زیبن دیہاتی عورت تھی۔ مزاجا
سادہ' شاکر اور واجبی چہرے مہرے کی عورت تھی۔ حالات کا گلہ شکوہ تو جیسے
جانتی ہی نہ تھی۔ جب تک ماں باپ کے گھر رہی' ان کی خدمت کرتی رہی۔ وہ کوئی
آسودہ حال لوگ نہ تھے' لیکن محنت مزدوری سے' مناسب اور گزارے موافق زندگی
بسر کر رہے تھے۔ پھر اس کی شادی صفدر سے ہو گئی' جو اس سے عمر میں بیس سال
چھوٹا تھا۔ پہلے کچھ سال' ناگواری میں گزرے۔ زیبن نے ہر حال میں' گزارے سے
کام لیا۔ ایک روز جب صفدر کام پر جا رہا تھا' چلتے چلتے رستے میں اس نے
سوچا' عمر کے زیادہ ہونے اور واجبی چہرے مہرے سے' کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ خود
تو بھاگ کر نہیں آئی تھی۔ اس کےابا نے' اسے پسند کیا تھا۔ اس میں ابا کا
بھی کوئی قصور نہ تھا۔ سادہ اور پرانی وضح کے شخص تھے' انہوں نے شرافت کو
معیار بنایا تھا۔ زیبن کے شریف ہونے پر شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
صفدر نے اس سوچ کے بعد اپنا چلن ہی بدل دیا۔ اب صفدر وہ صفدر ہی نہ رہا۔ اس
نے زیبن کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔
زیبن کے چہرے پر دنوں میں ہی روانی آ کئی۔ خوشی ملے تو آدمی پھر سے جوان ہو
جاتا ہے۔ آدمی شاکر ہو جائے تو الله کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں نازل ہونا
شروع ہو جاتی ہیں۔ گھر میں سکون نے ڈیرا جما لیا۔ کام میں بھی برکت نازل
ہونا شروع ہو گئی۔ زندگی کی ہر ضرورت کے لیے وسائل میسر ہونے لگے۔ بلاشبہ
ان پر یہ الله کا بہت بڑا احسان تھا۔ جیسے جیسے آسودگی نازل ہوتی گئی ویسے
ویسے صفدر میں نرمی اور حلیمی کا اضافہ ہوتا گیا۔ مزاج میں قناعت' فقیری
اور درویشی داخل ہوتی گئی۔
صفدر بنیادی طور پر' میٹرک تھا۔ اس سلوک' محبت اور باہمی اتفاق کے نتیجہ
میں' اس نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر' ایم اے اردو اور پھر ایم اے
سیاسیات کیا۔
الله کے احسان سے زیبن حاملہ ہو گئی۔ حمل کے آخری ایام میں حسب روایت وہ
میکے چلی گئی۔ الله نے انہیں ایک چاند سے بوبی سے نوازا۔ اس امر کی اطلاع
صفدر کو کر دی گئی۔ وہ اڑتا ہوا سسرال پہنچا۔ اتفاق سے اس کی ہم شیر نسبتی
کے ہاں بھی ان ہی ایام میں بیٹا پیدا ہوا۔ صفدر جب وہاں پہنچا تو دونوں
بچوں کو ایک جگہ لٹا دیا گیا۔ صفدر سے کہا اپنا بیٹا اٹھا لے۔ صفدر نے
دونوں بچوں کو ایک نظر دیکھا۔ یہ یقینا بہت بڑا امتحان تھا۔ بچے چند دنوں
کے تھے۔ پھر اسے یوں محسوس ہوا جیسے ایک بچے کی آنکھوں میں سوال گردش کر
رہا ہو‘ ابو مجھے نہیں پہچان پا رہے میں آپ کا بیٹا ہوں۔ صفدر نے فورا اس
بچے کو اٹھا لیا۔ سب حیران رہ گیے۔ انہوں نے تم نے اسے کیسے پہچانا ہے۔
صفدر مسکرایا اور کہا بچے نے مجھے بتایا ہے۔ سب پکار اٹھے خون‘ خون کو
پہچان ہی لیتا ہے۔
گھر میں خوشیوں بڑھ گیئں۔ صفدر نے اپنے اس لاڈلے بیٹے کا نام کنور عباس
رکھا۔ کنور کے قریب آنے سےصفدر اور زیبن دلی اور ذہنی طور پر اور قریب آ
گئے۔ وہ ایک دوسرے محبت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی عزت بھی کرنے لگے۔ کنور
بڑے اچھے مقدر لے کرآیا تھا الله کے احسان کا دروازہ مذید کھلا ' اسے پنجاب
سول سکریریٹ میں' باطور اسسٹنٹ ملازمت بھی مل گئی۔۔ جائنگ کے بعد اس کی
گورنر انسپکشن ٹیم میں باطور برانچ سپرنٹنڈنٹ تعیناتی ہو گئی۔ وہ بڑی رقم
اکٹھی کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنے باپ بابا شکرالله کی ہدایت پر حرام کی
طرف دیکھنا بھی جرم عظیم سمجھا اور عجز کو شعار بنا لیا۔
زندگی آسانی اور خوشیوں کی چھاؤں میں بسر ہو رہی تھی۔ ننھا کنور گھر کی
رونق اور روشنی تھا۔ جب وہ چھوٹی چھوٹی شراتیں کرتا دونوں میاں بیوی کھل
