قرآن کریم کے آٹھویں پارہ میں
سورہ الانعام کے پندرہویں رکوع میں آیت نمبر ١٢٥ میں اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتے ہیں
ترجمہ : سو جس شخص کو اللہ راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اس کے سینے کو اسلام
کے لئے کشادہ کردیتے ہیں اور جس کو بے راہ رکھنا چاہتے ہیں اس کے سینہ کو
تنگ اور بہت تنگ کردیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کو اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اسلام کے لئے
اس کا دل کھول دیتا ہے یعنی دین اسلام اختیار کرنا اس کے لئے سہل بنا دیتا
ہے چنانچہ یہ چیز علامت ہے اس بات کی کہ اس کی قسمت میں خیر لکھی ہے۔ جیسا
کہ فرمایا اسلام کے لئے جس کا دل کھل جاتا ہے تو اللہ کے طرف سے اس کے لئے
نور متعین کر دیا جاتا ہے (حوالہ تفسیر ابن کثیر بارہ ٨ سورہ انعام کے
پندرہویں رکوع کی تفسیر میں)۔
دنیا میں انسان کو بولنا دو طرح کا ہوتا ہے یا تو سچ اور یا جھوٹ۔ اب جو
لوگ سچے ہوتے ہیں وہ تو دنیا سے بے پرواہ ہوتے ہیں اور کسی کو تکلیف دینا
پسند نہیں کرتے اور جو لوگ جھوٹے ہوتے ہیں وہ دنیا طلب ہوتے ہیں اور اپنی
نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے جھوٹ بھی بولتے ہیں آپ میں لڑواتے ہیں
اور سچے مسلمانوں کو تکلیف بھی پہنچاتےرہتے ہیں۔
ہر زمانے میں دو قسم کے لوگ ہوتے آئے ہیں اور فی الحال بھی ہیں اور قیامت
تک ہوتے رہیں گے۔ ایک سچے اور دوسرے جھوٹے۔ ان میں جھگڑے صرف بعض مسائل پر
ہوا کرتے ہیں اور یہی مصیبت آج ہمارے اکثر مسلمان بھائیوں میں پھیل گئی ہے۔
ہزاروں مسلمان اپنے آپ کو سنی کہتے ہیں مگر افسوس جہالت اور ضد کی وجہ سے
اسلام کے خلاف عمل کرتے ہیں اور جب ان بھائیوں کو سمجھایا جاتا ہے تو ان
سمجھانے والوں کو وہابی، غیر مقلد اور اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔
دو گروہوں یعنی دیو بندی اور بریلوی میں مسئلہ مسائل کا اختلاف چل رہا ہے۔
ان دونوں میں سے کون سچا ہے یہ بات عام مسلمانوں کے لیے سمجھنا خاصا مشکل
ہے۔ ہاں جب مسلک دیو بند اور مسلک بریلی کا جنم نہیں ہوا تھا اگر اس وقت کی
پرانی کتب کو دیکھا جائے تو البتہ آسانی سے انشا اللہ تعالیٰ بات سمجھ میں
آجائے گی کہ حق پر کون ہے اور غلطی پر کون ہے۔
کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو شریعت کے بالکل خلاف ہوتے ہیں لیکن لوگ اپنی کم
علمی کی وجہ سے اسے شریعت سمجھ کر عمل کرتے ہیں اسی کو ہم وسیع تناظر میں
جہالت بھی کہ سکتے ہیں۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اپنے رحم و کرم ہمیں اور ہمارے ماں باپ اور تمام
محسنوں اور مومنوں کو بخشدے آمین ثم آمین یا رب العالمین |