حد ہو گئی ! (قسط :۱۲ )
(Abdullah Amanat Muhammadi, Kasur)
حلالہ
خان بھائی ، غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے بولا :
’’ ہم اپنا مفتی کو گولی مار دے گا ۔ اس ۔۔۔ نے ہم کو دھوکا میں رکا ( رکھا
) ۔ اس نے ہمارا بیوی کا حلالہ کیا ، ہم صبر کیا کیونکہ شریعت کا مسئلہ تھا
۔ اب ہم صبر نہیں کرے گا ۔ وہ ، ہم کو پاگل بنائے رکا ( رکھا ) ۔ ‘‘
عبدالرحمٰن نے ’’ انا اﷲ وانا الیہ رجعون ! ‘‘ ، پڑھتے ہوئے کہا :
حلالہ کرنے یا کروانے والا لعنتی ہے ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے
فرمایا : ’’ حلالہ کرنے والے اور کرانے والے پر اﷲ نے لعنت کی ہے ‘‘ ، (
ابو داود : ۲۰۷۶ ) ۔
سیدنا عمر فاروقؓ کہتے تھے : ’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے والے اور کروانے
والے کو لایا گیا تو میں انہیں رجم کروں گا ‘‘ ، ( حلالہ کی چھری ، صفحہ :
۸۵ ) ۔
بد قسمتی سے ! اپنے آپ کو شیخ الا سلام ، مفتی اور علامہ کہلوانے والے
مدرسوں اور مسجدوں میں حلالے کرواتے ہیں ۔ زیادہ تر مولوی دوسروں کی بہو ،
بیٹیوں کا ہی حلالہ نکلواتے ہیں اپنی رشتہ داروں کا نہیں ۔
لاہور کا واقعہ ہے کہ : ’’ ایک مرید نے اپنے پیر کو چھرے سے قتل کر ڈالا ‘‘
۔ اور جب جج کے پاس گیا ، اس نے کہا کہ : ’’ میں اقرار کرتا ہوں کہ اس پیر
کو میں نے مارا ہے ‘‘ ۔ جج نے کہا کہ : ’’ کوئی نہ کوئی چکر ہے ایسے کوئی
مجرم اقرار نہیں کرتا کہ میں نے قتل کیا ہے تو جو کہہ رہا ہے تیرے پیچھے
کوئی کہانی ہے ‘‘ ۔ کہا : ’’ کہانی ہے یا نہیں ہے تم مجھے پھانسی لگاؤ ،
میں نے اسے مارا ہے میں مانتا ہوں ‘‘ ۔ کہا : ’’ جب تک نہیں بتائے گا تجھے
چھوڑوں گا نہیں ، بتا چکر کیا ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ چکر یہ ہے ، وہ میرا
پیر تھا اور میں اس کے پاؤں چومتا تھا ۔ خود بھوکا رہتا تھا ، اسے پیٹ
بھرنے کے لیے دیتا تھا ‘‘ ۔ ایک دن میں اس کے پاس بیٹھا تھا ، میری بیٹی
روتی ہوئی آ گئی اور کہنے لگی : ’’ ابا جان ! ماری گئی ، برباد ہوگئی ‘‘ ۔
کہا : ’’ کیا ہوا ! ‘‘ کہا : ’’ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے ‘‘ ۔ تو
میرا وہی پیر و مرشد تھا ، میں نے کہا : ’’ جناب پیر صاحب ! اب کیا ہو گا ؟
‘‘ کہا : ’’ اب تو حلالہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔ کہا : ’’ کس
سے کراوں ؟ ‘‘ اس نے صفتیں گھنوائیں ، میں نے کہا : ’’ اتنی ساری صفتیں تو
آپ ہی کے اندر ہیں ، پھر آپ ہی یہ کار خیر انجام دے دو ‘‘ ۔ اس نے کہا : ’’
میں حاضر ہوں ! ‘‘ کہا : ’’ میری بیٹی کا حلالہ ہوا ، اس نے دو راتیں رکھ
کر چھوڑ دی ‘‘ ۔
کچھ عرصے کے بعد میں پیر صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، پیر کی اپنی بیٹی
روتی ہوئی آ گئی ۔ پیر نے کہا : ’’ بیٹی کیا ہوا ، کیوں روتی ہو ؟ ‘‘ کہا :
’’ ابا جی ! ماری گئی ، لٹ گئی اور برباد ہو گئی ! ‘‘ کہا : ’’ کیا ہوا کیا
؟ ‘‘ کہا : ’’ ہونا کیا ہے ! خاوند نے طلاق دے دی ‘‘ ۔ کہا : ’’ کتنی دیں ؟
‘‘ کہا : ’’ تین دیں ‘‘ ۔ کہا : ’’ بیٹی رونے کی کیا بات ہے ، وہ قرآن و
حدیث پر عمل کرنے والوں کا مدرسہ ہے ۔ ان کے پاس جاؤ وہ تمہیں لکھ کر دے
دیں گے کہ تین طلاق ایک ہوا کرتی ہے ‘‘ ۔ مرید کہتا ہے کہ : ’’ میری آنکھیں
کھل گئیں ، یہ کیا ؟ ‘‘ جب میری بیٹی کو طلاق ہوئی تھی تو کہا تھا : ’’ کہ
حلالہ ہو گا اور میں کروں گا ‘‘ ۔ اب تیری کو ہوئی ہے تو : ’’ میں حلالہ
کروں گا ، مجھ سے کیوں نہیں کرواتا ۔ چھری لایا اور اپنے پیر کو کاٹ ڈالا
