حد ہو گئی ! (قسط :۱۱ )

نمازِ نبوی ﷺ
عوام الناس نے باری باری سے وضو کیا ، بلال نے اتنی خوبصورت آواز میں آذان دی کہ : ’’ میں نے ساری زندگی اتنی پیاری آواز میں آذان نہیں سنی تھی ‘‘ ۔ آذان اتنی دلکش تھی کہ کئی مسافروں نے گاڑیاں پارکنگ میں کھڑی کیں اور مسجد کی طرف چل دوڑے ۔ ضعیف آدمی نے بتایا کہ مسجد کا امام چھٹی پر ہے ، لوگوں نے عبدالرحمن سے درخواست کی کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ عبدالرحمن نے ابھی سلام ہی پھیرا تھا کہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا :
’’ ہم نے کئی سہ روزہ ، عشرہ ، چلہ ، چار ماہ اور سال بھی لگایا لیکن ہم دیکا ( دیکھا ) کہ جس طرح تو نماز پڑھتا ہے اس طرح تو کوئی بھی نہیں پڑھتا ۔ ہم اتنا بڑا بڑا بزرگ کے ساتھ وقت لگایا کہ تمہارا سوچ بھی نہیں ہے لیکن وہ تو تمہارا طریقہ سے نماز نہیں پڑھتا تھا ۔ دیکو( دیکھو ) ہم خان کا بچہ ہے ہم کو یہ اچا ( اچھا ) نہیں لگتا کہ ہم اور طریقہ سے نماز پڑھیں اور تم اور طریقہ سے ۔ ہم کو بتاؤ کہ تم اس طرح کیوں نماز پڑھا ؟ تم تو ہاتھ ناف سے اوپر باندھتا ہے ، بار بار رفع الیدین کرتا ہے اور ہم نے نیچے دیکا ( دیکھا ) کہ کُچ ( کچھ ) لوگ پاؤں سے پاؤں ملائے ہوئے ہے ۔ استغفر اﷲ ، استغفراﷲ تم اکیلا ہی ایسا نہیں کر رہا تھا کُچ ( کچھ ) لوگ اور بھی کر رہا تھا ، یہ کیسا نماز پڑھتا ہے ۔ ‘‘
عبدالرحمن ، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ خان صاحب آپ کو کیسے پتا چلا کہ اور لوگوں نے بھی ہاتھ ناف سے اوپر باندھے ، رفع الیدین کیا اور پاؤں سے پاؤں ملائے ؟ ‘‘
’’ ہم پورا نماز میں دیکتا ( دیکھتا ) رہا ہے ۔ لوگ اسی طرح کر رہے تھے ، خان نے جواب دیا۔ ‘ ‘
عبدالرحمن :
’’ خان صاحب نماز خشوع و خضوع سے ادا کرنی چاہیے اور ادھر ، ادھر نہیں دیکھنا چاہیے ‘‘۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ یقیناًایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ‘‘ ، ( المومنون : ۱ تا ۲ ) ۔ ‘‘
’’ دین کا ستون ، ذریعہ تقرب الٰہی ، تحفہ آسمانی ، جسم و روح کی غذا ، بے حیائی سے روکنے والی چیز ، آنکھوں کی ٹھنڈک ، باعث نجات ، بھائی چارہ قائم کرنے والی چیز ، سکون کا سبب اور نعمتوں کی شکر گزاری کا نام نماز ہے ۔ ‘‘
’’ بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے نماز کے بھی کئی طریقے بنا لیے ۔ کسی کو اگر نبی پاک ﷺ کی نماز کا طریقہ بتائیں تو وہ لڑتا اور جھگڑتا ہے ‘‘ ۔ ’’ بیٹا ، نماز تو تین طریقوں سے جائز ہے‘‘ ، ضعیف شخص بولا۔
عبدالرحمن :
’’ بابا جی ! یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ نماز تین طریقوں سے جائز ہے ۔ احادیث سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نماز کا طریقہ صرف اور صرف ایک ہے ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ‘‘ ، ( بخاری : ۶۳۱ ) ۔ نبی پاک ﷺ نے ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھی نہ کہ مختلف طرز سے ، کیونکہ سید المرسلین ﷺ ، اﷲ تعالیٰ کے حکم سے امت کے لیے آسانی چاہتے تھے مشکل نہیں ۔ ہم احادیث سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کونسا طریقہ ہے جس طرح رسول اﷲ ﷺ نے نماز ادا کی ۔
( ۲ )
نماز میں صفیں درست کرنا ضروری ہے ۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم اپنی صفیں برابر رکھو کیونکہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے ‘‘ ، ( بخاری : ۷۲۳ ) ۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ صفیں برابر کر لو ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ‘‘ ۔ اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ : ’’ ( صف میں ) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا ‘‘ ، ( بخاری : ۷۲۵ ) ۔
( ۳ )
سید المرسلین ﷺ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھتے تھے ۔ حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ : ’’ میں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھ لیے ‘‘ ، ( صحیح ابن خزیمہ : ۴۷۹ ) ۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ : ’’ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ ، بائیں کلائی پر رکھیں ‘‘ ، ( بخاری : ۷۴۰ ) ۔
