آدم خور مردے کا انجام
(Hafiz Kareem Ullah Chishti, Mianwali)
ش۔م۔دانش(پائی خیل)
اس وقت رات کے ۲ بج رہے تھے ،یہ سردیوں کی ایک اندھیری رات تھی،ہر طرف ہو
کا عالم تھا۔ گلیاں اور سڑکیں ویران پڑی تھیں ،کوئی ذی روح کہیں بھی نظر
نہیں آرہی تھی۔ویسے بھی سردیوں میں گرم بستر سے نکلنا کون پسند کرتا ہے؟اور
اس وقت تو رات کے ۲ بج رہے تھے۔ اچانک کار کے بریکوں کی چرچراہٹ سے ماحول
گونج اُٹھا،نجانے کون اس سردی سے ٹھٹھرتی رات میں اس وقت گھر سے نکلنے کی
حماقت کر چکا تھا۔
کار چلانے والے کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں اور دل یوں دھڑکنے لگا جیسے ابھی
سینہ پھاڑ کرباہر نکل آئے گا۔اس کی دھڑکن کی آواز کار کے اندر گونج رہی
تھی۔اس کی آنکھیں سامنے سڑک پر جم سی گئی تھیں ، اس کا حلق خشک ہو رہا
تھا،اس نے تھوک نگلنے کی ناکام کوشش کی، وہ اپنی آنکھیں سامنے کی طرف سے
ہٹانا چاہتا تھا لیکن باوجود کوشش کے وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ پھر اس
نے کار کو ریورس کرنا چاہا لیکن اس کے ہاتھوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔
اس کا جسم بالکل بے حس وحرکت ہو گیا تھا اور نگاہیں سامنے کی طرف جمی ہوئی
تھیں۔ وہ مبہوت سا ہو چکا تھا۔ پھر اس نے چیخنے کے لیے منہ کھولا لیکن آواز
اس کے حلق میں گُھٹ کر رہ گئی ۔سامنے کا منظر اس کے ہوش اُڑانے کے لیے کافی
تھا۔ سامنے سڑک پر ایک لاش پڑی ہوئی تھی اور اس کے ارد گرد تازہ خون پھیلا
ہوا تھا۔لیکن اس کی خوفزدگی کا باعث وہ لاش نہ تھی بلکہ اس کے ہوش تو اس
خوفناک شے کو دیکھ کراڑ گئے تھے جو اس لاش کے پاس بیٹھی اسے بڑی رغبت سے
کھا رہی تھی۔اس خوفناک شے کی اس کی طرف سائیڈتھی شاید اس لیے وہ اسے نہ
دیکھ سکی تھی اور ویسے بھی وہ گوشت کھانے میں اس قدر غرق تھی کہ اسے ارد
گرس کا ہوش ہی نہ تھا۔ اچانک اس نے اپنے ایک ہاتھ سے لاش کی قمیض سینے پر
سے پھاڑدی، اس کا ہاتھ بالکل انسانی ہاتھ جیسا تھالیکن اس کے پورے ہاتھ پر
گوشت کا نام و نشان تک نہ تھااور ناخن درندوں کی طرح بڑے بڑے تھے جو اس وقت
خون میں لتھڑے ہوئے تھے ۔ اس نے ہاتھ اونچا کیا اور پورے زور سے لاش کے
سینے پر مار دیا۔
اس کے دو ،دو انچ لمبے ناخن لاش کے سینے میں اُترتے چلے گئے ۔اس نے ناخن
باہر کھینچے اور ایک بار پھر پورے زور سے اپنا ہاتھ لاش کے سینے پر مار
دیا۔اس کے ناخن ایک بار پھر لاش کے سینے میں اُترتے چلے گئے ۔ اس بار جب اس
نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تو اس کے ہاتھ میں لاش کا دل موجود تھا،اس نے
خوشی سے قلقاری ماری اور دل کو بڑی رغبت سے کھانے لگا۔
یہ دیکھ کر کار والے کا خون منجمد ہونے لگا اور اس کی سانسیں بے ترتیب ہونے
لگیں۔ پھر جیسے ہی اس خوفناک شے کے جبڑوں کی حرکت رکی وہ اس طرح چونکی جیسے
اسے اچانک ہوش آگیا ہو۔ وہ کار کی طرف مڑی اور اب ڈرائیور نے اسے دیکھا تو
اس کے جسم میں واضح طور پر کانپنا شروع کر دیا وہ بلا شبہ ایک مردہ تھا
کیونکہ اس کے جسم پر پھٹا پرانا کفن بھی موجود تھا۔ اس کی سرخ آنکھیں شعلے