کھل جاتے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ صفدر جب گھر
واپس آتا کنور اس کے ساتھ رہتا۔ کنور اور صفدر ایک دوسرے کے عشق کی ڈور میں
بند چکے تھے۔ صفدر کی ساری دوستیاں کنور میں سمٹ آئی تھیں۔ الله نے ایک اور
احسان کیا۔ کنور کے بعد حسن مثنی کی آمد ہو گئی۔ زیبن اور صفدر الله کے اس
احسان پر پھولے نہ سمائے۔
یہ چار جنوری ١٩٨٤ کی منحوس اور بدنصیب شام تھی۔ زیبن کی طبیعت خراب ہو
گئی۔ وہ ڈاکٹر رضا ہاشمی کے پاس دوڑا آیا۔ ڈاکٹر رضا ہاشمی صفدر کا پرانا
دوست تھا۔ اس نے پوری حقیفت سن کر دوا دے دی اور اسے تسلی بھی دی۔ وہ رات
بھاگ دوڑ میں گزر گئی۔ آخر زیبن نے کہا
میرے پیو سیہڑیا نہ کھپ' وقت آ پہنچا ہے۔ میرے پاس بیٹھ جا۔
صفدر ذہنی طور پر مفلوج ہو گیا تھا۔اس کے سامنے ساری کھیڈ ختم ہو رہی تھی۔
اسے کیسے چین آ جاتا۔ صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ ڈاکٹر رفیق کو لے کر آ
گیا۔ اس نے زیبن کی طرف دیکھا۔ زیبن کی آخری سانس تھی۔ زیبن نے یہ سانس
ضائع نہ ہونے دی۔ اس نے صفدر کی طرف زخمی مسکراہٹ سے دیکھا اور تیرہ سال کا
ساتھ چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی۔ وہ رویا چلایا مگر کچھ بھی نہ ہو سکا۔
چار دن کے بچے سے ممتا کی آغوش چھن چکی تھی۔ موت کے سامنے کب کسی کی چلی
ہے۔ وہ تو خود امر ربی کی زنجیروں میں جکڑی ہوتی ہے۔ الله کی حکمتوں کو کب
کوئی پا سکا ہے۔
صفدر حساس فریضہ انجام دے رہا تھا۔ پریشان تھا کہ دونوں بچے چھوٹے ہیں کس
کے پاس چھوڑے۔ ایسے وقت میں سارے رشتے بےگانے ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی ہم
شیر نسبتی حنیفاں بی بی حسن مثنی کو لے گئی۔ حالات نے اس کنبے کو بکھیر کر
رکھ دیا۔ زیبن کیا گئی سارا سکون اور چین بھی چلا گیا۔ اس طرح تو زندگی
نہیں گزر سکتی تھی۔ زیبن کبھی واپس نہ آنے کے لیے چلی گئی تھی ورنہ وہ تو
میکے میں بھی‘ اتنی دور ہونے کے باوجود‘ دو چار روز سے زیادہ وہاں نہ رہی
تھی۔ اب تو کئی دن ہو چلے تھے لیکن اس کی واپسی ابھی تک نہ ہوئی تھی۔ وہ تو
اتنے دن رہنے والی نہ تھی۔ بےچاری کتنی مجبور ہو گی ورنہ اب تک واپس آ گئی
ہوتی۔
عالم شاہ اپنے داماد صفدر اور بچوں کے لیے سخت پریشان تھے۔ وہ اس کے دکھ سے
باخوبی واقف تھے۔ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی حنیفاں بی بی کو راضی کر لیا کہ
وہ اپنی بیٹی انور صفدر کے نکاح میں دے دے۔ صفدر کا دل بجھ گیا تھا۔ زیبن
سی عزت محبت اور خدمت کوئی نہ دے سکے گا۔ اس حقیقت کے باوجود اس نے عالم
شاہ کے فیصلے پر سر بہ خم کر دیا۔ اس کے دل سے زیبن کی جدائی کا غم محو ہی
نہیں ہو رہا تھا۔ اس میں انور بےچاری کا تو کوئی قصور نہ تھا۔ وہ دو بچوں
پر آ رہی تھی اس لیے ہم دردی کی مستحق تھی۔ صفدراپنے دونوں بچوں کو اپنے
سامنے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ پھر اس نے خود کو ذہنی طور پر نئے سیٹ اپ
کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔
اسی دوران حسن مثنی بیمار پڑ گیا۔ حنیفاں بی بی اسے صفدر کے پاس لے آئی۔
صفدرنے اس بچے کو اپنی عمر رسیدہ ماں کی آغوش میں ڈال دیا۔ اس کے پاس کوئی
دوسرا رستہ ہی نہ تھا۔ اس عمر رسیدہ عورت نے‘ جی بسم الله کرکے اسے سینے سے
لگا لیا۔ صفدر کی فیملی اتنی مختصر نہ تھی کہ بچے کی نگہداشت نہ ہو پاتی
مگر کون کسی کی سر دردی مول لیتا ہے۔ دادی نے دل و جان سے اپنی بوڑھی اور
کم زور ہڈیوں کی پرواہ کیے بغیر بچے کی خدمت کی۔
صفدر کے بڑے بھائی منظور حسین' شروع سے خودغرض' مطلب پرست' زوجہ دار اور
طوطا چشم رہے تھے' نے اپنے بڑے بیٹے' خالد کی اس بازار کے رہائشی پیدائشی'
باظاہر شریف' مادری سوسائٹی کے گھرانے کی لڑکی بشری سے' منگنی کر رکھی تھی۔
