالی کر کے کہیں اور چلا گیا ہے اور مکان کرایہ پر دے گیا ہے۔ پریشانی میں وہ جلدی جلدی پاکستان آئے تو گھر کے مکینوں نے بتایا کہ یہ مکان تو انہوں نے خرید لیا ہے۔ مکان کی رجسٹری، مکان کا نقشہ اور ہر چیز اُن کے نام تھی۔ پولیس کے پاس گئے۔ اگلے دن پولیس نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں گھر کے رہائشیوں کے پاس بھی ہیں۔ اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ عدالت چلے جائیں یا اُن لوگوں سے خود ہی مک مکا کر لیں۔ پولیس کی باتوں سے صاف نظر آتا تھا کہ وہ اُن لوگوں سے ملی ہوئی ہے۔عدالت جانے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ علاقے کے ایک با اثر آدمی سے بات کی تو کہنے لگا کہ آپ کہاں پھنس گئے وہ تو بدمعاش لوگ ہیں۔ بہرحال بات کرتا ہوں۔ پتہ چلا کہ وہ کہتے ہیں مکان کی قیمت لگوا کر اُس کا دو تہائی دے دیں تو مکان خالی کر دیں گے وگرنہ جو کرنا ہے کر لیں مکان نہیں مل سکتا۔ علاقے کے بااثر شخص نے بالآخر آدھی قیمت پر بات طے کروادی۔ لگتا تھا یہ سب ملی بھگت تھی۔ انہوں نے آدھی قیمت دے کر مکان کا قبضہ واپس لیا۔ مکان کی حالت خاصی خراب ہو چکی تھی۔ جلدی جلدی مرمت کروائی اور بیچ کر جو بچا اسے غنیمت جانا۔

اُسی دوران انہیں خیال آیا کہ ایک مین روڈ پر کسی عزیز سے دو کنال کا ایک کمرشل پلاٹ بھی لیا تھا۔ دیکھنے وہاں پہنچے تو چند سالوں میں اُس جگہ کا حلیہ بدل چکا تھا۔ مگر اُن کا پلاٹ اور وہ چاردیواری کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ جس سے پلاٹ لیا تھا وہ بھی مل نہیں رہا تھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر اُس پلاٹ کا پتہ مل گیا۔مگر وہاں ایک شاندار پلازہ بنا ہوا تھا۔ مگر اُن کا پلاٹ۔ مدد کے لئے پٹواری کے پاس گئے۔ پٹواری کے کاغذوں میں پلاٹ تھا۔ پٹواری صاحب نے کہا کہ پلاٹ کی نشاندہی آپ نے نہیں کروا ئی تھی۔ اس لئے کسی نے جگہ بدل دی ہوگی۔ زمین موجود ہوگی مگر دیکھنا پڑے گا۔ پٹواری کی منت کی، معقول رقم دینے کا وعدہ کیا اور اُس کے ہمراہ پلاٹ ڈھونڈنے نکلے۔ علاقے کے ایک پراپرٹی ڈیلر نے بتایا کہ اس کے گھر کے پیچھے ایک چھپڑ ہے جس میں اردگرد کے سارے لوگ گندہ پانی پھینکتے ہیں۔ تقریباً وہی دو کنال جگہ ہے جو آپ کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ مگر اس کو کوئی راستہ نہیں ہے۔ پراپرٹی ڈیلر کے گھر کی چھت سے انہوں نے اپنا ملکیتی پلاٹ دیکھا اور اسے سوال کیا کہ اس پلاٹ کو کس طرح بیچا جائے؟ کافی سوچنے کے بعد پٹواری صاحب کی مداخلت پر پراپرٹی ڈیلر نے وہ پلاٹ اُسی قیمت پر اُن سے خرید لیا جس قیمت پر انہوں نے دس سال پہلے خریدا تھا۔ دونوں سودوں میں جو کچھ وہ بچا پائے، وہ سمیٹ کر واپس چلے گئے۔کبھی واپس پاکستان نہ آنے کا عزم لے کر کہ یہاں اب ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔آج انہیں ریٹائر ہوئے بھی دس سال سے زیادہ ہو گئے ہیں انہیں جب بھی پاکستان آنے کا کہا جائے تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے اور آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو۔ یہ آنسوؤں بھری مسکراہٹ اُن کو اُن کے بروٹس کی یاد دلاتی ہے جن میں حیا نام کی کوئی چیز نہیں۔ٍ

بیرون ملک رہنے والا ہر پاکستانی اپنے ملک سے پیار کرتا ہے۔ اسے جب بھی چانس ملتا ہے اس کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح پاکستان پہنچ جائے۔ مگر یہاں اس کے اپنے عزیز، اپنے رشتہ دار اور اپنے دوست اسے جس انداز میں لوٹتے ہیں وہ واپس بھاگ جاتا ہے کہ وہاں کوئی اس بے دردی سے لوٹتا تو نہیں اور اگر کوئی ان سے زیادتی کرے تو انصاف اور قانون سے بچ نہیں سکتا۔ یہاں تو انصاف اور قانون بھی بکاؤ ہیں۔ یہاں کی ہرچیز کاروباری ہے۔ وہ چیزیں جو دنیا میں کہیں بھی خریدنے کا تصور نہیں۔ یہاں وہ بھی بکتی ہیں۔ آخر انسان کیا کیا خریدے؟ جو دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہوتا وہ یہاں ہوتا ہے یہاں ہر چیز لٹتی ہے لوگوں کی دولت،لوگوں کی عزت،لوگوں کے رشتے، رشتوں کا تقدس، اپنوں سے امیدیں، بے پناہ آرزوئیں،سب کچھ لٹتا ہے ۔باہر سے بہت کچھ لے کر آنے والے سب کچھ لٹا کرخالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں ۔ وہ دوبارہ واپس آنے کا حوصلہ کہاں سے لائیں، اپنوں کے بارے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ بس کچھ آنسو بھری مسکرائٹیں ان کی نظر کر کے چپ ہو جاتے ہیں۔
تنویر صادق
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500478 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More