مخزن ششماہی۔لاہور: قائداعظم لائبریری، ۲۰۰۸ء جلد ۱۵ ،۱۹۲ ص،
(Dr.Nasreen Shagufta, Karachi)
مخزن :دور جدید۔ قائداعظم
لائبریری کا ششماہی مجلہ ہے جو رسائل و جرائد کی دنیا میں اردو کی ترقی اور
ترویج کے لئے کوشاں ہے۔ مخزن کا آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہوا۔ اس پرچے
نے ابتدا ہی سے اردو ادب کی دنیا میں ایک خاص کردار ادا کر کے ایک مثالی
حیثیت حاصل کر لی تھی۔ مخزن کی ابتدا شیخ عبدالقادر نے کی۔ ان کے بعد حفیظ
جالندھری، حمید نظامی، مولانا حامد علی خان، عنایت اللہ، ڈاکٹر وحید قریشی،
انتظار حسین، ڈاکٹر سلیم اختر، امجد اسلام امجد، انور سرید اور دیگر حضرات
نے اس کی تدوین اور اشاعت کو آگے بڑھایا۔
مخزن کا بنیادی مقصد قومی زبان کی ترقی اور فروغ ہے تاکہ اردو زبان سے
وابستہ افراد اردو ادب کی ترقی اور جدیدیت سے با خبر رہیں۔ یہ رسالہ ہردور
میں نئے لکھنے والوں کو بھی متعارف کرانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس رسالے میں اردو کے علمی و ادبی مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ اس کا مطالعہ
قارئین میں ادبی ذوق اور گہرا ادراک پیدا کر رہا ہے۔
مخزن شمارہ ۱۵۔ شخصیات، مکتوبات، تنقید، تحقیق، مفصل تبصرے، طنزو مزاح،
انتخاب، مخزن اور قائداعظم لائبریری کے ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔ زیر
تبصرہ شمارہ میں جو اداریہ تحریر کیا گیاہے اس میں خصوصی طور پر "مخزن قومی
اردو کانفرنس" کا تذکرہ ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد ۵ مئی ۲۰۰۷ کو مخزن کی
مجلس انتظامیہ اور قائداعظم لائبریری لاہور کے اشتراک سے کیا گیا۔ اس
کانفرنس کی صدارت ڈاکٹر جمیل جالبی نے کی۔ مہمان خصوصی سینٹ کے چیئرمین
محمد میاں سومرو تھے۔ اس کانفرنس میں ملک کے تمام صوبوں کے نامور ادباء و
شعراء، تنقید نگار اور محقیقین شامل تھے۔
شخصیت نامہ عارفہ محمود نے "میرے والد محترم۔محمد اکرام" کے عنوان سے اپنے
والد اور پورے خاندان کا ایک تفصیلی اور بھرپور تعارف پیش کیا ہے۔
مختارالدین کے خطوط مشفق خواجہ کے نام اور مشفق خواجہ ککے خطوط مختارالدین
کے نام ادبی معلومات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تنقید کے تحت سفیر حیدر نقوی
نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نیر مسعود کے افسانوں میں کافکائی رنگ
پوشیدہ ہے۔ وارث علوی کا کہنا ہے کہ "کافکا کی طرز کے واحد بہترین افسانہ
نگار ہمارے ہاں نیر مسعود ہیں"۔ ان کی تائید میں ڈاکڑ سہیل احمد خاں فرماتے
ہیں،" دوسرے اردو افسانہ نگاروں پر جس چیز کو کافکا کا اثر سمجھا جاتا ہے
وہ کافکا کی تھیم کے اثرات ہیں اس کے افسانوی طریقہ کار سے حقیقی معنوں میں
فائدہ نیر مسعود نے اٹھایا ہے"۔
حصہ تحقیق میں ڈاکٹر حنیف نقوی نے "غالب کی مہریں" پر بہت اہم اور محققانہ
طرز پر ایک مضمون پیش کیا ہے جس میں غالب کی آٹھ مہروں کا مفصل تعارف ہے۔
جسٹس ایم۔آر۔کیانی نے "ہمارے خوابوں میں آیا کیجئے" کے عنوان سے طنز و مزاح
کے رنگ کو مخزن کے صفحات پر پھیلایا۔
مخزن کے عنوان سےمختلف افراد کی آراء و تبصرے پیش کئے گئے ہیں۔اس کے ساتھ
ہی محمد حنیف شاہد نے اپنے مضمون "سر عبدالقادر احوال و آثار" قسط دوم میں
عبدالقادر کی ادبی زندگی کا احاطہ نہایت ہی محققانہ انداز میں کیا ہے۔
آخر میں مجلس ادارت کی منتظمہ شہناز مزمل نے قائداعظم لائبریری کی علمی و
ادبی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا جس میں ۵ مئی ۲۰۰۷ء کی مخزن
قومی اردو کانفرنس، ۱۲ جون ۲۰۰۷ء کی ایک تقریب بعنوان"اردو اور عصر حاضر کے
تقاضے" اور اسکے علاوہ ۳اگست۲۰۰۷ کا ایک اجلاس جس میں قرۃالعین کو خراج
تحسین پیش کیا گیا ہے اور اس اجلاس میں لاہور کے ادیبوں اور دانشوروں کی
شرکت کے بارے میں تحریر کیا ہے۔
اس رسالے کو ہر کتبخانے میں ہونا چاہیے تاکہ ادبی ذوق رکھنے والے قارئین اس
سے مستفید ہو سکیں۔ اللہ رب العزت اس رسالہ کو مزید خوبصورت اور پر کشش
بنائے اور اس کی اشاعت کو قائم رکھے۔ آمین۔ |
|