باہر اس گھرانے کی بڑی شوشا تھی' لیکن اندرون خانہ یہ خوش حال گھرانہ نہ
تھا۔ خوشی محمد کی پہلی بیوی سے' تین لڑکے ریاض' ارشد اور اصغر تھے۔ دوسری
بیوی سے' پانچ لڑکیاں رضیہ' نجمہ' سعیدہ' ناصرہ اور بشری' جب کہ دو لڑکے
حسن اور انور تھے۔ پہلی بیوی کے تینوں بیٹے' موجودہ ماں اور اس کی اولاد کے
حسن سلوک سے متاثر ہو کر' راہ فرار اختیار کر چکے تھے۔
اسی حسن سلوک کا شکار خوشی محمد بھی ہو گیے تھے۔ نتیجہ کار' وقت سے بہت
پہلے اگلے جہاں جا بسے تھے۔ یہ خاتون باظاہر سادہ تھی لیکن اپنی اصل میں
باراں تالی تھی۔ آسمان پر ٹاکی لگانے اور اتارنے میں ثانی نہ رکھتی تھی۔ یہ
الگ بات ہے کہ لگاتی کم' اتارتی زیادہ تھی۔ لگانا گناہ کبیرہ جانتی تھی۔
گھر کے جملہ اخراجات بڑی لڑکی رضیہ اٹھا رہی تھی۔ حسن اور انور بہن کی
کمائی کے عادی ہو چکے تھے۔ بہن کی کمائی کے سفید استری شدہ کپڑوں میں انہیں
رہنا خوش آتا تھا۔ کام سے زیادہ وہ سہولتوں اور آسائشوں کی دستیابی کے دل
دادہ تھے۔
نجمہ کی شادی گاؤں کے رہائشی زاہد سے کر دی گئی۔ اس نے اس مادری سوسائٹی کی
خاتون کو بس میں کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی لیکن پوتڑوں میں ملی عادات کب
ختم ہوتی ہیں۔ آخر اسے ہی زیر ہونا پڑا۔ تین بچے پیدا ہوئے ان میں سے ایک
مر گیا۔ باقی دو ہو لئے۔ ماں کے قدموں پر
سعیدہ المعروف ہیما مالنی نے ایل ایچ وی کورس میں داخلہ لے کر خوب موج میلہ
کیا۔ یہ کام تو اس نے میٹرک میں ہی شروع کر دیا تھا۔ کورس کرنے کے بعد اسے
ہسپتال میں ملازمت مل گئی۔ معمولی سی کوشش سے ڈاکٹر نسیم گرفت میں آ گیا۔
کئی ایک تو یوں ہی رہے تاہم بنک آفیسر یسین خصوص کے درجے سے نیچے نہ آ سکا۔
پھر اس نے نسیم سے فراغت حاصل کر لی۔ تجمل پر گرفت مضبوط ہو گئی۔ اداؤں کا
یہ مقتول کئی سال چلا۔ اس سے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ وہ گریب بھی بنک آفیسر
یسین کی بلی چڑھ گیا۔
اوروں کے ساتھ ہیلو ہائے کے ساتھ' ماسٹر کئی ماہ اقامت پذیر رہا۔ اس
بےچارے' مگر بےدرمے کو حسن نے چلتا کی۔ بدکار تو وہ تھی ہی' بدکار عورتوں
کی معاون ہونے کے سبب خوب مال کمایا۔ ان گنت معصوم بچوں کو زندگی کا پہلا
سانس تک نہ لینے دیا۔ ابارشن کاری سے خوب مال کمایا۔
صفدر نے اس کا گھر آباد رکھنے اور بچیوں کی ہم دردی میں' تجمل کو کئی ماہ
اپنے ہاں رکھا. ۔صفدر کو یہ خدا ترسی مہنگی پڑی۔ وہ آنے والے پہاجیوں کی
راہ میں روڑا بنتا تھا۔ یسین کے معاملہ میں منہ کھولتا تھا۔
سارے بہن بھائی سرکاری بجلی کا ڈٹ کر استعمال کرتے تھے لیکن سعیدہ نے تو
کسریں ہی نکال دیں۔ اس کے پاس مال اور مسکراہٹوں کی کمی نہ تھی۔ حج کرنے
بعد ڈنگ پہلے سے بھی سخت گیر ہو گیا۔ سعیدہ کی دونوں لڑکیاں اپنی ماں کے
نقش قدم پر چلیں اور کافی نام کمایا۔
ناصرہ‘ نجمہ اور ہیما مالنی کے ہاں اقامت پذیر تھی۔ اتنی ہنر افروز بہنوں
کے ساتھ رہتے ہوئے الیاس اس کی گرفت سے کیسے نکل سکتا تھا۔ کوشش کے باوجود
مال نواز اسامی کے نکاح میں نہ آ سکی۔ طفیل عرف تھیلا یبل ناصرہ کے نکاح
میں آگیا۔ ناصرہ نجمہ اور ہیما مالنی نے اسے بچوں بڑوں کا مذاق بنا دیا۔ اس
طرح وہ کنبہ میں وچاری قرار پائی۔
وچاری ہونے کے سبب ' چوری چھپے سہی' اس کا ملن الیاس سے رہا۔ الله نے وچاری
کو ایک لڑکا اور ایک لڑکی عنایت کی۔ سعیدہ نے ضد میں دونوں کیس میل ڈاکٹر
سے کرائے۔
حسن کی شادی اچھرہ کے ایک شریف اور صاحب حثیت گھرانے کی بی اے بی ایڈ لڑکی
طلعت نورین سے ہوئی۔ بلاشبہ وہ ایک نیک اور شریف عورت تھی۔ جنت سے جہنم میں
آ بسی۔ ساس ہی کچھ کم نہ تھی اوپر سے پانچ ساس نما نندوں میں آ گھری۔ اس کی
تنخواہ سے گھر چل رہا تھا۔ دکھ اور کرب نے اسے کینسر ایسے مرض میں مبتلا کر
