حد ہو گئی ! (آخری قسط )
(Abdullah Amanat Muhammadi, Kasur)
قبولِ حق
لوگ اتنے خوش تھے کہ جیسے کامیاب و کامران ہو گے ۔ اور ہم باغ باغ ( Glad )
کیوں نہ ہوں ، ہمیں شرک و تقلید سے پاک اور کتاب و سنت پر مبنی راستے کی
پہچان ہوگئی ۔ ہمارے دل شاد کیوں نہ ہوں ، ہمیں بدعات سے چھٹکارا مل گیا
اور سنتوں سے واقفیت ہو گئی ۔ ہم راضی کیسے نہ ہوں ، ہمیں نمازِ نبوی ﷺ اور
طلاق کا درست طریقہ معلوم ہو گیا ۔ عبدالرحمن نے پوچھا :
’’ میرے بھائیوں ! آپ سب باتیں سمجھ گئے ہیں نا ؟ ‘‘
’’ ہم سمجھ گئے ہیں ، تمام لوگوں نے جواب دیا مگر ضعیف آدمی خاموش رہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن نے سنجیدگی سے سوال کیا :
’’ بابا جی ! اگر آپ کوئی بات سمجھنا چاہتے ہیں تو بتائیں ؟ ‘‘
بوڑھا شخص غصے اور زور سے بولا :
’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ بڑا آیا تو قرآن
و حدیث والا ، تمہیں معلوم ہے کہ تم جنتی ہو ؟ قیامت کو فیصلہ ہو جائے گا
کہ کون سچا تھا ۔ جاؤ ! میں نہیں مانتا تم کو ۔ ‘‘
عبدالرحمن :
’’ حد ہو گئی ! ‘‘ بابا جی ! اگر آپ غلط عقیدے پر جمے رہیں گے تو صرف آپ کا
نقصان ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی آپکی آل و اولاد کا بھی خسارہ ( Loss
) ہو جائے گا ۔ کیونکہ آپ کے کنبے ( Family ) کے لوگ بھی یہی کہیں گے کہ :
’’ میں برادری اور اپنے باپ ، دادے کا عقیدہ کیوں چھوڑوں ؟ ‘‘ حالانکہ میں
پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ : ’’ مشرک کا ہر دور میں ہی یہی جواب رہا ہے کہ
ہمارے باپ دادا ایسے کرتے تھے اور ہم ان کی پیروی کریں گے ‘‘ ۔ کیا قوم و
برادری قیامت کو آپ کی مدد کر سکے گی ؟ قبول حق سے ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے
، اگر ہم باطل پر ہی قائم رہیں گے تو اﷲ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا
سکیں گے ۔
سچائی کو قبول نہ کرنا کوئی سمجھ داری نہیں ہے بلکہ حق نہ قبول کرنے والوں
کے لیے درد ناک عذاب کی وعید ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب اس سے
کہا جاتا ہے کہ اﷲ سے ڈر ، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے
۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘ ، (
البقرۃ : ۲۰۶ ) ۔ دوسرے مقام پر ہے : ’’ اور اعلان فرما دیجئے ! کہ یہ
سراسر بر حق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ۔ اب جو چاہیے ایمان لائے اور جو
چاہے کفر کرے ۔ ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں
انہیں گھیر لیں گی ۔ اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی اس پانی
سے کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا جو چہرے بھون دے گا ، بڑا ہی برا
پانی ہے اور بڑی بری آرام گاہ ( دوزخ ) ہے ‘‘ ، (الکہف : ۲۹ ) ۔ تیسرے مقام
پر ہے : ’’ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ بولے ؟ اور سچا
دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے ؟ کیا ایسے کفار کے لیے جہنم
ٹھکانا نہیں ہے ؟ ( الزمر : ۳۲ )
حق کو قبول کرنے والوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جو سچے دین
کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔ ان کے لیے ان کے
