حقیقتِ روزہ

تحریر: خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہم کو خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! ایک بہت بڑے مہینہ نے تم پر سایہ کیا ہے‘ اللہ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔اس ماہ میں جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ کی طرف ’’قرب‘‘ چاہے اس کو اس قدر ثواب ملتا ہے کہ گویا اس نے فرض ادا کیا۔ جس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔ وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے‘ وہ مساوات‘ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور جو ایک روزہ دار کو روزہ افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کمی نہیں آتی۔‘‘
ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم میں سے ہر شخص روزہ افطار نہیں کروا سکتا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ‘ ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کرواتا ہے۔ جو روزہ دار کو سیر ہو کر کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا‘ وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت‘ درمیانہ حصہ بخشش اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے‘ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (نوکر) کا بوجھ ہلکا کر دے اللہ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ (مشکوۃ شریف)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ ‘‘
رمضان ’رمض‘ سے مشتق ہے اور عربی زبان میں رمض کے معنی جلانا کے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے‘ اس لیے اس کانام رمضان المبارک ہے۔ روزہ کے لیے عربی زبان میں لفظ صوم استعمال کیا جاتاہے‘ جس کے معنی رکنے اور باز رہنے کے ہیں۔ روزہ کی حالت میں مسلمان فجر سے لے کر مغرب تک حلال چیزیں کھانے پینے سے رکا رہتا ہے‘ اس لیے اسے صوم کہتے ہیں۔

روزہ کی فرضیت:

رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم 02 ھ میں تحویلِ قبلہ سے کم و بیش پندرہ روز بعد نازل ہوا۔

روزہ کی فرضیت کا مقصد
ہر عبادت یا کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے‘ روزوں کا مقصد کیا ہے؟ آئیں دیکھتے ہیں قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (البقرہ۔ 183)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ روزوں کی فرضیت کا مقصد مسلمان کو متقی یعنی مومن بنانا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یعنی تقویٰ والا ہے۔ ‘‘
اب تقویٰ کیا ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایک مرتبہ تقویٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔
تقویٰ اصل میں قلب(باطن) کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا نام ہے۔ جس قدر کسی کا قلب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا ہے وہ اسی قدر متقی ہوگا یعنی تقویٰ قربِ الٰہی کا نام ہے۔ روزہ انسان کو قربِ الٰہی میں لے جاتا ہے‘ اسعبادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود ہوں‘‘ یعنی روزہ کی جزا قربِ الٰہی ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ:’’یہ کتاب تقویٰ والوں کو راہ دکھاتی ہے۔‘‘ (البقرہ)
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک سے ہدایت صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو متقی ہوتے ہیں۔
تقویٰ کا پہلا درجہ یہ ہے کہ جس چیز پر علماء اور فقہا کا فتویٰ ہے اس سے بچنا ضروری ہے‘ یہ عام مسلمانوں کا تقویٰ ہے۔ دوسرا درجہ مشتبہ چیزوں سے پرہیز ہے یعنی شریعت میں کسی چیز کو بظاہر حلال کر دیا گیا ہے لیکن مشتبہ کہلاتی ہے‘ تو اس سے گریز صلحا کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجہ پر وہ متقی ہیں جو حرام ہو جانے کے اندیشہ سے بھی گریز کرتے ہیں۔ یہ’’اتقیاء‘‘ کا درجہ ہے۔ چوتھادرجہ ان چیزوں سے گریز کا ہے جن سے عبادات و اطاعت پر قوت حاصل نہیں ہوتی یہ’’صدیقین‘‘ کا تقویٰ ہے۔ گویا پہلا درجہ جو عوام کا تقویٰ ہے‘ ترکِ کفر و شرک ہے۔ دوسرا درجہ جس میں شرع کی منہیات سے پرہیز اور گناہ کے ترک کرنے کا حکم ہے، یہ متقیوں کا تقویٰ ہے۔ تیسرے درجے پر خواص کا تقویٰ ہے جو عبادات و ریاضت میں خطرات کو کم کرتا ہے‘ چوتھے درجہ پر وہ ہیں جو ہر لمحہ ترکِ ماسویٰ اللہ پر قائم ہیں اور دنیا کا کوئی خطرہ دل میں نہیں آنے دیتے، نفس اور شیطان سے خلاصی پاچکے ہیں۔ یہ خاص الخاص یعنی عارفین کا تقویٰ ہے‘ یہی اہلِ تقویٰ اللہ کے محبوب ہیں۔
یعنی روزہ کا اصل مقصد متقی بنانا ہے۔ اگر تقویٰ حاصل ہوگا تو قرآنِ کریم سے راہنمائی‘ نور اور صراطِ مستقیم حاصل ہوگا اور تقویٰ کی کس منزل تک پہنچنا چاہیے اس کی قسمیں بیان کر دی گئی ہیں۔ جس طرح انسان دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب اور اعلیٰ سے اعلیٰ زندگی کے حصول کی کوشش کرتا ہے، اسے اسی طرح تقویٰ کی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل اور مرتبہ کی کوشش کرنی چاہیے اور رمضان المبارک ان لوگوں کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم طلب کریں اور تقویٰ کے حصول کی کوشش کریں۔