دیا۔ اس نے آخری دموں تک نوکری نبھائی اور گھر کا کام کاج بھی کیا۔ آخر کب
تک‘ موت نے اسے دکھ اور مشقت سے نجات دلا دی۔ پنشن اور دیگر سروس واجبات
حسن کے ہاتھ لگے۔ پہلے مانگنے سے ملتا تھا اب وہ مختار کل تھا۔ کفن دفن پھر
چالیسواں وغیرہ کے اخراجات مرحومہ کے بھائیوں نے اٹھائے۔ اب وہ وچاروں کی
لسٹ میں آ گیا۔
اس کا عقد ایک ملازم خاتون سے ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ پرائیویٹ ملازم
تھی۔ نکاح کے بعد اس نے پرائیویٹ ملازمت چھوڑ دی۔ حسن نے اس جرم کی پاداش
میں بدکرداری کا الزام لگا کر اپنے نکاح سے فارغ کر دیا۔ نکاح کی خبر سرکار
کے علم میں نہ آنے کے سبب پنشن کا من وسلوی تاحال جاری و ساری ہے۔
حسن بیوی کی موت پر' اس کے بھائیوں نے روٹی دی۔ ہر کوئی اپنی اپنی فیملی کو
کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ حسن اپنی فیملی کو کھانا تقسیم کر رہا تھا۔ تھوڑی
دیر پہلے وہ اپنے جیون ساتھی کو' جو مرتے دم تک کفالت کرتی رہی تھی‘ کی موت
پر دکھ یا پریشانی کے دور تک آثار نہ تھے۔ اسے اگر کوئی فکر تھا' تو اپنے
بھائی اور بہنوں کی بھوک کا فکر تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھایا۔ وچاری ناصرہ
نے' دو ڈونگے بوٹیاں اپنے پرس میں بھرتی کر لیں۔ حسن نے دیکھ لیا تھا۔ اس
کے چہرے پر سومنات کے فاتح کی سی مسکراہٹ' بکھر بکھر رہی تھی۔ چوری' چشمی
بھوک اور ہیرا پھیری کی عادت' اسے گٹھی میں ملی تھی۔ پھر یہ عادت اس کے
بچوں کو ماں کے ورثہ میں مل گئی۔
اس گھر کی بدقسمتی دیکھیے نہ انہیں کوئی داماد اچھا ملا اور نہ کوئی اچھی
بہو ملی۔ ہاں وہ سب بہن بھائی زمین کی اعلی اور افضل ترین مخلوق تھے۔
الله سے یہ دعا ہے ان سی بیویاں اور سالے سالیاں کسی جہنمی کو بھی نہ دے۔
بشری کے رشتہ کے سلسلہ میں نخرہ نخری کر رہے تھے۔ رضیہ اپنی زبان درازی و
زبان طرازی کے سبب چھتیس سال کی ہو جانے کے باوجود کنواری بیٹھی تھی۔ منظور
حسین نے بھائی کی بلی چڑھا کر مالی جتنے کی ٹھان لی تھی. صفدر نے انور سے
اپنی نسبت آگاہ کیا۔ غرض کی آنکھیں کچھ نہیں دیکھتیں۔ اس نے اپنے طور پر ہی
منگنی طے کر دی۔ اس کاربد میں کہانیاں سنا سنا کر مائی باپ کو بھی گرفت میں
لے لیا۔
صفدر نے لاکھ سمجھایا اور ان لوگوں کی اصلیت سے بھی آگاہ کیا کہ وہ اپنی
فطرت اور معاشرت میں اچھے نہیں ہیں۔ وہ سادات میں سے نہیں ہیں بلکہ فاطمہ
اور محسن کے قاتل کی نسل سے ہیں لیکن منظور حسین ان کی ظاہری چمک دمک اور
ناز نخروں کی گرفت میں آ چکا تھا۔ اپنے بیٹے خالد کے جوڑوں میں بیٹھا ہی‘
بھائی کو بھی لے ڈوبا۔ خالد کی بشری سے شادی کے لیے اس نے بھائی کو بلی کا
بکرا بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اپنے اس مقصد کے لیے ہر حیلہ حربہ استعمال کیا۔
صفدر کسی قیمت پر انور سے زیادتی نہیں کرنا چاہتا تھا انور بےقصور تھی۔
اسے آخر اس جرم کی کیوں سزا دی جاتی۔ دوسری طرف منظور حسین ان کو زبان دے
چکا تھا۔ رضیہ چھتیس سال کی ہو گئی تھی۔ رضیہ تقریبا چودہ سال سے اس کنبہ
کی کفالت کر رہی تھی۔ عمر بڑی ہو جانے کے سبب لوگ باتیں بنانے لگے تھے۔
انہیں باتوں کی تو رائی بھر پرواہ نہ تھی۔ وہ جانتے تھے کہ بہن کی کمائی تو
آنی ہی آنی ہے۔ ساتھ میں بہنوئی کی کمائی میں سے بھی حصہ آئے گا۔
بہت سی مجبویوں کی وجہ سے صفدر کو ہتھیار ڈالنا ہی پڑے۔ خاتون چوں کہ نخرے
دار تھی۔ اس حوالہ سے صفدر کو بصد مجبوری بہتر رہائش کا بندوبست کرنا پڑا۔
انور نے کسی کام کے سلسلہ میں پچیس ہزار روپے لیے۔ انور تو سراپا فراڈ تھا
کام کیا ہونا تھا۔ اس نے رشتے کا رائی بھراحترام نہ کیا۔ وہاں تو یہ نظریہ
پروان چڑھا تھا کہ بہن اور بہنوئی ہوتے کس لیے ہیں۔ رضیہ نے رکھ رکھاؤ اور