برسا رہی تھیں اور اس کے منہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مکروہ کیڑے رینگ رہے
تھے۔اس کا کفن سینے سے پھٹا ہوا تھا جس میں سے اس کی پسلیاں اور ان کے
درمیان موجود دل دھڑکا ہوا صاف نظر آرہا تھا۔ اس کے جسم پر گوشت نام کی
کوئی چیز موجود نہ تھی وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا اس کی ناک کی جگہ دو
چھوٹے چھوٹے سوراخ موجود تھے جن کی مدد سے وہ سانس لے رہا تھا۔اس کے دانتوں
سے تازہ خون اب بھی ٹپک رہا تھا۔اس کا یہ مکروہ حلیہ دیکھ کر کار والا بے
ہوش ہو چکا تھا۔ وہ ڈھانچہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کار کے نزدیک آ گیا
اور غور سے دیکھنے لگا، اچانک اس کی آنکھیں چمک اٹھیں،اس کے جبڑوں نے حرکت
کی تو اس کے بھاڑ سے منہ سے ایک مسرّت بھری چیخ سنائی دی اور پھر وہ قہقہے
لگانے لگا۔
’’ایک رات میں دو شکار ،ہاہاہاــ اب مزہ آئے گا،آج تو شیطان مجھ پر ضرورت
سے زیادہ ہی مہربان نظر آتا ہے۔‘‘ڈھانچے نے مسرّت سے چیختے ہوئے کہا۔ پھر
وہ آگے بڑھا اور کار کی ونڈ سکرین پر اپنا پنجہ دے مارا، ونڈ سکرین ٹوٹ کر
اندر جا گری اور ڈھانچے نے اپنا پنجہ اندر گزار کر کار چلانے والے کو گردن
سے پکڑا اور باہر کھینچ لیا۔ اس نے اسے زمین پر پٹخا اور اس کی طرف بڑھا
لیکن پھر وہ رک گیا۔ ’’اوہ مجھے اسے نہیں کھانا چاہیئے بلکہ میں اسے کل
کھاؤں گااور پھرشکارڈھونڈنے کی بجائے آرام کروں گا‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے
کار والے کو اٹھایا اور پہاڑی کی طرف روانہ ہو گیا وہ مسرّت سے چیختا بھی
جا رہا تھا۔
ٔ٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
فرہاد نے اچانک بریک لگا دی۔ ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ پیچھے بیٹھے ہوئے اس کے
دونوں دوستوں نے چونک کر پوچھا۔لیکن فرہاد نے کوئی جواب دینے کی بجائے
دروازہ کھولا اور نیچے اتر کر سامنے کھڑی کار کی طرف بڑھ گیا۔طاہر اور عارف
بھی نیچے اتر آئے اور اس کے پیچھے کار کی طرف بڑھ گئے۔ کار کی ونڈ سکرین
ٹوٹی ہوئی تھی اور شیشے کی کرچیاں سڑک پر بکھری ہوئی تھیں۔
’’ارے، یہ کس کی کار ہے؟‘‘ طاہر نے چونک کر کہا۔
’’یہ میرے دوست احسن کی کار ہے اور میں اسے دیکھ کر ہی چونکا تھا۔‘‘ فرہاد
نے جواب دیا۔
’’لیکن وہ خود کہاں گیا؟‘‘عارف نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔۔۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی واردات ہوئی ہو۔‘‘
فرہاد نے کہا۔
پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔اچانک وہ خوف اور دہشت سے اچھل پڑے۔ تھوڑے ہی
فاصلے پر سڑک کے درمیان ایک ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔ اس کا سینہ پھٹا ہوا
تھا اور دل کی جگہ ایک غار سا نظر آ رہا تھا۔
’’اوہ، تمہارے دوست کو تو کوئی درندہ کھا گیا ہے فرہاد۔‘‘ طاہر نے پریشانی
سے کہا۔
فرہاد نے کوئی جواب نہیں دیا اور لاش کی طرف بڑھ گیا۔’’نہیں، یہ میرا دوست
