کیا کمپیوٹر کتاب کا متبادل ہوسکتاہے؟
(Malik Mushtaq Ahmad Kharal, Jatoi)
آج کے اس نفسانفسی کے دور میں
حیرت انگیز تبدیلیاں رونماہورہی ہیں۔ پہلے سے موجود تصورات ایجادات اور
رائج اصول اب یکسر تبدیل ہورہے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا غالب
ہورہی ہے ۔ ایک وقت تھا جب لوگ کتاب کو اپنا تنہائی کا بہترین دوست اور
ساتھی تصور کرتے تھے ۔ آج کیاعجب بحث چھڑ گئی ہے ، دوستی کے پیمانے بدلے
جارہے ہیں ۔ پرانی کہاوت کتاب بہترین ساتھی ہے سے انخرف کیا جارہا ہے۔دنیا
کہیں سے کہیں پہنچ جائے ۔ ارض و سماں کا نقشہ ہی کیوں نہ بدل جائے کمپیوٹر
کتاب سے کبھی بھی بہتر دوست نہیں ہو سکتا ۔ میں مانتا ہوں کہ کمپیوٹر کے
حامیوں کی ان باتوں سے یقینادل آزاری ہوگی لیکن جب اعلیٰ قدروں کی تذلیل ہو
تو تکلیف ہمیں بھی ہوتی ہے ۔ میں نہیں تسلیم کرسکتا کہ کوئی ذی شعور انسان
کمپیوٹر کو کتاب کا نعم البدل تصور کرسکتاہے۔
جو چیز میری دسترس میں نہ ہو وہ کیسے میری دوست ہو سکتی ہے ۔ کمپیوٹر
خریدنے کی خواہش میرے دل میں بھی ہے لیکن دوستی کے لئے نہیں ۔ ایک ضرورت کے
لئے، لیکن میں اسے خرید نہ سکا ۔جبکہ کتاب کی جب بھی میں نے خواہش خرید لی
۔ بغیر بجلی کے اسے پڑھ لیا ۔ کبھی ونڈو نہ اڑی اور نہ میر ی کتاب میں کبھی
وائرس آیا ۔ میری کتاب کا ہارڈوئیر یعنی جلد صرف ایک دفعہ کروالی اور پھر
نسل در نسل استعمال ہوتی رہتی ہے ۔ کتاب دانشوروں اور ادبیوں کی ہزاروں
سالوں کی دانائی کا نچوڑ ہوتی ہے ۔ تنہائی کی اس نعمت سے ہم اپنی عظمت رفتہ
سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں ۔کتاب ایک سستی اور ہمہ وقت دستیاب دوست ہے ۔ایک
ایسے ملک میں جہاں اٹھاراں اٹھاراں گھنٹے بجلی نہ آتی ہو ۔ جہاں مرمت کی
اجرت اصل لاگت سے زیادہ ہووہاں یقیناًکتاب کو کمپیوٹر پر فوقیت حاصل ہے۔
اب میں اپنی دلیل جدید تحقیق سے ثابت کرتاہوں۔ جدید تحقیق کے مطابق کتابوں
کے زیادہ مطالعہ سے ذہن کی روانی ہوتی ہے اور روح کی تسکین ہوتی ہے۔جبکہ
کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے بینائی متاثر ہورہی ہے ۔لیپ ٹاپ کے زیادہ
استعمال سے دل کی دھڑکن متاثر ہوتی ہے اور انسان میں چڑچڑاپن پیدا ہورہا ہے
۔
کمپیوٹر کی انٹرنیٹ کی دنیا نے فحاشی اور عریانی کو فروغ دیاہے ۔عریاں اور
قابل اعتراض ویب سائٹس نے نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کردیاہے۔ اعلیٰ
انسانی اقدار پامال ہورہی ہے معلومات کی آڑ میں مغربی تہذیب تیزی سے پنپ
رہی ہے اور ہمارے معاشرے کی رگوں میں ناسور کی طرح سرایت کررہی ہے۔
کمپیوٹر کی دنیا نے زندگی کے حقیقی رشتوں کو بے رنگ کردیاہے۔ گہرے اور دلی
جذبات کو کھوکھلا کردیاہے ۔ اس تناظر میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا ۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
خدارا کمپیوٹر کوزندگی میں شامل ضرور کیجیے لیکن اس کی غلامی میں نہ آجایئے
۔اس بھوت کو سر سے اتار دیجئے کہ کمپیوٹر کے آجانے سے کتاب کی وقت کم
ہوجائیگی۔اہل علم اور علم دوست یقیناًمیری تائید کریں گے۔میں قطعی طور پر
کمپیوٹر اور اس سے حاصل شدہ فوائد کا مخالف نہیں ہوں ۔ لیکن ہر ایک چیز کی
اپنی اہمیت اور ضرورت ہوا کرتی ہے۔ کسی ایک چیز کو دوسری چیز کا متبادل یا
مقابل قراردینا صریحاََ ایک بھیانک غلطی ہے۔ آج لوگ جدید سے جدید تر کی
تلاش میں ہیں اور انہیں جدت سے حاصل مواد کا فوبیا ہوگیاہے۔ وہ اپنی تاریخ
، اپنی تہذیب وتمدن اور اپنی روایتوں سے بہت دور جارہے ہیں۔ ماضی سے ان کے
رشتے کو جوڑنے کا واحد ذریعہ کتب ہیں اور ان کا مطالعہ ہی حقیقی علم کے
انتقال کا سبب ہے۔ آج کمپیوٹر اور انٹر نیٹ تقریباََ ہر آفس اور ہر گھر کی
ضرورت بن چکا ہے۔ اور کتابیں کباڑیوں کی دکانوں کا ڈھیر نظر آتی ہیں ۔
حقیقتاََ ہم پرانی کتابوں کو فروخت نہیں کررہے بلکہ اپنے اسلاف کی میراث
اور انتہائی بیش بہا قومی سرمایہ کو اپنے ہاتھوں دفن کررہے ہیں۔ ہمیں احساس
ہی نہیں کہ ہم آنے والی نسلوں کے ساتھ انجانے میں اور لاشعوری طور پر کتنی
بڑی دشمنی کررہے ہیں ۔ آنیوالی نسل اقبال کے فلفسہ خودی اور قائد کے اصول
اتحاد، تنطیم اور ایمان سے بالکل ناآشنا ہوگی ۔ اور مجھے تو ڈر ہے کہ
کمپیوٹر کی یہ خوفناک دنیا نسل نو کو مذہب اسلام سے ہی بے بہرہ نہ کردے اور
اگر ایسا ہوا تو پھر سائنس اور مذہب کے درمیان جاری اس جنگ میں کامیابی صرف
اور صرف سائنس کو ہوگی اور مذہب پرانے قصے ، کہانیوں اور دیومالا کی طرح
ایک قصہِ پارینہ ہوگا۔ |
|