بھرم کے لیے دس ہزار دے دیا۔ پانچ ہزار مائی نے دیا جو رضیہ کا دیا ہوا
تھا۔ اس طرح صفدر کے سر سے پندرہ ہزار اتر گیے۔
زیبن کی سوئی سلائی تک ناصرہ لے گئی۔ وہ زیبن‘ جس سے صفدر محبت کرتا تھا‘
کی کوئی نشانی گھر میں نہ رہنے دینا چاہتی۔ بچے باطور نشانی بچے تھے کنور
ساتھ تھا اور باطور ملازم موجود تھا۔ اس سے اس نے تپڑیاں تک پھرائیں۔ چھوٹے
کو ایک لمحہ کو بھی گود میں نہ لیا۔ صفدر نے یہ زہر بچوں کے لیے پیا تھا۔
حسن مثنی ڈھائی سال بعد الله کو پیارا ہو گیا۔ یہ صدمہ صفدر کو آدھا کر
گیا۔ بڑے کے ساتھ بھی ناروا سلوک ہو رہا تھا۔
رضیہ نے چھوٹے سے کنور کو' صفدر کی بہن مقسوم اختر کے ہاں چھوڑنے کا منصوبہ
بنا لیا. صفدر تذبذب کی صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔ یہاں وہ بامشقت جیل کاٹ رہا
تھا۔ اس معاملے پر بحث بھی ہوئی۔ صفدر بہرصورت کنور کو اپنی آنکھوں کے
سامنے رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بہن کے کان میں پھونک دیا صاف انکار کر دے۔
اس انکار کا بھگتان بڑا مہنگا رہا۔
صفدر حالات کے ہاتھوں مجبور تھا۔ کیا کرتا‘ بھائی کا کیا اسے بھگتنا ہی
تھا۔ ناصرہ کو طلاق ہونے کو تھی۔ اس پر جس شخص کے حوالہ سے شک کیا جا رہا
تھا وہ ایسا نہ تھا۔ اصل کا نام تک نہیں لیا جا رہا تھا۔ صفدر نے اس کا گھر
بچانے کے لیے مسجد میں بیٹھ کر حلف دیا۔ ناصرہ کو صفدر نے' الیاس وغیرہ سے
غیر شرعی میل ملاقات سے منع کیا تواسے گندے خان دان کا کہا گیا۔
وقت ان ہی حالات میں گزرتا گیا۔ مردانہ ہارمون ہونے اور یوٹرس میں رسولی کے
سبب چار سال تک اولاد سے محرومی کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ آخر ڈیٹ آنا بھی
بند ہو گئی۔ صفدر نے یہ سب برداشت کیا۔ وہ کسی نئے رپھڑ میں نہیں پڑنا نہیں
چاہتا تھا۔ حالات نے اس میں دکھ برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی تھی۔
برداشت کے سوا اس کے پاس کوئی رستہ موجود نہ تھا۔
وہ ہر حال میں کنور کے مستقبل کو بہتر کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس نے ساری
توجہ اس مقصد پر مرکوز کر دی۔ صفدر نے کنور کے مستقبل کے لیے بیمہ کرایا۔
رضیہ کو معلوم ہو گیا گھر میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ صفدر نے رضیہ کا بھی بیمہ
کرایا اور پھر اس کھیل کو ہی ختم کر دیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس
معصوم بچے سے مقابلہ کرنے لگی۔
رضیہ کنور کی ضد میں اپنی بہن نجمی کے دونوں بچوں کو تعلیم کی خاطر گھر میں
لے آئی۔ صفدر نے انہیں باپ کی شفقت سے نوازا۔ بعد ازاں وہ اپنے ماموں زاد
کی بیٹی شبانہ کو بھی لے آئی۔ اس کے دوسرے ماموں کے بیٹے کو بھی لے آئی۔
صفدر نے سب بچوں کو ناصرف قبول کیا بلکہ پیار بھی دیا۔
صفدر کے بہن بھائی رضیہ کی زبان سے بےزار اور نالاں تھے اس لیے انہوں نے اس
کے ہاں آنا جانا ہی بند کر دیا۔ صفدر نے رضیہ کے بہن بھائیوں کو اپنا
سمجھتے ہوئے ان کی ہر غمی خوشی میں حصہ لیا۔ ان کے بچوں کی شادی پر بڑھ چڑھ
کر خرچ کیا۔
رضیہ کی ماں نے اندر خانے اپنی چھوٹی بیٹی بشری سے رضیہ کی ایما کے ساتھ
منصوبہ بنایا کہ وہ حاملہ ہے اگر بیٹی ہوئی تو رضیہ کو دے دینا۔ اس طرح
صفدر کے مستقبل کا رستہ بند ہو جائے گا جب کہ وہ اس حوالہ سے کسی قسم کا
اردہ ہی نہ رکھتا تھا۔ سوئے اتفاق بشری کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جو حسب
پروگرام رضیہ کی گود میں ڈال دی گئی۔ صفدر بچی کو پا کر خوش ہو گیا۔ زندگی
میں خوشیاں آ گئیں۔ صفدر نے بچی پر ہر خوشی نچھاور کر دی۔
محکمہ میں ہر روز کی پھڈے بازی اور بچی کی پرورش کے لئے رضیہ نے پنشن لے
لی۔ صفدر کو اس سے کیا فرق پڑنا تھا۔ دونوں کی کمائی کا بڑا حصہ وچاروں کی
