مانگ لو، مانگ لو، چشم تر مانگ
لو،
درد دل اور حسن نظر مانگ لو،
کملی والے کی نگری میں گھر مانگ لو،
مانگنے کا مزا آج کی رات ہے۔
یہ وہ مبارک رات ہے جس میں ہر مانگنے والے کی مراد بر آتی ہے، ہر طالب رحمت
کو جوار رحمت میں خاص جگہ ملتی ہے، ہر مغفرت کے سائل کو برملا معافی اور
گناہگار کو عفوت کا گھنا سایا ملتا ہے سوائے دو اشخاص کے۔۔۔ ایک وہ جو الله
کی ذات کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود بنا لے، جسے عام اصطلاح میں شرک کہتے
ہیں جسے الله کی ذات کبھی گوارا نہیں کر سکتی۔۔۔ محبت و عقیدت کو توحید کا
ہی قائل ہونا چاہیے ورنہ نظر کے شرک والوں سے ہمیشہ محبتیں روٹ جایا کرتی
ہیں اور خدا تعالی کی ذات تو ویسے بھی صمد ہے، وہ تو شرک والوں پر دوسری
نظر ڈالنا بھی توہین سمجھتی ہے۔ اسلیے یہ نقطہ تو سمجھ آتا ہے کہ اس رحمت
بھر رات کی معرفت سے مشرک کیوں محروم ہیں لیکن اصل آزمائش تو اس شخص کے لیے
ہے جسے الله سے محبت بھی ہے اور اسکے احکام سے عقیدت بھی، لیکن پھر بھی وہ
مغفرت کی نعمت سے محروم رہتا ہے وہ شخص وہ نامراد ہے جو لوگوں کیلیے دلوں
میں کینہ اور بغض رکھتا ہے۔ جو نمازی بھی اور حاجی بھی، اذان بھی دیتا ہے
اور زکوتھ بھی، تپتی دوپہروں میں الله کی خوشنودی کیلیے اکیس گھنٹے بھوکا
پیاسا بھی رہتا ہے اور حق کی خاطر جان بھی دے سکتا ہے، قتل کو گناہ کبیرہ
سمجھتا ہے اور زنا کو ظلم عظیم۔ سود بھی نہیں لیتا اور رشوت دینا بھی حرام
سمجھتا ہے، رزق بھی حلال کھاتا ہے اور مفلسی پہ صبر کرنا بھی جانتا ہے لیکن
پھر بھی اسکی مغفرت نہیں ہوتی۔ آخر وہ کونسا ایسا گناہ ہے جس نے اس سارے
ثواب کو حیث کر دیا، نےمول کر دیا، بدمزہ کر دیا۔۔ وہ کونسا جرم ہے جسے اس
مبارک رات کے صدقے بھی دریائے رحمت کے جوش کو ٹھنڈاکر دیا۔۔۔ وہ عظیم گناہ
کسی بھی شخص کیلیے کینہ رکھنا، دشمنی پالنا، اسکے خلاف اپنے دل میں وسوسے
رکھنا ہے، اور سوچیں تو اس فعل کی سرزنش زنا اور قتل سے بھی زیادہ ہے، وہ
ذات جو جوش رحمت میں آکر ایک منکرہ کو کتے کی تیمارداری کے عوض جنت بھیج
سکتی ہے وہ کینہ پرور کیلیے اتنی سخت کیوں ہے۔۔۔۔ میں سوچتی ہوں اگر معافی
کی یہی شرط ہے تو کیا مجھے اور آپکو معافی مل جائے گی؟ کیا ہمارے دلوں میں
کسی کے لیے غصہ تو کسی کے لیے نفرت، کہیں جھوٹی انا تو کہیں خودداری کی آگ
نہیں ہے؟ کیا ہم چھوٹے موٹے جھگڑوں میں بڑی بڑی ناراضگیاں نہیں مول رہے؟
حضرت علی کا قول ہے کہ اگر معافی مانگنا اور صلح میں پہل کرنا تمہاری
کمزوری ہے تو تم دنیا کے بہادر ترین شخص ہو،لیکن کیا ہماری انا اور خوداری
ہمیں یہ سب کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ معافی مانگنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا
کہ ہم غلطی پر ہیں اسکا مطلب صرف اپنی آخرت سدھارنا ہے۔ مجھے اس شخص کے
جرات پر حیرت ہوتی ہے جو الله کا سامنا کرنے مسجد حرام پہنچتا ہے لیکن سینے
میں وہ کینہ اور ناراضگیاں لیے ہوے ہے جسے الله کی رحمت کو جوش نیں قہر آتا
ہے۔ دلوں میں بغض اور طواف پہ طواف ہو گا تو کعبے کو ہمارے لگائے ہوئے
چکروں سے حیرت ضرور ہوگی.
یہ مسئلہ میرا اور آپکا نہیں ہم سب کا ہے، یہ کمزوری ہماری اجتماعی کمزوری
ہے، کہتے ہیں کہ جب تم اپنے عزیزوں اور رشتےداروں سے چڑنے لگو تو جان لو کہ
تمہارا الله تم سے ناراض ہے، اور جب الله ناراض ہو جاتا ہے تو کوی عبادت
قبول نہیں ہوتی، کوئ دعا بارگاہ الہی تک نہیں پہیچتی اور کبھی سکوں کی دولت
ہاتھ نہیں آتی۔
خدارہ عبادت ضرور کریں، دعائیں ضرور مانگیں لیکن پہلی دعا یہ مانگیں کہ
الله ہمارے دلوں کی سختی اور بغض دور کر دے، اور ہماری انا ہمارے حصے کی
رحمت کے آڑے نہ آے۔ آًمین۔ |