روزہ کی جزا:
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیتا ہوں‘ لیکن روزہ میرے لیے خاص ہے اس کی جزا میں خود ہوں۔‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’صبر نصف ایمان ہے اور روزہ نصف صبر ہے‘‘ اور فرمایا ’’روزہ دار کے منہ کی بو خدا کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بہتر ہے۔‘‘ حق تعالیٰ فرماتا ہے’’میرے بندے نے کھانا پینا اور جماع میرے لیے چھوڑ دیا‘ میں ہی اس کی جزا دے سکتا ہوں‘‘ اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے’’روزہ دار کا سونا عبادت‘ سانس لینا تسبیح اور دعا بہترین اجابت ہے‘‘ اور فرمایا’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اور ایک منادی کرنے والا پکارتا ہے ’’اے طالبِ خیر جلد تیرا وقت ہے اور اے طالبِ شر ٹھہر جا کہ تیری جگہ نہیں۔ ‘‘

روزہ کے فرائض:
چاند کا دیکھنا فرض ہے لیکن اگر حاکمِ وقت شہادتوں کی بنا پر چاند نظر آنے کا اعلان کر دے جیسا کہ ہمارے ہاں رویتِ ہلال کمیٹی ہے تو ہر شخص کی طرف سے چاند دیکھنے کا فرض ادا ہو جائے گا۔
نیت: کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے نیت کی جاتی ہے تاکہ اس سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جاسکے۔ دیگر کاموں کی طرح روزے کی نیت کرنا بھی ضروری ہے‘ جیسے اگر کسی نے بغیر نیت کے روزہ رکھا اور روزے کے ممنوعات سے گریز کیا تو وہ روزہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے رات کو روزے کی نیت کرلی پھر اس کا ارادہ نہ رکھنے کا ہوگیا تو اس کی نیت ختم ہوگئی لہٰذا دوبارہ نیت کرنی ہوگی۔ اگر کسی شخص نے روزے کے دوران توڑنے کی نیت کرلی لیکن پھر توڑا نہیں تو اس کا روزہ برقرار ہے‘ اس نیت کا روزے پر اثر نہیں پڑتا۔ اس بارے میں حضرت حفضہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے۔‘‘
صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے‘ جماع کرنے اور ہر اس چیز سے جو کسی بھی جگہ سے پیٹ تک پہنچتی ہے‘ خود قے کرنے یا ایسا کام کرنے سے جو انزال کا باعث ہو، پرہیز کرے۔
مذکورہ بالا امور کی خلاف ورزی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور کفارہ لازم آئے گا‘ کفارہ میں غلام آزاد کرنا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
بھول چوک کر کھانے‘ عمداً قے نہ کرنے بلکہ خود بخود ہو جانے سے روزہ باطل نہ ہوگا‘ افطار کے بعد بیویوں کے پاس جانا حلال ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے‘ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے‘ سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا۔ پس اب (رمضان کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے‘ چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو‘ یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے۔ پھر روزہ رات کی آمد تک پورا کرو اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو۔ یہ اللہ کی قائم کردہ حدیں ہیں‘ پس ان کے توڑنے کے نزدیک نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ لوگوں کے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ (البقرہ۔ 187)