فلاح وبہبود اور جان بنانے پر خرچ ہو جاتا تھا۔ وہ اس خدمت کو حقیر اور
ناکافی سمجھ رہی تھی۔ رہائشی مکان جو صفدر نے خرید کیا تھا' بار بار اور ہر
کسی سے کہتی پنشن میں ملنے والی رقم سے خرید کیا گیا ہے۔ کتنا بڑا جھوٹ اور
مذاق تھا۔ وہ تو پلے سے ماچس کی ڈبیا منگوانا گناہ کبیرہ سمجھتی تھی۔
رضیہ کو اس مد میں 369000 روپے ملے جس میں سے دو لاکھ قومی بچت میں رکھ
دئے۔ ایک لاکھ بشری کو دے دئے کہ ذاتی مکان کی خریداری میں کم پڑ گئے تھے۔
عدم ادائیگی کی صورت میں اسے ہارٹ اٹیک کا احتمال تھا۔ وچارے انور نے گھر
کا ڈیڑھ مرلہ کا مکان گروی رکھ دیا تھا۔ اس ذیل میں سرکاری بیلف آ پہنچا
تھا۔ رضیہ سمیت وچاری ناصرہ اور وچاری بشری کے علاوہ تمام بہنوں نے بیس بیس
ہزار ڈال کر وچارے حسن کی مدد کی جو ان دنوں وہاں اقامت رکھتا تھا۔ پندرہ
ہزار کا ٹی وی جب کہ ڈھائی ہزار کی ٹرالی خرید لی۔ ذاتی خریدداری بھی کی۔
تاہم اس ضمن میں وچاری ناصرہ کو نظرانداز نہ کیا گیا۔
رضیہ کو خوش رکھنے کے لیے ہر طریقہ اور ہر حربہ استعمال کیا۔ اسے سوا سولہ
تولے زیور بنا کر دیا۔ پوری تنخواہ اس کی ہتھیلی پر رکھتا معمولی سی تبدیلی
کے سوا کچھ نہ ہوا۔ کنور ان ناسازگار حالات میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ الله
نے اس میں تعلیم حاصل کرنے کا جنون رکھ دیا۔ ردعمل میں وہ تعلیم کی جانب مڑ
گیآ۔ الله نے اس پراحسان کیا اور اس نے معاشیات میں ماسٹر کر لیا۔ بعد ازاں
اسلامک یونی ورسٹی سے معاشیات میں ہی ایم فل کر لیا۔ اسے فنانس ڈویژن میں
ملازمت مل گئی۔ صفدر کو اس کی الله کے احسان سے کامیابیوں کی بےحد خوشی
ہوئی اور اس نے اطمنان کا سانس لیا۔
معقول ملازمت مل جانے پر رضیہ کو ماں کا رشتہ یاد آ گیا۔ اس نے کنور کی
شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے تو صفدر یہ کہہ کر
ٹالتا رہا کہ کنور ذرا مضبوط ہو جائے پھر اس معاملے کو طے کر لیں گے۔ مگر
کہاں گھر میں ہر وقت کل کل رہنے لگی۔
صفدر افسانہ نگار تو تھا ہی اس نے ایک کردار تخلیق کیا۔ ثمرین جو بہت بڑے
گھرانے کی تھی سے اپنے تعلق کو عام کر دیا۔ اس نے معروف کیا کہ ثمرین دو
بیٹیوں کی ماں ہے۔ رضیہ جانتی تھی کہ بچے صفدر کی سب سےبڑی کمزوری ہیں۔ اس
حوالہ سے اس معاشقے سچ مان لیا گیا۔ وہ صاحب قلم تھا' ملازم بھی تھا پارٹ
ٹائم بھی کچھ نا کچھ کرتا رہتا تھا۔ مزاجا عاشق مزاج نہ تھا۔ اس کے نزدیک
یہ عشق وغیرہ' وقت کے ضیاع اور دماغ کے بخار کے سوا کچھ نہیں۔ اس نے ایک
دوست کے بیٹے کو کہہ رکھا تھا کہ مس بل کر دیا کرے
وہ مس کال دے دیتا پھر یہ جھوٹ موٹھ کی خودکلامی کرتا رہتا۔ کئی بار ایسا
بھی ہوا کہ کہیں سے فون آ جاتا۔ وہ پھر بھی نہ سمجھ سکی کہ سب یوں ہی جا
رہا ہے۔ اس ڈرمے سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ توجہ بٹ گئی بلکہ اصل معاملہ ہی
ختم ہو گیا۔ ادھر معاملہ ختم ہوا ادھر ڈرامہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ
گیا۔ ہاں البتہ یہ عقیدہ راسخ ہو گیا کہ صفدر کی زندگی میں ثمرین نام کی
خاتون آئی تھی۔
رضیہ جب تک رات کو دودھ نہ پیتی' اسے نیند نہ آتی تھی۔ ماں کے ہاں آنے والے
دودھی سے دودھ لگوایا ہوا تھا۔ گھر پر رکھی نوعمر ملازمہ روزانہ دودھ لے
آیا کرتی تھی۔ شاید اس روز ماں گھر پر نہ تھی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
انور نے نوعمر ملازمہ پھاڑ ڈالی۔ ساری رات ہسپتال میں گزری۔ بلیڈنگ رکنے کا
نام نہ لے رہی تھی۔ صفدر سخت برہم ہوا۔ غصہ میں آ کر اس نے کاروائی کرنے کا
اظہار کیا۔ ہیما مالنی نے بھائی کے ڈیفنس میں کہا پہلے صفدر کر چکا تھا
حالاں وہ تو اسے اپنے بچوں کی طرح سمجھتا تھا۔ اسے موصوفہ کے اس بیان پر
