پردہ عورت کا زیور ہے
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
پردہ عورت کا زیور ہے اور اسکی
عفت اور پاکدامنی کی ضمانت ہے قبل از اسلام پردہ کا رواج نہیں تھا عورتیں
گھروں سے بے پردہ باہر نکلتی تھیں فحاشی اور غلط کاری کا رواج عام
تھا۔خواتین سے چھیڑ چھاڑ کرنا اوردعوت گناہ دینا عام سی بات تھی، جب اسلام
کا نور چمکا تو جن خواتین نے اسلام قبول کر لیا تھا انہیں اس سے بہت تکلیف
ہوتی تھی کہ کوئی انہیں تنگ کرے کیونکہ جب کافر اور منافق لوگ مسلمان
خواتین کو تنگ کرتے اور پکڑے جاتے تو کہتے کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہ
مسلمان خواتین ہیں، لہٰذا پردہ کے احکامات نازل ہو گئے اور حکم دیا گیا کہ
مسلم عورتیں پردہ کریں اور ایک اوڑھنی سر سے لے کرکندہوں نیچے سے لٹکا لیا
کریں تاکہ ان کی پہچان ظاہر ہو کہ یہ معزز گھرانے کی خواتین ہیں کسبی اور
بازاری نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اے نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی
عورتوں سے کہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادرون کے گھونگٹ ڈال لیا کریں۔ یہ
مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘(۵۹:۳۳)
یہ تو دور جاہلیّت یعنی قبل از اسلام کی بات ہے اب اس معاشرے میں بھی وہ
برائیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اب تو انٹر نیٹ اور مغربی تہذیب و تمدن کا
دور ہے اور فحاشی اور عریانی کا سیلاب آیا ہوا ہے، گھروں میں ٹی وی پر ہر
طرح کے چینل دکھائے جاتے ہیں ان میں سے بعض چینل ایسے بھی ہیں جن میں نو
عمر لڑکے لڑکیوں کوڈانس کرتے اور گانا گاتے دکھایا جاتا ہے جس سے چھوٹی عمر
میں ہی ان میں غلط کاری کا تصوّر قائم ہو جاتا ہے، گھریلو موضوعات پر بننے
والے ڈرامے بھی فحاشی سے خالی نہیں ہوتے کئی ڈرامے ایسے ہیں جن میں لڑکے
لڑکیوں کو گھروں سے بھاگنے اور کورٹ میرج کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور پھر
جو کچھ ٹی وی پر دکھایا جاتا ہے وہ عام زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان المراٗۃ اذا استعترت فمرّت بالمجلس فھی کذا و
کذا یعنی زانیہ۔یعنی جب کوئی عورت عطر لگا کر اور زیب و زینت کے ساتھ گھر
سے باہر نکلتی ہے اور جب وہ کسی مجلس کے پا س سے گذرتی ہے تو لوگ اسکے بارہ
میں طرح طرح کی باتین بناتے ہیں کہ یہ ایسے ہے، ایسے ہے یعنی زانیہ ہے۔
اور اصل پردہ نگاہ کا پردہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور مومن عورتوں سے
کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت
کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں
پر اوڑھنی ڈال لیاکریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے
شوہر ،باپ،خسر، بیٹے، سوتیلے بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے
غلام اور وہ خدمت گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے، وہ لڑکے جو ابھی
عورتوں کی پردو کی باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز ان کو حکم دو کہ) وہ
چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا
رکھی ہے اسکا اظہار ہو‘‘۔(۳۱:۲۴)
ان آیات کریمہ میں ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کواپنی نگاہیں
نیچی رکھنے کا حکم ہے جب نظریں نیچی ہونگی اور ان میں حیا ہوگی تو غلط کاری
کی جڑ کٹ جائے گی اسکے برعکس اگر نظریں بے باک ہونگی اور شرم و حیا سے عاری
ہونگی تو پھر زناکاری اور ناجائز تعلقات کو فروغ ہوگا۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ غلط نظریں شیطان کے تیر ہیں کہ جہاں بھی پڑ جائیں
اپنا اثر دکھاتے ہیں اگر چہرہ بظاہر نقاب سے ڈھکا ہوا ہو مگر نگاہیں صحیح
نہ ہوں تو اس نقاب کا کوئی فائدہ نہیں۔لہٰذا چہرہ پر نقاب ڈالنا اور نظریں
نیچی رکھنا دونوں ضروری ہیں۔ |
|