ہمارا یہ ملک پاکستان کس قدر اہم
تزویراتی خطہ ہے اس کی بہت سوں کو سمجھ پاک چین اکنامک کوریڈور(اقتصادی
راہداری) کے موقع پر آئی جس پر ہماراازلی دشمن بھارت بہت سیخ پا ہورہا ہے ۔ہمارا
ملک اس وقت عالمی تجارت میں کس قدر اہم ہے اس کی مثال حالیہ اقتصادی
راہداری معاہدے سے بخوبی لگ سکتی ہے جو پاکستان اور چین کے درمیان ہورہا ہے
۔چین دنیاکی ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور بہت جلد وہ ہرلحاظ سے امریکہ کو اس
ترقی میں پیچھے چھوڑ دے گا۔اس وقت بھی چین گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ میں امریکہ
کو پچھاڑ چکا ہے۔1978ء سے اب تک اس کی ترقی کی شرح 9.5فیصد رہی ہے اور
ماہرین معیشت کی رائے کے مطابق 2020ء تک اس کی ترقی کی شرح اوسطاََ7.3فیصد
کے حساب سے ہوگی ۔چین یہ شرح اور رفتاراسی وقت برقرار رکھ سکتا ہے جب اسے
عالمی منڈیوں تک آسان،تیزاور سستی رسائی حاصل ہوگی اور یہ رسائی پاکستانی
راہداری کے بغیر ممکن نہیں ۔
پاکستان کا محل وقوع اس قدر اہم ہے کہ اس کے بغیر اس خطے میں کوئی بھی ملک
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔اﷲ کی یہ خاص عنایت ہے جس کا
احساس ہمیں بہت پہلے ہوجاناچاہیئے تھا ۔سیاسی قیادت کا اقتصادی راہداری پر
اتفاق رائے ہونا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ سیاست دا ن ملکی مفاد کے
پیش نظر اپنے اختلافات بھلاکر ایک فورم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں جو کہ ہمارے
لئے ایک خوش آئند بات ہے اور ہمارے رہنماؤں کی بالغ ذہنی کو ظاہر کرتا
ہے۔قارئین آپ کو یاد ہوگا جب دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی فوج نے
’’ضرب عضب ‘‘ آپریشن شروع کیا تھا تو ہمارے بہت ہی قریبی ازلی دشمن بھارت
نے اس میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی تھی تاکہ اس کی لے پالک اولاد بچ سکے ۔لیکن
پاکستانی قوم اورسیاست دانوں کے اتحاد واتفاق اور افواج پاکستان کے عزم مصم
نے دہشت گردی کے اس عفریت پر نہ صرف قابو پایا بلکہ ایک لمبے عرصے بعد
غیرملکی کرکٹ ٹیم قذافی سٹیڈیم لاہور میں ایک پرامن ماحول میں سیریز کھیل
کرگئی۔
آج بھی اکنامک کوریڈور کو لے کر بھارتی سرکار کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں
اور وہ اس کو کسی بھی صورت میں تباہ کرنے کے درپے ہے ۔جس کی مثال بھارتی
وزیرخارجہ سشماسوراج کابیان ہے ’’بھارت ہمسایہ ممالک چین اور پاکستان کے
درمیان اقتصادی راہداری کے سخت خلاف ہے اور وزیراعظم نریندرمودی جب چین
دورے پر گئے تو مذاکرات میں اس منصوبے کی سخت مخالفت کی تھی اور بتادیا تھا
کہ ہمیں یہ منصوبہ قبول نہیں‘‘اس کے جواب میں وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال
نے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’بھارت
کو پاکستان میں ترقی و خوش حالی کا عمل راس نہیں آرہا‘‘
اس وقت پاکستان کی سیاسی قیادت اور عوام ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر ایک
پرامن اور ترقی یافتہ ملک کی طرف بڑھنے کی کوشش میں ہیں ۔ دشمن کو تو یہ
امید تھی کہ کالا باغ ڈیم کی طرح یہ منصوبہ بھی باہمی اختلافات کا شکار
ہوکر کاغذی کاروائی بن کررہ جائے گی۔لیکن اس بار سیاسی لوگوں کی دوراندیشی
نے اس مشکل کو آسان بنادیا اور اقتصادی راہداری پر مکمل اتفاق رائے کیا گیا
گو ہمارے دشمن نے کبھی اہل تشیع کو،کبھی دیوبندیوں کواور کبھی دیگر اقلیتوں
کونشانہ بناکر ہمارے اندر اختلافات اور بدامنی کوہوا دینے کا ناکام کوشش کی۔
ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کو شروع دن سے ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔
اب بھی ان لوگوں کا خواب اکھنڈ بھارت ہی ہے اور جب سے نریندرمودی بھارت کا
وزیراعظم منتخب ہوا ہے تب سے اس اکھنڈ بھارت کے منصوبے میں تیزی آئی ہے ۔پاکستان
میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کا ملوث ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں
خصوصاََ ان اداروں اور افراد کے لئے جن کا اوڑھنا بچھونا ’’نظریہ پاکستان
‘‘ ہے ۔اب تو وہ لوگ بھی ان باتوں کو مان رہے ہیں بلکہ برملا اظہار کررہے
ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت ملوث ہے جوکبھی بھارت کو
دوست ملک اور سرحدوں کوتوڑنے کی باتیں کیا کرتے تھے ۔خیر ’’ دیرآید درست
آید‘‘ کے مصداق اب ان کو ایسے اقدامات کرنے چاہیئے کہ ان کی پچھلی کوتاہیوں
کو عوام بھلا سکیں اور ملک پاکستان ایک پرامن اورخوش حال ملک کے طور پر
دنیا کے سامنے ابھر سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اپنی آنکھیں اور کان
کھلے رکھنے ہیں کیوں کہ ہمیں جس دشمن سے پالا پڑا ہے وہ ایک ہندو ہے جس سے
لگنے والے زخموں سے آج بھی خون رستا ہے ۔وہ اس راہداری کو ختم کرنے اور پاک
چین دوستی میں دراڑ ڈالنے کی مکمل کوشش کررہا ہے اب یہ ہمارا فرض ہے کہ چین
نے جس طرح ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہم پر اپنی دولت کے دروازے واء کئے ہیں
ہم اس پر پورا اتریں۔ |