سخت رنج ہوا۔ بجائے انور پر ناراض ہونے کے اسے شہ دی گئی۔
صفدر کی ماں آخری بیمار پڑی۔ صفدر اسے اپنے گھر لے آیا۔ رضیہ سے دیکھ بھال
کی درخواست کی۔ مگر کہاں' سسرالی تو اسے زہر لگتے تھے۔ صفدر رات کو اٹھ اٹھ
کر انہیں پیشاب وغیرہ کراتا۔ وہ اسے اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا۔ مائی باپ
کی خدمت اونچے نصیبے والوں کو میسر آتی ہے۔باپ کی بات اور تھی کہ وہ مرد
تھا۔ یہ ماں تھی لیکن تھی تو عورت ذات۔ وہ طہارت کرتے شرمندگی اور پشیمانی
میں غرق ہو جاتا۔ بیٹے کے گھر سے رخصت ہونا انہیں خوش نہ آتا تھا۔ باامر
مجبوری صفدر انہیں بڑی بہن کے ہاں چھوڑ آیا۔
رضیہ کی وچاری ماں باراں تالی آخری بیمار پڑی تو وہ اسے خذمت کے لئے گھر لے
آئی۔ جلد سونے کی عادی رات دیر تک جاگتی پاس بیٹھتی۔ حاجات میں معاونت پر
کراہت محسوس نہ کرتی۔
وچاری ناصرہ اپنے ڈنگ کی کرختگی کے زعم میں ڈینگی کو ڈنگ بیٹھی۔ پلیٹ لٹ
تینتیس پر آ گئے۔ تھیلا یبل اسے صفدر کے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ آفرین ہے
رضیہ نے خدمت میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھا۔ صفدر نے اس کا معالجہ کیا اور وہ
کافی دنوں بعد چنگی بھلی ہو گئی۔
اس کا لڑکا میٹرک نہیں کر پا رہا تھا۔ صفدر نے ناصرف امتحانی فییس وغیرہ
اددا کی بلکہ اسے پڑھایا بھی۔ بنیادی طور پر اس کا رجحان چوری اور سونے کی
طرف تھا' اس لئے کامیابی سے دور ہی رہا۔
ایک مرتبہ وچاری نجمہ عرف نجمی کے ہاں صفدر ہوریں چند گھنٹوں کے لئے ٹھہرے
ہوئے تھے۔ ناصرہ ڈنگی شریف بھی آئی ہوئی تھی۔ وچارہ حسن بھی آیا ہوا تھا۔
پتا نہیں اسے یہ کیوں سوجھا کہ اس نے حسن سے کہہ دیا کہ صفدر تمہیں گالیاں
نکال رہا ہے۔ حیرت یہ کہ حسن ایسا منہ پھٹ اور بدتمیز خاموش رہا۔ گھر آ کر
اس بات کا خوب چرچا ہوا۔ صفدر نے قرآن اٹھا کر اپنی صفائی دی کہ یہ تو غیر
منطقی سی بات ہے۔ آخر وہ اس کو کیوں گالیاں دے گا۔ کوئی وجہ بھی تو ہونی
چاہیے۔ یقین کرنے کی بجائے ڈنگی شریف کو سچا کیا گیا' کہ وہ غلط کہہ ہی
نہیں سکتی۔
تھیلے یبل کے چھوٹے بھائی طالب نے اس کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے لاہور میں
پانچ مرلہ زمین دی اور کہا کہ اڑھائی مرلہ میں رہائشی مکان بنا لو باقی
اڑھائی مرلہ میں درس بنا لو۔ ڈنگی شریف نے اس شیشے میں اترے اترائے سے
پانچوں مرلے اپنے نام کروا لئے۔ مکان وغیرہ بنانے میں رضیہ نے تعاون کیا۔
جب طالب کو اس بدمعاشی کا پتا چلا تو اس نے احتجاج کیا۔ جس پر سابقہ پیر
موجودہ سید حاجی وچارے حسن نے خوب زبان درازی و زبان طرازی کی۔ یہ بھی کہا
کہ اس کا ایک لڑکا ہے اور وہ بھی حرامدا اے' اس کے لئے ترلے لیتا ہے۔ اس کے
وہم وگمان میں بھی نہ رہا کہ اس کی بہن شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی
الیاس وغیرہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتی آ رہی ہے۔
نیت اچھی ہو تو تھوڑے میں برکت پڑ جاتی ہے ورنہ دنیا کی بادشاہی بھی مل
جائے تو آنکھ سیر نہیں ہوتی۔
رضیہ نے عمرہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ صفدر کہوتے سے کہا کہ ساری بہنیں عمرہ
پر جا رہی ہیں میں بھی جانا چاہتی ہوں پیسوں کی کمی ہے۔ صفدر کہوتے کو خلوص
اور احترام حرم میں یہ بھی یاد نہ رہا کہ پنشن کے پیسے کہاں گئے جو وہ
سالوں سے لے رہی ہے۔ اس نے گھر یا صفدر کہوتے پر ایک اکنی تک کبھی خرچ نہیں
کی۔ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ ایک بار اسے سخت ضرورت آ پڑی تھی تو رضیہ نے
صاف انکار کر دیا تھا۔ پھر کئی دن بعد کہا ناصرہ کے لئے بیس ہزار زکوات
نکالی ہے۔ یہ بیس ہزار رو دھو کر دے ہی دئے۔