نہیں ہے۔‘‘ اس نے قریب جا کر کہا۔ کیونکہ لاش کا چہرہ سلامت ہی تھا۔
’’اوہ۔۔۔ پھر تمہارے دوست کی کار یہاں کیوں کھڑی ہے؟ وہ خود کہاں گیا؟‘‘
طاہر نے کہا۔
’’ارے، کہیں تمہارا دوست آدم خور تو نہیں بن گیا؟ شاید اس نے اس آدمی کو
اکیلا دیکھ کر اس پر حملہ کر دیا اور پھر اسے کھا گیا۔۔۔ شاید وہ بھوکا ہو
گا!‘‘اچانک عارف نے چونک کر کہا۔
’’شاید لاش دیکھ کر تمہارے دماغ کے پیچ ڈھیلے ہو گئے ہیں۔۔۔دیکھتے نہیں کار
کی ونڈ سکرین ٹوٹی ہوئی ہے، اگر وہ خود باہر جاتا تو اسے ونڈ سکرین توڑنے
کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ فرہاد نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
’’اوہ ہاں ـواقعی مجھے خیال نہ رہا تھا۔‘‘عارف نے کہا۔
’’پچھلے دنوں میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ کوئی آدم خور اس علاقے میں
آیا ہوا ہے کہیں یہ کارستانی اسی کی تو نہیں؟‘‘ چند لمحے بعد طاہر نے کچھ
سوچتے ہوئے کہا۔
’’اوہ بالکل یہی ہوا ہو گا میں نے بھی یہ خبر پڑھی تھی اب تمہارے یاد دلانے
پر میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے ۔‘‘ فرہاد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بات آدم خور کی ہے تو کھسکو یہاں سے ، ایسا نہ ہو کہ وہ پھر یہاں
آجائے۔‘‘ عارف نے خوف سے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنے دوست کو بچانا چاہتا ہوں سمجھے؟ تم اتنا ہی ڈرتے ہو تو واپس چلے
جاؤ‘‘ فرہاد نے کھردرے لہجے میں کہا۔
’’ نہیں میں تمہارے ساتھ جاؤں گا جہاں تم جاؤ گے‘‘ عارف نے بھی سنجیدہ ہوتے
ہوئے کہا۔
’’اوکے، لیکن اب ایسی باتیں نہ کرنا‘‘ فرہاد نے سخت لہجے میں کہا اور سڑک
سے اتر کر ایک طرف بڑھ گیا عارف جو کوئی بات کرنے کے لیے منہ کھول رہا تھا
ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔’’ارے ادھر آؤ طاہر اور عارف یہ دیکھو خون اور قدموں
کے نشان۔‘‘ اچانک فرہاد نے چیختے ہوئے کہا اور وہ دونوں اس کی طرف بڑھ گئے۔
وہاں واقعی خون کے قطرے اور عجیب سے قدموں کے نشانات موجود تھے، عارف نے تو
یہ نشان دیکھ کر ہی کانپنا شروع کر دیا تھا۔ پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے وہ
کار استعمال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اس طرح قدموں کے نشانات گم ہو سکتے
تھے۔
’’ ارے باپ رے یہ راستہ تو پرانے قبرستان کی طرف جاتا ہے جہاں میرے انکل
منّور علی بھی جانے سے ڈرتے ہیں۔۔۔‘‘ جیسے ہی وہ ایک نئے راستے پر پہنچے
عارف نے بوکھلا کر کہناشروع کیا لیکن پھر فرہاد کی طرف دیکھ کر خاموش ہو
گیا۔ اس کی بات کا کسی نے جواب نہ دیا تھا۔
اور پھر وہ چلتے چلتے واقعی ایک پرانے قبرستان کے قریب پہنچ گئے ۔
’’عارف اگر تمہیں ڈر لگ رہا ہو تو تم باہر رک جاؤ‘‘ فرہاد نے عارف سے مخاطب
ہو کر کہا۔
’’ بب۔ باہر۔ اور وہ بھی اکیلا ؟ نن۔نہیں میں تمہارے ساتھ آؤں گا‘‘ عارف نے
گڑبڑا کر کہا اور وہ دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔
’’اوکے چلو‘‘ فرہاد نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر وہ قبرستان کے اندر داخل
ہو گئے۔
اندر ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں۔ ابھی وہ تھوڑا سا ہی آ گے بڑھے تھے کہ
اچانک قبرستان عارف کی دلدوز چیخ سے گونج اٹھا۔
وہ جن قبروں کے درمیان سے گزر رہے تھے ان میں سے ایک قبر سے نکلنے والے ایک
مردے کے ہاتھ نے اس کی ٹانگ کو پکڑ لیاتھا۔ اور عارف باوجود کوشش کے اپنی
ٹانگ نہیں چھڑا پا رہا تھا۔
طاہر نے اس مردے کے ہاتھ کو پکڑ کر عارف کی ٹانگ کو چھڑوانا چاہا تو مردے
نے عارف کی ٹانگ چھوڑ کر طاہر کا ہاتھ پکڑلیا۔ طاہر نے ہاتھ چھڑوانے کی
کوشش کی تو اس کی انگلیوں میں کڑکڑاہٹ کی آواز پیداہوئی اور طاہر کے منہ سے
بے اختیار چیخ نکل گئی۔ مردے نے اب بھی اس کا ہاتھ نہ چھوڑا تھا۔
فرہاد کی آنکھوں میں تشویش کی جھلکیاں ایک لمحے کو نظر آئیں اور پھر غائب
ہو گئیں۔
وہ آگے بڑھا اور مردے کے ہاتھ پر زور دار لات رسید کر دی لیکن اگلا لمحہ اس
کے لیے انتہائی حیرت انگیز ثابت ہوا جب مردے کا دوسرا ہاتھ قبر سے باہر
نکلا اور اس کی ٹانگ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا
کیونکہ فرہاد نے لات واپس کھینچ لی تھی۔
اچانک طاہر کے منہ سے زوردار انداز میں کلمہ طیبہ کی آواز گونجی اور مردے
کی بھیانک چیخ سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی طاہر کا ہاتھ مردے کی گرفت سے
نکل آیا۔
اس کے ساتھ ہی ارد گرد سے بھی بھیانک چیخیں سنائی دیں اور تمام قبریں دھواں
بن کر ہوا میں اڑ کر غائب ہو گئیں۔ انھوں نے دیکھا دور ایک عمارت نظر آرہی
تھی۔ وہ سب عمارت کی طرف بڑھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ عمارت کے اندر پہنچ گئے ، اس میں کالے رنگ سے خوفناک
تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
اچانک انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی دیوار کے ساتھ جکڑا ہوا کھڑا تھا۔ اسے
عجیب انداز میں جکڑا گیا تھا اس کے ہاتھوں کوسر سے اوپر کر کے دو پنجوں کی
مدد سے جکڑا گیا تھااور اس کے پاؤں بھی پنجوں کے ذریعے ہی جکڑے گئے تھے ۔
پنجے اس کے ہاتھوں اور پیروں کے قریب ہی دیوار میں بھی گڑھے ہوئے تھے۔ وہ
بلا شبہ کسی آدمی کے پنجے ہی تھے جن پرنہ گوشت تھا اور نہ کھال۔۔۔
وہ آدمی بے ہوش تھا۔ ’’یہی ہے تمہارا دوست؟‘‘ طاہر نے فرہاد سے پوچھا اور
اس نے اثبات میں سر ہلا یااور اس کی طرف بڑھ گیا۔
’’ٹھہروتم نے دیکھا نہیں کہ اس مردے کے ہاتھ کیسے تھے ؟ یہ بھی غالباََ اسی
جیسے ہاتھ ہوں گے ‘ ‘ طاہر نے اسے روکنے کی کوشش کی۔
’’تو کیا ہوا؟ میں آیت الکرسی پڑھ لیتا ہوں‘‘ فرہاد نے کہا اور پھر جیسے ہی
اس نے آیت الکرسی پڑھنی شروع کی گڑگڑاہٹ کی آواز کے ساتھ پنجے غائب ہو گئے
اور وہ آدمی نیچے گر گیا ابھی وہ تینوں اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ ایک
زوردار دھماکے سے عمارت بھی غائب ہو گئی۔ انہوں نے اسے ہوش میں لانے کی
کوشش شروع کردی۔ چند لمحوں بعد وہ ہوش میں آ گیا اور وہ سب گھر کی طرف چل
پڑے۔ |
|