اٹالی کو اجودھیا بنانے کی کوشش
(Shams Tabrez Qasmi, India)
بلبھ گڑھ فساد کو آج چھ دن مکمل
ہوچکے ہیں لیکن امن وسلامتی کی فضا اب تک قائم نہیں ہوسکی ہے ۔ خوف و دہشت
کے ماحول نے مسلسل ڈیر ہ ڈال رکھا ہے ۔ ہر طرف گھبراہٹ اور بے چینی کی فضا
بنی ہوئی ہے ۔ گاؤں سے بے دخل کئے گئے لوگ اپنے گاؤں لوٹنے پر آمادہ نہیں
ہورے ہیں ۔ اکثریتی فرقہ کی جانب سے مسلمانوں پر کئے گئے ظلم کا دلخراش
منظر ان کے ذہن و دماغ سے محونہیں ہورہاہے ۔ آج بھی ان کی نگاہوں میں یہی
منظر ہے کہ اکثریتی فرقہ کے لوگ کلہاڑی ، گڑاسا اور دیگر دھار دار آلات سے
ہم پر حملہ کررہے ہیں ۔ ہمیں ماررہے ہیں۔ ہمارے گھروں کو لوٹ رہے ہیں ۔
گاؤں چھوڑدینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔بچوں کے ساتھ زدوکوب کا معاملہ کررہے
ہیں ۔ کانوں اور گھروں کو نذر آتش کررہے ہیں۔ املاک کو تباہ و برباد کرہے
ہیں ۔ عورتوں پر حملہ کررہے ہیں ۔ یہاں رہنے پرطرح طرح کی دھمکیاں دے رہے
ہیں ۔ نماز پڑھنے سے منع کررہے ہیں ۔ مسجد سے کلی طور پر دست بردارہوجانے
کا بزور شمشیر مطالبہ کررہے ہیں ۔ خوف و دہشت کی یہ تصویر مسلمانوں کے دل و
دماغ میں اس قدر بسی ہوئی ہے کہ وہ پولس کی یقین دہانیوں کے باوجود اپنے
گھرواپس لوٹنے پر آمادہ نہیں ہے ۔تقریبا 150 مسلمان اپنے گھر بار اور مال
دولت سے لا پرواہ ہوکر پولس اسٹیشن میں خانہ بدوش جیسی زندگی گزارنے کو ہی
ترجیح دے رہے ہیں ۔ ان کی یہ کیفیت واضح طور پر بتارہی ہے کہ بلب گڑھ سے
متصل اٹالی گاؤں کے مسلمانوں پر اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے ناقابل برداشت
ظلم ڈھائے ہیں ۔ ناقابل تصور ستم انہیں پہچائے گئے ہیں ۔ انہیں یقین ہوچکا
ہے پولس اسٹیشن میں کم ازکم ہماری جانیں محفوظ ہے لیکن گاؤں پہچنے کے بعد
مال کے ساتھ ہماری جان کو بھی خطرہ ہے ۔ وہ ہمیں قتل کردیں گے پولس بھی
وہاں ہمیں بچانے نہیں آئے گی کیوں کہ اس فساد میں اصل مجرم پولس ہی ہے۔
پولس اگر بروقت جائے حادثہ پر پہچ جاتی ۔ مجرموں کی شناخت کرلیتی ۔ اپنی
خاکی وردی کا خیال کرتے ہوئے فسادیوں کے خلاف کروائی کرچکی ہوتی تو معاملہ
یہاں تک دراز نہیں ہوتا اور ان کے دل میں اس قدر خوف نہ سماتا ۔ وہاں کی
ریاستی حکومت بھی مجرموں کی شناخت اور انہیں جیل کی سلاخوں تک پہچانے میں
سست روی کا مظاہر ہ کررہی ہے ۔ بلکہ وہ یہی چاہ رہی ہے کہ یہاں بھی بابری
مسجد والا معاملہ ہوجائے مسجد منہدم کرکے مندرکی بنیادڈال دی جائے۔ ملک کی
میڈیا اسے معمولی خبر بناکر پیش کرہی ہے ۔ ہندی اور انگلش کے اخبارات میں
اسے فساد کے بجائے جھڑپ لکھا جارہا ہے ۔ نیوز چینلوں کا رویہ بھی حسب سابق
ہے ۔
معاملہ ایک مسجد کی زمین کا ہے ۔ وہاں کے مقامی ہندؤں کا دعوی ہے کہ یہ جگہ
گرام پنچایت کی ہے جبکہ مسلمانوں کا دعوی ہے کہ شروع سے ہی مسجد کی جگہ ہے
۔ فرید آباد کورٹ یہ فیصلہ بھی سناچکی ہے کہ ہر اعبتار سے مسجد ہی کی جگہ
ہے گرام پنچایت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
جاٹوں نے عدالت میں دعوی کیا تھا کہ گرام پنچایت کے پاس اس متنازعہ مسجد کا
مالکانہ حق ہے، مسلمانوں کو یہ زمین قرستان کے لیے ملی ہے، مسجد بنانے کے
لیے نہیں۔وہیں مسلمانوں کاکہناتھا کہ زمین وقف بورڈ کی ہے۔31مارچ کو سول جج
ونے شرما نے مقدمہ کا مطالعہ کرنے کے بعداپنے فیصلہ میں کہ دیا تھا کہ کہ
یہ امر یقینی ہے کہ متنازعہ زمین ہمیشہ سے مسلم کمیو نٹی کی ملکیت میں رہی
ہے۔درخواست گزار نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ یہ جائیداد گرام پنچایت کی ہے،
لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔اس فیصلے کے بعد اٹالی گاؤں کی پنچایت ایس
ڈی ایم کے پاس گئی اور انہوں نے مسجد کی تعمیر پر اسٹے حاصل کرلیا ۔مئی کے
آغاز میں، چندی گڑھ سے ضلع ریونیو آفس ٹیم معاملے کی تحقیقات کے لیے بلبھ
گڑھ پہنچی اور ایک رپورٹ داخل کی ۔اس کے بعد ایس ڈی ایم نے مسلمانوں کو
تعمیراتی کام جاری رکھنے کی منظوری دے دی ۔ لیکن اکثریتی فرقہ کے لوگوں کو
وہاں مسجد کی تعمیر منظو ر نہیں تھی ، وہ عدالت اور انتظامیہ کے فیصلے کے
خلاف اپنی مرضی چلانا چا ہ رہے تھے وہ بہر صورت مسجد کی تعمیر کے خلاف تھے
اس لئے ان لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے نے غنڈہ گردی کامظاہر
کردیا اور26مئی کو تقریباََ 2000مسلح افراد نے نہتے مسلمانوں پرجان لیوا
اور قاتلانہ حملہ کردیا۔ کھٹر حکومت مکمل طور پر ہندؤوں کی پشت پناہی کررہی
ہے بلکہ وہ انہیں یہ شہ دے رہی ہے کہ ایودھیا کی تاریخ یہاں بھی دہرائی
جائے ۔ اس جگہ سے مسجد کو منہدم کرکے اور اس کے مالکانہ حقوق کو ختم کرکے
وہاں مندری کی تعمیر کی جائے ۔ مجرموں کی گرفتاری میں تاخیر اور گاؤں میں
اب تک امن ون سکون کی فضاء کے قائم نہ ہونے کا یہی مطلب ہے کہ حکومت ان کے
ساتھ ہے ۔ مجرموں کے کو ارباب اقتدار کا مکمل تعاون حاصل ہے- |
|