اس نے رضیہ کو عمرہ کے لئے پینتیس ہزار روپے دئے ساتھ لے جانے کے لئے پچیس
ہزار دئے۔ جب واپسی ہوئی تو دل و جان سے خیرمقدم کیا۔ رضیہ نے بڑی ایمان
داری سے بائیس ہزار واپس کر دئے۔
اس نے ماں کو بھی عمرہ کروایا۔ نام سعیدہ کا دیا۔ اس سعیدہ کا جو جوں مار
کر نہ دینے والی رہی ہے۔ اسے لینا آتا تھا دینا اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ایک
بار کچھ لے گئی تو واپسی کا درروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیتی۔ مہمان نواز
بلا کی تھی۔ مہمان کو دروازے کے اندر طہارت کدے کے قریب کرسی بچھا کر دیتی۔
چائے پانی کے لئے مہمان خود ہی ہوٹل کی راہ لیتا۔ ہاں جنسی تسکین کے امین
کو ذاتی کمرے میں بڑی عزت اور احترام سے بٹھاتی۔
صفدر کہوتہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ریٹائر ہوا۔ رضیہ نے تمام سلے ان سلے کپڑے
اپنے وچاروں کو دے دئے۔موقف یہ اختیار کیا اس کے اتنے زیادہ کپڑے تھے ہی
کب۔ دوسرا اس نے کپڑے کیا کرنے ہیں۔ گھر پر ہی تو بیٹھے رہنا ہے۔ صفدر
کہوتہ لنڈے سے دو جوڑے لے آیا اور ان ہی سے کام چلانے لگا۔
صفدر نے پچاس سال لکھنے پڑھنے کا کام کیا۔ اس نے تقریبا سترہ فیلڈز میں کام
کیا۔ اس کے کام پر چار ایم فل اور ایک بی اے آنرز کا مقالہ ہو چکا تھا۔ ایک
ہو رہا تھا۔ وہ خود اپنے کام کی جمع بندی کے ساتھ ساتھ نادر مخطوطوں پر کام
کر رہا تھا۔ اس نے اس نادر خزانے کو محفوظ کرنے کے لئے گیلری بنانا چاہی
اور تخمینے کے لئے مستری کو بلایا۔ رضیہ صحن میں چہاٹا کھول کر بیٹھ گئی
اور خوب تماشا بنایا۔ پھر صفدر نے انہیں ڈبوں میں بند کرکے ایک صندوق میں
بند کرکے رکھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اچانک وچارہ حسن اور اس کی بیٹی آ ٹپکے۔
دیر تک بیٹھ کر چلے گئے۔ صبح رضیہ بہن کے گھر چلی گئی۔ اسٹریلیا سے کنور نے
ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ ناراض ہو کر گئی ہیں۔ صندوق جگہ گھیرے گا وہ وہاں
چھنیاں کولیاں اور لکڑیاں رکھنا چاہتی تھی۔ اس میں تماشا بننے اور بنانے کی
ضرورت ہی کیا تھی۔ منع کرتی صفدر کہوتہ منع ہو جاتا۔
صفدر کی بہن نصرت شگفتہ اس کی اولاد کی کمی اور ابتر حالت سے پریشان تھی۔
اس نے امام مسجد کی ان پڑھ اور طلاق یافتہ بیٹی کا رشتہ تلاشا۔ صفدر اس
رشتے کے لئے تیار نہیں ہو رہا تھا۔ اسے منانے میں سال سے زیادہ عرصہ لگ
گیا۔ رشتہ ہو گیا۔ حرامدہ' کنجر' انترا' سکھ' کافر وغیرہ زکرا کا تکیہءکلام
تھا۔ صفدر نے اس کے باپ کو بلایا اور کہا' خدا کے لئے اسے لے جاؤ۔ دس دن
بعد' اس کی بہن واپس چھوڑ گئی۔ حیرت انگیز افاقہ ہوا۔ الله نے صفدر کو حیدر
امام سے نوازا۔ رضیہ نے اسے شریک قرار دیا۔ کنور جس کا اسے شریک کہا جا
سکتا ہے حیدر امام کو پا کر خوش تھا۔ اصل میں وہ شریک وچارے حسن اور حسن
زادے کا تھا۔
سوال یہ تھا صفدر نے خود کفیل ہوتے اتنی بےبسی اور بےچارگی کی زندگی کیوں
گزاری۔ اس سے سوال کیا گیا اس نے اتنی بےبسی اور بے چارگی کی زندگی کیوں
گزاری۔ اس نے جوابا کہا یہ نبیوں پیروں فقیروں سے یہ ہی کچھ کرتی آئی ہیں
میں بھلا کس کھیت کی مولی ہوں۔ اگر میں تصادم کی راہ اختیار کرتا تو بیالیس
کلو سے زیادہ کام کس طرح کر پاتا۔ یہاں کچھ رہنے کا نہیں۔ یہ چھنیاں کولیاں
یہاں ہی پڑی رہ جائیں گی۔ ہو سکتا ہے میرا ناچیز کام آتی نسلوں کے کام کا
نکلے اور اس عہد کی گواہی ثابت ہو۔ اس نے یہ بھی کہا پیسے یا چھنیوں کولیوں
سے کبھی دل چسپی نہیں رہی اور نہ ہے۔ یہ سب نہ میرا تھا اور نہ میرا ہے۔
الله میرے میرے کنور اور حیدر کو سلامت رکھے۔ انہیں آپسی محبت سے نوازے۔اس
کا کہنا کہاں تک درست ہے سردست کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کا فیصلہ آتا وقت
ہی کرے گا۔ |