‘‘ ۔ اور جج کے سامنے کہا : ’’ میں نے ہی مارا ہے ۔ میرے لیے اور شریعت ہے
، اس کے لیے اور شریعت ہے ؟ ‘‘ ( ویڈیو لنک :
https://www.facebook.com/video/video.php?v=710158129073031)
ضعیف آدمی ، غصے سے بولا :
جعلی پیر اور جاہل مولوی بھی تو ہوتے ہی ہیں ، سب ایک طرح کے تو نہیں ہوتے
نا ؟ امام مسجد بھی اپنی بیویوں کا حلالہ کرواتے ہیں ۔ ایک امام مسجد نے
اپنی بیگم کا چھ ( Six ) مرتبہ حلالہ کروایا ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ تم کہو
گے دلیل دو ، میں دلیل سے ہی بات کروں گا ۔ ویڈیو دیکھنے کے لیے یوٹیوب پر
جا کر تلاش کرو : ’’ 6 Time Halala of a Masjid Imam's wife‘‘ ۔
بوڑھے شخص نے جب یہ واقعہ سنایا تو لوگ یک زبان پکار اٹھے :
’’ استغفر اﷲ، استغفر اﷲ ، استغفر اﷲاتنا ظالم شوہر ۔ ‘‘ عبدالرحمن کی
آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے ۔ اشکوں کی جھڑی اور رنجیدہ ہونے کے
با وجود عبدالرحمن بول پڑا :
’’ کتاب و سنت کو چھوڑ کر قصے ، کہانیوں پر عمل کرنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے
۔ قرآن و حدیث کو ترک کر کے قول و قیاس کو ترجیع دینا ایسا رنگ لاتا ہے ‘‘
۔
بد قسمتی سے ! مسلمانوں کو یہ بھی علم نہیں کہ : ’’ مسنون طلاق کا طریقہ
کیا ہے ‘‘ ۔ حیض سے پاک ہونے کے بعد ، حالت طہر میں جب کہ بیوی سے صحبت بھی
نہ کی ہو طلاق دینی چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ طلاق کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ یہ
طلاقیں دو مرتبہ ہیں ، پھر یا اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا
ہے ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۲۹ ) یعنی پہلی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو (
عدت کے اندر ) رجوع کا حق حاصل ہے ، تیسری دفعہ رجوع کی اجازت نہیں ۔ طلاق
کے بعد خاوند تین حیض کی عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ پاک
فرماتے ہیں : ’’ طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ،
انہیں حلال نہیں کہ اﷲ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہواسے چھپائیں ، اگر
انہیں اﷲ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ، ان کے خاوند اس مدت میں
انہیں لوٹا لینے کے پورے حق دار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو ‘‘ ، (
البقرۃ : ۲۲۸ ) ۔
پہلی یا دوسری طلاق کے بعد ، عدت گزرنے کے بعد اگر سابقہ شوہر ، بیوی باہمی
رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں
: ’’ اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو
انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے
مطابق رضا مند ہوں ‘‘ ، ( البقرۃ : ۲۳۲ ) ۔ تیسری بار اگر طلاق ہو جاتی ہے
تو آدمی ، بیوی سے نکاح نہیں کر سکتا ، ہاں !اگر عورت کا کسی اور شخص سے
نکاح ہونے کے بعد اتفاق سے طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے پھر سابقہ بیوی
سے نکاح کر سکتا ہے ۔
حلالہ کے عام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : ’’ لوگ ایک مجلس میں دی گئیں تین
طلاقوں کو تین ہی سمجھ لیتے ہیں جبکہ اگر کوئی ایک مجلس میں تین طلاقیں دے
تو وہ ایک ہی ہوتی ہے ‘‘ ۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ، حضرت ابن عباسؓ سے
مروی ہے کہ : ’’ رکانہ بن عبد یزید جن کا تعلق بنو مطلب سے تھا ، نے ایک ہی
مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ‘‘ ۔ بعد میں انہیں اس پر انتہائی
غم ہوا ۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ : ’’ تم نے کس طرح طلاق دی تھی ؟ ‘‘