روزہ کی قضا:
مسافر اور بیمار کے لیے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے‘ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یہ گنتی کے چند دن ہیں پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو‘ ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے۔ پھر جو کوئی اپنی خوشی سے زیادہ نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے‘ اگر تمہیں سمجھ ہو۔ ‘‘(البقرہ)
خواتین اپنے مخصوص ایام میں روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن اس کی قضا واجب ہوگی‘ رمضان کے بعد گن کر دن پورے کرلیں۔

روزہ طریقت و حقیقت:
پیرانِ پیر غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
روزہ شریعت یہ ہے کہ انسان دن کو کھانے پینے اور جماع کرنے سے باز رہے اور روزہ طریقت یہ ہے کہ انسان ظاہر و باطن میں رات دن اپنے تمام اعضاء کو شریعت میں حرام اور ممنوعہ چیزوں اور تمام بُرائیوں مثلاً تکبر‘ غرور‘ حسد، لالچ ، کینہ‘ بغض‘ خودپسندی اور عُجب وغیرہ سے باز رکھے۔ اگر وہ مذکورہ بالا بُرائیوں میں سے کسی ایک کا بھی ارتکاب کرے گا‘ تو اس کا روزہ طریقت باطل ہو جائے گا۔ روزہ شریعت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن روزہ طریقت عمر بھر کا دائمی روزہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ کتنے ہی روزے دار ہیں جو افطار کرنے والے ہیں اور کتنے ہی افطار کرنے والے ہیں جو (افطاری کے باوجود) روزے سے ہوتے ہیں‘ یعنی وہ اپنے اعضاء کو مناہی (شریعت میں ممنوعہ باتوں) اور لوگوں کو دکھ دینے سے باز رہتے ہیں۔ چنانچہ حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کی خوشی اور دوسری روئیت (دیدار) کی خوشی‘‘ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور کرم سے ہمیں بھی یہ خوشیاں عطا فرمائے۔ اہلِ شریعت نے یہاں افطار سے مراد ’’غروبِ آفتاب کے وقت کھانا پینا‘‘ لیا ہے اور روئیت سے مراد ’’ہلالِ عید دیکھنا لیا ہے‘‘ لیکن اہلِ طریقت فرماتے ہیں کہ افطار سے مراد ’’جنت میں داخل ہونا اور اس کی نعمتیں کھا کر روزہ طریقت افطار کرنا‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور آپ کو بھی یہ نصیب فرمائے اور روئیت سے مراد ’’چشمِ سِرّ (نورِ بصیرت) سے دیدار الٰہی سے مشرف ہونا‘‘ ہے۔
ایک روزہ حقیقت ہے اور اس سے مراد فواد (دِل) کو طلبِ ماسویٰ اللہ سے پاک کرنا اور سِرّ کو مشاہدۂ غیر اللہ کی محبت سے پاک رکھنا ہے۔ چنانچہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’انسان میرا سِرّ (بھید) ہے اور میں انسان کا سِرّ ہوں۔ سِرّ اللہ تعالیٰ کے نور سے ہے اس لیے اس کا میلان غیر اللہ کی طرف ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کا دنیا اور آخرت میں سوائے ذاتِ حق تعالیٰ کے کوئی محبوب و مرغوب و مطلوب نہیں۔ اگر وہ غیر اللہ کی محبت میں مبتلا ہو جائے تو روزہ حقیقت فاسد ہو جاتا ہے۔ اس کی قضا یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں غیر اللہ کی محبت سے تائب ہو کر دوبارہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اسی کی محبت ولقا (دیدار) میں غرق ہو جائے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔‘‘ (سر الاسرار)
حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روزہ تین درجات میں منقسم ہے۔
روزہ عوام کا۔
روزہ خواص کا۔
روزہ خواص الخواص کا۔
عوام کا روزہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے اس کی غایت کھانے پینے اور جماع کرنے سے پرہیز کرنا ہے اور یہ سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔ لیکن خواص الخواص کا روزہ بلند ترین درجہ رکھتا ہے اور اپنے دل کوماسویٰ اللہ تعالیٰ کے تمام اشیاء سے خالی کرنا ہے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنا ہے۔ اس سے مراد ظاہری و باطنی طریق پر روزہ رکھنا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا دوسری باتوں سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا روزہ کھل جاتا ہے اور اگرچہ دنیاوی اغراض میں غور کرنا مباح ہے لیکن یہ روزہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے مگر جو (غور و فکر) دین کی راہ میں مددگار ہو وہ دنیا میں داخل نہیں۔ حتیٰ کہ علماء نے کہا ہے کہ آدمی دن کو اگر افطاری کی تدبیر کرے تو اس کے نام پر گناہ لکھ دئیے جاتے ہیں کیونکہ یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ رزق کے بارے میں جو حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اس شخص کو اس کا یقین نہیں۔ یہ مرتبہ انبیاء اور صدیقوں کا ہے۔ ہر ایک اس مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔ خواص کا روزہ یہ ہے کہ آدمی فقط کھانا، پینا، جماع کرنا نہ چھوڑ دے بلکہ اپنے تمام جوارح کو حرکاتِ ناشائستہ سے بچائے اور یہ روزہ چھ چیزوں سے پورا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ آنکھ کو ایسی چیزوں سے بچائے جو خدا کی طرف سے دل کو پھیرتی ہیں۔ خصوصاً ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرے جس سے شہوت پیدا ہوتی ہے کیوں کہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔ جو شخص خوفِ خدا کے تحت اس سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے ایمان کی ایسی خلعت عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ جناب سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات نے فرمایا ہے کہ پانچ چیزیں روزہ کو توڑ ڈالتی ہیں۔ ۱۔ جھوٹ۔ ۲۔ غیبت۔ ۳۔نکتہ چینی۔ ۴۔ جھوٹی قسم کھانا۔ ۵۔ شہوت سے کسی کی طرف نظر کرنا۔ دوسری چیز جس سے روزہ پورا ہوتا ہے، یہ ہے کہ بے ہودہ گوئی اور بے فائدہ بات سے زبان کو بچائے۔ ذکرِ الٰہی یا تلاوتِ قرآنِ پاک میں مشغول رہے یا خاموش رہے۔ بحث اور جھگڑا بیہودہ گوئی میں داخل ہے‘ لیکن غیبت اور جھوٹ بعض علماء کے مذہب میں روزۂ عوام کو بھی باطل کرتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں دو عورتوں نے روزہ رکھا اور پیاس کے مارے ہلاکت کے قریب ہو گئیں‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روزہ توڑنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا کہ اس میں قے کریں، دونوں کے حلق سے خون کے ٹکڑے نکلے۔ لوگ اس ماجرے سے حیران ہوئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ان دونوں عورتوں نے ان چیزوں سے جو خدا نے حلال کی ہیں، روزہ رکھا اور جو اس نے حرام کی ہیں اس سے توڑ ڈالا، یعنی کسی کی غیبت کی ہے اور یہ خون آدمیوں کا گوشت ہے جو انہوں نے کھایا۔ تیسرے یہ کہ کان سے بُری بات نہ سنے کیونکہ جو بات کہنی نہ چاہیے وہ سننی بھی نہ چاہیے۔ غیبت اور جھوٹ کا سننے والا بھی کہنے والے کے گناہ میں شریک ہے۔ چوتھے یہ کہ ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضاء کو ناشائستہ حرکتوں سے بچائے۔ جو روزہ دار ایسے بُرے کام کرتا ہے‘ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بیمار ہونے سے تو پرہیز کرے لیکن زہر کھائے کیونکہ گناہ زہر ہے اور طعام غذا ہے‘ مگر زیادہ کھانے میں نقصان ہے۔ ہاں اصل غذا مضر نہیں اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا روزہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پانچویں یہ کہ افطار کے وقت حرام اور مشتبہ چیز نہ کھائے۔ نیز حلال خالص بھی بہت نہ کھائے اس لیے کہ دن کا حصہ بھی جب رات کو کھا لے گا تو کیا فائدہ۔ روزے سے مقصود تو خواہشات کا توڑنا ہے اور دوبار کا کھانا ایک ہی بار کھا لینا خواہش میں اضافہ کرتا ہے، خصوصاً جب طرح طرح کا کھانا ہو۔ جب تک معدہ خالی نہ رہے گا دل صاف نہ ہوگا۔ بلکہ سنت یہ ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے، جاگتا رہے تاکہ بھوک اور ضعف کا اثر محسوس کرے۔ جب رات کو تھوڑا کھانا کھا کے جلدی سو جائے گا توتہجد کی نماز پڑھ سکے گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھرا ہوا برتن معدہ سے بدتر نہیں ہے۔ چھٹے یہ کہ افطار کے بعد اس کا دل اس خیال میں رہے کہ نہ معلوم روزہ قبول ہوا یا نہیں۔
حضرت امام خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ عید کے دن ایک قوم کے پاس سے گزرے وہ ہنس کھیل رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے ماہِ رمضان کو گویا ایک میدان بنایا ہے تاکہ اس کے بندے اطاعت و عبادت میں پیش قدمی اور اضافہ کریں۔ ایک گروہ سبقت لے گیا اور ایک گروہ پیچھے رہ گیا۔ ان لوگوں پر تعجب ہے جو حقیقتِ حال نہیں جانتے اور ہنستے ہیں۔ قسم خدا کی اگر پر دہ اُٹھ جائے اور حال کھل جائے تو جن کی عبادت مقبول ہے وہ خوشی میں مشغول اورجن کی عبادت نامقبول ہے وہ رنج میں مشغول ہو جائیں اور کوئی ہنسی کھیل میں مصروف نہ ہو۔‘‘ ان تمام امور سے معلوم ہوگیا کہ جو روزہ میں فقط کھانے پینے پر اقتصار کرتے ہیں ان کا روزہ ایک بے جان صورت ہے اور روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو فرشتوں کا ہم شکل بنائے کیونکہ فرشتے خواہشات سے مبّرا ہیں اور چو پایوں پر شہوت غالب ہے اس لیے وہ فرشتوں سے بہت دور ہیں۔ اس لیے ہر وہ آدمی جس پر شہوت غالب ہے‘ وہ چوپایوں کا درجہ رکھتا ہے اور جس کی شہوت مغلوب ہے وہ فرشتوں کا ہمسر ہے اور اسی وجہ سے صفات میں ان کے قریب ہے نہ کہ جنتِ مکان سے۔ اور جس طرح فرشتے اللہ تعالیٰ سے نزدیک ہیں اسی طرح اس صفت کا آدمی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوتا ہے اور جو شخص نماز کا شام کے بعد اہتمام کرتا ہے اور حسبِ خواہش پیٹ بھر کر کھاتا ہے تو اسے شہوت زیادہ ہوتی ہے اور اسے روزہ کی روح حاصل نہیں ہوتی۔ (کیمیائے سعادت)

