بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تبارک تعالیٰ کی جتنی حمد بیان کی جائے کم ہے وہ غفور و رحیم ہے اور
ہم پر سب سے بڑی رحمت جو باری تعالیٰ نے نازل کی وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ
و الہ و سلم کی صورت میں نازل کی ہے جس کے لیے ہم اللہ کا جتنا بھی شکر بجا
لائیں کم ہے.
اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی آمد کو اللہ تعالیٰ کے
احکامات کی آسان اور جامع تشریح کہیں تو بے جا نہ ہو گا . چونکہ آپ صلی
اللہ علیہ و الہ و سلم نے ہمیں ان رموز و قاف سے آگاہ کیا جن کو سمجھنا
ہماری عقل و سمجھ سے بالا تر تها.
لیکن ہماری بدنصیبی کے ہم نے عبادات کے آسان ترین طریقوں کو بدعت یا فالتو
کام سمجھ کر ترک کر دیا. حالانکہ یہ ایسی عبادت ہے جس سے ایک عام سے انسان
عابد و زہد کی معراج کو پا لیتا ہے.
ہمارے ہاں شبِ برات کے حوالے سے دو انتہائیں پائی جاتیں ہیں۔ایک طرف متشدّد
ین ہیں جواسے بدعت قراردیتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ
مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے
اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات عبادت کا
ایک حصہ بنا لیا ہے۔ اس مضمون میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان امور کا
جائزہ لیا گیا ہے جن کا کرنا ماہِ شعبان یا شبِ برات میں مستحب و مستحسن
ہے.
ماہ شعبان کی پندرہویں رات کوشب برأت کہاجاتا ہے شب کے معنی ہیں رات
اوربرأت کے معنی بری ہونے اورقطع تعلق کرنے کے ہیں‘چونکہ اس رات مسلمان
توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار
مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لئے اس رات کوشب برأت کہتے ہیں‘ اس رات
کولیلتہ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات لیلتہ الصک یعنی تقسیم امور کی رات
اور لیلتہ الرحمتہ رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہاجاتا ہے۔
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یساررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں’’لیلتہ
القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں شب سے افضل کوئی رات نہیں‘‘(لطائف
المعارف‘صفحہ145)
تقسیم امور کی رات
ارشادباری تعالیٰ ہوا’’قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی
رات میں اتاراہے‘ بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہرحکمت
والا کام(الدخان: 2-4‘کنزالایمان)
’’اس رات سے مرادشب قدر ہے یا شب برأت‘‘(خزائن العرفان)ان آیات کی تفسیر
میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ
’’لیلتہ مبارکہ‘‘سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے
‘فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور
جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کوابن جریر‘ابن منذر
اورابن ابی حاتم نے بھی لکھا ہے‘اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب
سے ہوتی ہے(ماثبت من السنہ‘ صفحہ194)
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے
لوح محفوظ سے نقل کرنے کاآغاز شب برأت سے ہوتا ہے اوراختتام لیلتہ القدر
میں ہوتاہے۔
(الجامع لاحکام القرآن‘ جلد 16 ‘صفحہ128)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امورتوپہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر
ہیں پھر ان شب میں ان کے لکھے جانے کا کیامطلب ہے؟جواب یہ ہے کہ یہ امور
بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح
محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امورہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا
کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی
یارسول اللہﷺ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے
ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے
والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں
کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق
اتاراجاتاہے۔
(مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)
رحمت کی رات
شب برأت فرشتوں کوبعض اموردیئے جانے اورمسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی
ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اوردعائوں کے قبول
ہونے کی رات ہے۔
-1حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ
کاارشاد ہے‘جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان
ہوتا ہے۔ہے کوئی مغفرت کاطالب کہ اس کے گناہ بخش دوں‘ ہے کوئی مجھ سے
مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔اس وقت اللہ تعالیٰ سے جومانگاجائے وہ
ملتاہے۔وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔سوائے بدکارعورت اورمشرک کے‘‘
(شعب الایمان للبیہقی‘ جلد 3صفحہ383)
-2حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا ومولیٰ
ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو
کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل
ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے
والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزاق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں ہے
کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک
ہوتارہتاہے۔
(ابن ماجہ صفحہ100‘شعب الایمان للبیہقی‘جلد3‘صفحہ378‘مشکوۃ جلد1صفحہ278)
یہ نداہررات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز
میں شب بیداری کی فضیلت کے عنوان کے تحت حدیث پاک تحریرکی گئی شب برأت کی
خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ نداغروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا
صالحین اورشب بیدار مومنوں کے لئے توہررات شب برأت ہے مگریہ رات خطاکاروں
کے لئے رحمت وعطااوربخشش ومغفرت کی رات ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس رات میں
اپنے گناہوں پرندامت کے آنسو بہائیں اور رب کریم سے دنیا وآخرت کی بھلائی
مانگیں‘اس شب رحمت خداوند ہرپیا سے کوسیراب کردیناچاہتی ہے اورہرمنگتے کی
جھولی گوہر مراد سے بھردینے پرمائل ہے.
شعبان کے روزے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ’’میں نے آقاومولیٰﷺ
کوماہ رمضان کے علاوہ ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں
دیکھا‘‘(بخاری مسلم‘مشکوۃ‘جلد1صفحہ441)ایک اورروایت میں فرمایا’’نبی کریمﷺ
چند دن چھوڑ کرپورے ماہ شعبان کے روزے رکھتے تھے‘‘(ایضاً۔
آپ ہی سے مروی ہے کہ سرکاردعالمﷺ نے فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے اوررمضان
میری امت کامہینہ ہے(ماثبت من السنہ‘ صفحہ188)
نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے’’جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے
ناموں کی فہرست ماہ شعبان میں ملک الموت کودی جاتی ہے اس لئے مجھے یہ بات
پسند ہے کہ میرانام اس وقت فہرست میں لکھاجائے جب کہ میں روزے کی حالت میں
ہوں‘‘یہ حدیث پہلے مذکورہوچکی ہے کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں
شعبان کی رات کوتیار کی جاتی ہے‘حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے
معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ
دارلکھے جانے کامطلب یہ ہے کہ بوقت کتابت(شب)اللہ تعالیٰ روزہ کی برکت
کوجاری رکھتاہے(ماثبت من السنہ‘صفحہ192)
ماہِ شعبان کی فضیلت میں حسن روایت
1۔حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
شَعْبَانُ بَیْنَ رَجَبَ وَشَھْرِ رَمَضَانَ تَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ
تُرْفَعُ فِیْہِ اَعْمَالُ الْعِبَادِ فَاَحَبُّ اَنْ لاَّ یُرْفَعَ
عَمَلِیْ اِلاَّ وَاَنَا صَائِمٌ (۶)
’’شعبان ‘ ماہِ رجب اور ماہِ رمضان کے درمیان ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس سے
لوگ غافل رہتے ہیں‘ حالانکہ اس میں لوگوں کے اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔
اور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اوپر اٹھائے جائیں
کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلاہ واسلام علی خاتم النبیین
والمرسلین والہ الطیبین الطاهرین . |