رب کے پاس ( ہر ) وہ چیز ہے جو یہ چاہیں ، نیک لوگوں کا یہی بدلہ ہے ‘‘ ، (
الزمر : ۳۳ تا ۳۴ ) ۔ الرحمن مزید فرماتے ہیں : ’’ یقیناًتمہاری کوشش مختلف
قسم کی ہے ۔ جس نے دیا ( اﷲ کی راہ میں ) اور ڈرا ( اپنے رب سے ) اور نیک
بات کی تصدیق کرتا رہا ۔ تو ہم بھی اسکو آسان راستے کی سہولت دیں گے ‘‘ ، (
اللیل : ۴ تا ۷ ) ۔
حق کو قبول کرنے والوں کو اﷲ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں کامیاب کر دیا اور
باطل پر جمے رہنے والوں کو اﷲ پاک نے دونوں جہان میں ذلیل و رسوا کر دیا ۔
مثال کے طور پر : ’’ حضرت بلالؓ ، امیہ بن خلف کے غلام تھے ۔ جب حق بات کا
علم ہوا تو کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا ۔ قبولِ اسلام کے
جرم میں کفار سیدنا بلالؓ کو گرم ریت پر لٹاتے ، رسی گلے میں ڈال کر گلیوں
میں گھسیٹے ، بھوکا رکھتے اور سخت دھوپ میں سینے پر پتھر رکھ دیتے ‘‘ ۔
لیکن حضرت بلالؓ احد احد کی صدا بلند کرتے ۔ حتی کہ سیدنا ابو بکرؓ نے
انہیں خرید کر اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا ۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے
کامیاب کیا کہ : ’’ فتح مکہ کے موقع پر بیت اﷲ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی ،
جن کے چلنے کی آواز نبی پاک ﷺ نے جنت میں سنی اور جو غلام سے سردار بن گئے
۔ ‘‘
دوسری طرف عمرو بن ہشام جو سردار تھا ۔ وہ اس قدر ذہین تھا کہ لوگ اسے
ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہتے تھے ۔ جب سید المرسلین ﷺ نے دین حق کی
دعوت دی تو اس نے مسلمانوں اور نبی پاک ﷺ کو تکلیفیں پہنچانا شروع کردیں ۔
تکبر و غرور کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ یہ
ابو جہل ہے یعنی جہالت کا باپ ہے ‘‘ ۔ ابو جہل کو جنگ بدر میں دو نو عمر
جوانوں نے جہنم واصل کر دیا ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : ’’ اور ( دوزخی ) کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے
یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں ( شریک ) نہ ہوتے ۔ پس انہوں نے اپنے جرم
کا اقبال کر لیا ۔ اب یہ دوزخی دفع ہوں ( دور ہوں ) ‘‘ ، ( الملک : ۱۰ تا
۱۱ ) ۔ ضعیف آدمی کی آنکھوں سے قطار در قطار آنسو ٹپکنے لگے اور وہ بول پڑا
:
’’ بس کرو بیٹا ، بس کرو ! میں ہار گیا اور تم جیت گئے ۔ میں نے ساری زندگی
قرآن و حدیث کی مخالفت ہی کی ہے ۔ برادری کے پیچھے لگ کر میں اندھا ہی ہو
گیا اور کتاب و سنت کی بھی پروا نہیں کی ۔ میں توحید و سنت کی دعوت سننا
پسند ہی نہیں کرتا تھا اور شرک و تقلید کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا
رکھا تھا ۔ سنت نبوی ﷺ کو چھوڑ کر بدعات کو سینے سے لگاتا رہا ۔ میں عاشق
رسول ﷺ ہونے کے دعوے تو بہت کرتا تھا لیکن نماز نبی کریم ﷺ کے طریقے کے
مطابق پڑھنا گوارہ نہ تھا ۔ اگر کوئی اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی بات کرتا تو عقلی
دلائل دے کر اسے بات ہی نہ کرنے دیتا ۔ کیا اﷲ تعالیٰ مجھ جیسے ظالم کو
معاف فرما دے گا ؟ ‘‘
عبدالرحمن خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا :
بابا جی ! اگر آپ سچی توبہ کریں تو اﷲ پاک خطاوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما
دے گا کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’مگر جو توبہ کریں اور ایمان لائیں
اور نیک کام کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اﷲ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا
ہے ، اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔ اور جو شخص توبہ کرے اور
نیک عمل کرے وہ تو (حقیقتاََ ) اﷲ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ‘‘ ، (
الفرقان : ۷۰ تا ۷۱ ) ۔ اﷲ پاک مزید فرماتے ہیں : ’’ ( میری جانب سے ) کہہ
دو کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اﷲ تم اﷲ کی
رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ ، بالیقین اﷲ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے
، واقعی وہ بڑی بخشش اور بڑی رحمت والا ہے ‘‘ ، ( الزمر : ۵۳ ) ۔
’’ میں کچھ پوچھ سکتا ہوں ، پیر بخش نے کہا ۔ ‘‘
’’ ضرور پوچھیں ، عبدالرحمن مسکراتے ہوئے ۔ ‘‘
پیربخش :
آپ نے کہاکہ: ’’ آپ کا نام عبدالنبی تھا ۔ آپ کو خبر ملی کہ مشرکین مکہ بھی
ایسے ہی نام رکھتے تھے تو آپ نے نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ لیا ‘‘ ۔ ناموں
متعلق کچھ بتا دیں کہ کیسے نام رکھنے چاہیے؟
عبدالرحمن :
نام رکھنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ : ’’ اﷲ پاک کے اسماء حسنیٰ کی طرف نسبت
کر کے ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ یا اولیاء اﷲ کے ناموں پر نام رکھے
جائیں ۔ ‘‘
بد قسمتی سے ! مسلمانوں نے بھی مشرکین مکہ کی طرح ہی نام رکھنے شروع کردیے
۔ جیسا کہ : ’’ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزہ تھا ( یعنی عزہ کا بندہ ، عزہ
ایک بت کا نام تھا ) ‘‘ ۔ مسلمانوں نے بھی شرکیہ نام رکھے ، مثلاََ : ’’
پیراں دتہ ، پیر بخش اور علی بخش وغیرہ ‘‘ ۔
’’ بیٹا ! اب میں اپنا نام کیا رکھوں ؟ بوڑھے شخص نے سوال کیا ۔ ‘‘
’’ پہلے آپ کا نام کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے پوچھا ۔ ‘‘
’’ پیراں دتہ ، ضعیف آدمی بولا ۔ ‘‘
’’ آپ اﷲ دتہ رکھ سکتے ہیں ، عبدالرحمن نے کہا ۔ ‘‘
’’ مجھے بھی کوئی نام بتا دیں ؟ پیر بخش ۔ ‘‘
’’ آپ اپنا نام اﷲ بخش رکھ لیں ، عبدالرحمن نے جواب دیا ۔ ‘‘
’’ کثیر التعداد لوگوں نے جن کے نام شرکیہ تھے ، تبدیل کر لئے ‘‘ ۔ عوام
الناس کی آنکھوں سے ضبط کی کوشش کے باوجود آنسو ٹپک رہے تھے ۔ تمام لوگوں
نے وعدہ کیا کہ وہ قرآن و حدیث پر خود بھی عمل کریں گے اور اس کا پیغام
دوسروں تک بھی پہنچائیں گے ۔
’’ آپ اپنا موبائل نمبر دے دیں تاکہ ہم رابطہ کر کے دینی سوال کر سکیں ، اﷲ
بخش نے کہا ۔ ‘‘
عبدالرحمن مسکراتے ہوئے :
’’ یہ تو بہت ضروری ہے ، جزاک اﷲ خیر‘‘ ۔ بھائیوں ! میرا موبائل نمبر لکھ
لو ، جسے لکھنا نہیں آتا وہ بعد میں اﷲ بخش سے نمبر لکھوا لینا ۔ کسی قسم
کا کوئی بھی مسئلہ ہو آپ ، مجھ سے پوچھ سکتے ہیں ۔ ’’ 0336-4236117‘‘ ،
میرا موبائل فون نمبر ہے ۔ ٹھیک ہے میرے بھائیوں ! ان شاء اﷲزندگی رہی تو
پھر ملیں گے ۔ اگر میں نے کسی کا دل دکھایا ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ السلام
علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ کہہ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے ۔ تھوڑی
ہی دیر میں لوگ منتشر ہو گئے ۔
ختم شد |
|