انہوں نے عرض کیا کہ : ’’ میں نے اسے تین طلاقیں دے دی ہیں ‘‘ ۔ سید
المرسلین ﷺ نے پوچھا : ’’ کیا ایک ہی مجلس میں تینوں طلاقیں دے دی تھیں ؟
‘‘ عرض کیا : ’’ جی ہاں ! ‘‘ فرمایا : ’’ پھر یہ ایک ہوئی ، اگر چاہو تو تم
اس سے رجوع کر سکتے ہو ‘‘ ۔ چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا ، ( مسند احمد :
۲۳۸۷ ) ۔ ضعیف آدمی بول پڑا :
’’ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقوں کو تین ہی تصور
کیا جاتا تھا‘‘ ۔ جبکہ آپ کہتے ہیں : ’’ ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں ،
ایک ہی ہوتی ہے ؟ ‘‘
عبدالرحمن :
حضرت عمرؓ نے یہ حکم اس لیے نافذ کیا تھا کہ : ’’ کثیر التعداد لوگ غور و
فکر کیے بغیر طلاقیں دینے لگ گئے تھے جبکہ قرآن و حدیث سے واضح ہے کہ یہ
معاملہ بڑا سوچ ، سمجھ کے کرنا چاہیے ۔ تو حضرت عمرؓ نے یہ حکم نافذکیا
تاکہ لوگ اس مسئلے میں صبر و تحمل سے کام لیں ۔ ‘‘ جیسا کہ سیدنا ابن عباسؓ
فرماتے ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ ﷺ کے زمانے ، حضرت ابوبکرؓ کے عہد اور حضرت
عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں میں تین طلاق کو ایک ہی شمار کیا جاتا
تھا ‘‘ ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’ جس معاملے ( یعنی طلاق ) میں لوگوں
کو سوچ بچار سے کام لینا چاہیے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں
، لہٰذا ہم کیوں نہ اس کو نافذ کر دیں ، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر نافذ کر
دیا ‘‘ ، ( مسلم : ۳۴۹۱ ) ۔
حضرت عمرؓ نے یہ فتوی بطور سزا دیا تھا ، چنانچہ : ’’ آخری ایام میں انھیں
اس بات کا احساس بھی ہوا کہ مجھے بطور سزا بھی یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے
تھا جس پر انھوں نے اظہار ندامت بھی کیا ‘‘ ، ( ایک مجلس میں تین طلاقیں
اور اس کا شرعی حل ، صفحہ : ۴۹ ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’ حضرت عمرؓ نے جو کہا وہ نبی
کریم ﷺ کی حدیث سے اوپر نہیں ہے ‘‘ ، ( یوٹیوب : Teen talaq aur halala -
Tripple Talaq by Dr Zakir Naik Urdu) ۔ خان صاحب ایک بار پھر طیش میں آ
گئے ، کہنے لگے :
’’ اب تو ہم اپنا مفتی کو کاٹ ڈالے گا ‘‘ ۔ ہم اسے کہا کہ : ’’ ہم اپنا
بیوی کو تین طلاق ایک ساتھ دے دیا ، اب کیا حل ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : ’’ حل
نہیں ، حلالہ ہے ‘‘ ۔ ہم پوچھا : ’’ حلالہ کس چڑیا کا نام ہے ؟ ‘‘ اس نے
کہا : ’’ شریعت کا مسئلہ ہے کہ تمہارا بیوی ایک ، دو رات کسی مرد کے ساتھ
رہے گا پھر وہ اسے طلاق دے گا پھر وہ تم پر حلال ہو جائے گا ( گی ) ۔ ہا ں
! اگر چاہو تو میں خدمت ( یعنی حلالہ ) کے لیے حاضر ہوں ‘‘ ۔ ہم بیوقوف کو
کیا معلوم کہ مفتی ، مفت میں ہی کام کر گیا ۔ ہم اسے قتل کر دے گا ، ہم
نہیں چھوڑے گا ۔ عبدالرحمن ، سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے :
’’ خان بھائی ! آپ نے پوری دنیا تک حق بات پہنچانی ہے ۔ اگر آپ اسے قتل کر
دیں گے تو سمجھائیں گے کیسے ؟ ‘‘
’’ دیکو ( دیکھو ) ! ہم دماغ والا بندہ کو سمجھائے گا ، وہ تو بیوقوف ہے ‘‘
، خان نے جواب دیا ۔
عبدالرحمن :
’’ اس میں دماغ ہے لیکن وہ اسے قرآن و حدیث کے مطابق استعمال نہیں کر رہا ۔
آ پ ، اسے بتائیں کہ کتاب و سنت پر عمل کرو ورنہ دنیا و آخرت میں بے عزت ہو
جاؤ گے ۔ ‘‘
خان صاحب :
’’ ٹیک ( ٹھیک ) ہے ! ہم اسے سمجھائے گا اگر اسے سمجھ نہ آیا تو دوسرا
طریقہ سے بتائے گا ۔ ‘‘
( جاری ہے ) |
|