( ۴ )
’’ عبدالرحمن صاحب ، میں نماز کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ، ایک نوجوان نے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ جی ! پوچھیں ۔ ‘‘
نوجوان :
بھائی عبدالرحمن ، میں بہت پریشان ہوں ۔ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ : ’’ نماز میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری ہے اور جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو اونچی آواز سے آمین کہنا چاہیے ‘‘ ۔ لیکن ہمارا مولوی کہتا ہے کہ : ’’ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے اور آمین بالجہر کہنا شور مچانے کے مترادف ہے ‘‘ ۔ اور وہ سورۃ الفاتحہ نہ پڑھنے کے متعلق دلیل بھی دیتا ہے کہ : ’’ واذا قرئ القران فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘ ، ( الاعراف : ۲۰۴ ) ۔
عبدالرحمن ، سنجیدہ انداز میں :
میرے بھائی ! جو آپ کے مولوی نے حوالہ دیا ہے : ’’ یہ ان کافروں کو کہا جا رہا ہے جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے‘‘ ۔ اور اپنے ساتھیوں کو کہتے تھے کہ : ’’ لا تسمعوا لھذا القران و الغوا فیہ : یہ قرآن مت سنو اور شور کرو ‘‘ ، ( حمٰ السجدۃ : ۲۶ ) ۔ ان سے کہا گیا کہ اس کی بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو گے تو تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ ‘‘ ، ( تفسیر احسن البیان ) ۔
دوسری بات ، کثیر التعداد احادیث سے واضح ہے کہ : ’’ سورۃ الفاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘‘ ۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ اس شخص کی نماز نہیں ، جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ‘‘ ، ( بخاری : ۷۵۶ ) ۔ سیدنا عبادہ بن صامتؓ نے فرمایا : ’’ نماز فجر میں ہم رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے تھے ، آپ ﷺ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ ﷺ پر دشوار ہو گئی ‘‘ ، جب آپ ﷺ ( نماز سے ) فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ؟ ‘‘ ہم نے کہا : ’’ ہاں اﷲ کے رسول ﷺ ! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں ‘‘ ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو ، کیونکہ جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ‘‘ ، ( ابو داود : ۸۲۳ ) ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے یہ تین بار ارشاد فرمایا ، لوگوں نے پوچھا کہ : ’’ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں ؟ ‘‘ ابوہریرہؓ نے جواباََ کہا : ’’ اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ الفاتحہ پڑھ لیا کرو ‘‘ ، ( مسلم : ۸۷۸) ۔
’’ بیٹا ، مجھے بتاؤ ! اگر دس آدمیوں نے کسی چوہدری یا سردار آدمی سے بات کرنی ہو تو دس بولیں گے یا ایک بولے گا ؟ ‘‘ ، ضعیف آدمی نے پوچھا ۔
عبدالرحمن :
’’ بابا جی ! ایک بولے گا ۔ ‘‘
بوڑھا شخص ، مسکراتے ہوئے :
’’ ہاں ! اب آئے ہو لائن پر ۔ اگر دس آدمیوں میں سے ایک بات کرے گا تو پوری جماعت میں سے امام ہی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا نا ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
بابا جی ! پہلی بات تو یہ ہے کہ : ’’ حدیث میں ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ‘‘ ، تو ہمیں حدیث پر عمل کرنا چاہیے ۔ دوسری بات : ’’ کسی چوہدری یا سردار شخص سے دس آدمیوں میں سے ایک بات کرے گا ، کیونکہ وہ ایک ساتھ دس لوگوں کی بات سن نہیں سکتا ۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ تو ایسا سننے والا ہے کہ جس کو اگر زمین و آسمان کی تمام تر مخلوقات ایک ساتھ پکاریں تو اس کے سننے میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( ۵ )
نماز میں جب امام غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھے تو امام اور مقتدیوں کو اونچی آواز سے آمین کہنا چاہیے۔ سیدنا وائل بن حجرؓ کہتے ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ جب ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے تھے ‘‘ ، ( ابو داود : ۹۳۲ ) ۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ یہود نے کسی چیز کی وجہ سے تم سے اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام اور آمین کی وجہ سے کیا ‘‘ ، ( مسلم : ۸۵۶ ) ۔ خلیفہ چہارم سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا کہ : ’’ جب آپ ﷺ ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے ‘‘ ، ( مسلم : ۸۵۴ ) ۔
( ۶ )
رسول اﷲ ﷺ نے تمام عمر نماز میں رفع الیدین کیا ہے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ فرماتے ہیں کہ : ’’ میں نے تمام عمر رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ آپ ﷺ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے ‘‘ ، ( بیہقی ، جلد : ۲ ، صفحہ : ۷۳ ) ، ( اثبات رفع الیدین ، صفحہ : ۱۱ ) ۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ : ’’ آپ ﷺ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح ( ہاتھ اٹھایا ) کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تب بھی اسی طرح ( رفع الیدین ) کرتے اور ربنا ولک الحمد کہتے ۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع الیدین نہیں کرتے تھے ‘‘ ، ( بخاری : ۷۳۸ ) ۔
حدیثوں کی کتابوں میں رفع الیدین کرنے کے متعلق کافی تعداد میں احادیث موجود ہیں ۔ جیسا کہ : ’’ (بخاری ، تعداد احادیث : ۵ ) ، ( مسلم ، تعداد : ۶ ) ، ( ترمذی ، تعداد : ۱ ) ، ( ابو داود ، تعداد : ۹ ) ، ( نسائی ، تعداد : ۲۰ ) ، ( ابن ماجہ ، تعداد : ۸ ) ، ( موطا امام مالک ، تعداد : ۳ ) ، ( ابن خزیمہ ، تعداد : ۱۵ ) ، ( سنن الکبری ، تعداد : ۴۶ ) ، ( مسند الحمیدی ، تعداد : ۲ ) ، ( مسند ابو عوانہ ، تعداد : ۸ ) ، ( شرح السنۃ ، تعداد : ۸ ) ، ( مصنف عبدالرزاق ، تعداد : ۸ ) ، ( سنن الدارمی ، تعداد : ۵ ) ، ( سنن دارقطنی ، تعداد : ۱۸ ) ، ( المنتقی لابن الجارود ، تعداد : ۵ ) ، ( جزء رفع الیدین ، تعداد : ۴۴ ) ، ( مصنف ابن ابی شیبہ ، تعداد : ۱۱ ) ، ( مسند امام احمد ، تعداد : ۲۳ ) ، ( صحیح بن حبان ، تعداد : ۶ ) ، ( مسند ابو داود طیالسی ، تعداد : ۲ ) ، ( مسند امام شافعی ، تعداد : ۱ ) اور ( موطا امام محمد ، تعداد : ۱ ) ۔ ’’ منافق بغلوں میں بت رکھ کر نماز پڑھتے تھے ، مورتیوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا جاتا تھا ۔ اب اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘ ضعیف آدمی نے کہا ۔
عبدالرحمن :
بابا جی ! کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ : ’’ بتوں کو گرانے کے لیے رفع الیدین کیا جاتا تھا ۔ اگر کسی حدیث میں ہے تو مجھے بھی بتاؤ ؟آپ قیامت تک نہیں دکھا سکیں گے ۔ یہ بات تو عقل کے بھی خلاف ہے کیونکہ اگر مورتیوں کو گرانا مقصود ( Destination) ہوتا تو پہلی مرتبہ رفع الیدین کرنے سے ہی بت گر جاتے ، رکوع اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ‘‘ ’’ انکل میں بھی رفع الیدین کے متعلق کچھ بتاؤں ؟ ‘‘ بلال نے پوچھا ۔
عبدالرحمن ، مسکراتے ہوئے :
’’ کیوں نہیں ! ‘‘
بلال :
انکل ! تمام مسالک مانتے ہیں کہ : ’’ رفع الیدین ، سید المرسلین ﷺ کی سنت ہے ‘‘ ۔ میں رفع الیدین کے بارے میں ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں ایک عالم کہہ رہا تھا کہ : ’’ یعنی رفع یدین کرنے اور رفع یدین نہ کرنے کی کسی ایک طبقے کے لیے رجسٹری نہیں ہے ۔ بھئی رفع یدین کرنے والے بھی جنت میں جائیں گے ، آپ جا کے دیکھ لینا ۔ امام بخاری ہوں گے کے نہیں جنت میں ، امام مسلم ہوں گے کے نہیں جنت میں، امام ابو داود ، ترمذمی ، نسائی ، ابن ماجہ سب ہوں گے کے نہیں،ارے ! نیچے آ جائیں حضور، میرے اور آپ کے اور کل دنیا کے شیخ ، شیخ عبدالقادر جیلانی ہوں گے کے نہیں جنت میں ؟ یہ سب رفع یدین کرتے تھے ۔ اور میں ان کا مرید ہوں ، میں حنفی ہوں ، میں رفع یدین نہیں کرتا ‘‘ ( یوٹیوب : Namaz Mein Rafa al Yadain Karney Ka Shaboot by Tahir ul Qadri and other Islamic scholar) ۔
( جاری ہے )
Abdullah Amanat Muhammadi
About the Author: Abdullah Amanat Muhammadi Read More Articles by Abdullah Amanat Muhammadi: 62 Articles with 70702 views I am a Google certified digital marketing expert and CEO at AAM Consultants. I have more than three years’ experience in the field of content writing .. View More