رمضان المبارک میں عبادات:
رمضان المبارک کے مہینہ میں عبادت کا ذوق بڑھ جاتا ہے‘ رجوع اِلی اللہ کی کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے‘ ذکرِ اللہ (ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات)‘ تلاوتِ قرآنِ مجید‘ نوافل اور قیام میں دل لگتا ہے‘ صدقہ اور خیرات کا رحجان فروغ پاتا ہے۔ اسلامی معاشرہ ایک روحانی نظم و ضبط میں آجاتا ہے۔ اس ماہ میں سب سے بہترین دعا اللہ تعالیٰ سے اُس کے قرب کی دعا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیا گویا اُس نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی اتباع کر لی کہ روزے تو فرض ہی تمہیں متقی بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔

احادیث کی روشنی میں سحری اور افطار کی فضیلت
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کا فرق سحری کھانا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لگاتار بغیر سحری کھائے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ پے در پے بغیر سحری کھائے روزے رکھ لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ جیسا تم میں سے کون ہو سکتا ہے؟ میں رات گزارتا ہوں‘ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھ کو سحری کے لیے بلایا اور فرمایا: ’’بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کے لیے کھجوریں سحری کا اچھا کھانا ہیں۔‘‘
ایک اور روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جس وقت تم میں سے کوئی اذان سن لے اور کچھ پینے کے لیے اس کے ہاتھ میں برتن ہو وہ اس کو نہ رکھے یہاں تک کہ پی کر اپنی ضرورت کو پورا کرے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’سحری میں برکت ہے‘ اسے ہرگز نہ چھوڑو۔ اگر کھانے کے لیے کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے کیونکہ سحری میں کھانے پینے والوں پر اللہ تعالیٰ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد۔ معارف الحدیث)
حضرت سہل رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ اس وقت تک بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اس وقت تک دین غالب رہے گا جب تک کہ لوگ جلد افطار کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔‘‘
حضرت زید بن خالدرضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص روزہ دار و روزہ افطار کرائے یا کسی غازی کا سامان درست کرے اس کو اسی جیسا اجر و ثواب ہے۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرے۔“ (یعنی غروب ِآفتاب کے بعد بالکل دیر نہ کرے)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روزے دار کی ایک بھی دعا افطار کے وقت رد نہیں ہوتی۔“
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے ہی افطار کر لے اس لیے کہ پانی کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بنایا ہے۔“
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مغرب کی نماز سے پہلے چند کھجوروں سے افطار فرماتے اور اگر تر کھجوریں بروقت موجود نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے افطار فرماتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند گھونٹ پانی پی لیتے۔

نمازِ تراویح:
رمضان المبارک میں تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے۔ یہ نماز رمضان کے ساتھ مخصوص ہے۔ یہ نماز عشاء کی نماز کے بعد اور نمازِ وِتر سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اس کی 20 رکعتیں‘ 10 سلاموں کے ساتھ ہیں‘ یعنی ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جائے گا اور ہر چار رکعت کے بعد کچھ دیر آرام کرنا اور تسبیح پڑھنا مستحب ہے۔ تراویح کا رمضان المبارک کے پورے مہینے میں پڑھنا سنت ہے اگرچہ قرآنِ مجید مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے مثلاً پندرہ روز میں پورا قرآنِ مجید پڑھ لیا جائے تو باقی دنوں میں بھی تراویح کا پڑھتے رہنا سنتِ مؤکدہ ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کو فرض فرمایا اور میں نے رمضان کی شب بیداری کو (تراویح میں تلاوتِ قرآن پڑھنے، سننے کے لیے) تمہارے واسطے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) سنت بنایا (کہ مؤکدہ ہونے کے سبب وہ بھی ضروری ہے)۔ جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کے اعتقاد سے رمضان کا روزہ رکھے اور رمضان کی شب بیداری کرے وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح نکل جائے گا جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔‘‘ (سنائی۔ حیوٰۃ المسلمین)

شبِ قدر:
عربی زبان میں رات کے لیے لفظ ’’لیلۃ‘‘ اور فارسی میں ’’شب‘‘ مروج ہے۔ قدر کے معنی اہمیت‘ عظمت اور قیمت کے ہیں۔ لیلۃ القدر کا مفہوم یہ ہوا کہ اہمیت و عظمت والی رات۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے اپنے محبوب کی امت کو ایک ایسی رات عطا فرمائی کہ جس کی عبادت اجرو ثواب کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
موطا امام مالکؒ میں ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی لمبی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی کم عمر کو دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر کیسے عمل کر سکیں گے پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے‘ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر عطا فرمائی۔ (تفسیر الخازن)
امام قرطبی تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے حضرت ایوب علیہ السلام‘ حضرت زکریا علیہ السلام‘ حضرت حزقیل علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اَسی اَسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پر اُن پررشک آیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’اے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ امتوں کے لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پررشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے‘‘ پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک مسرت سے چمک اُٹھا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: لیلۃ القدرکی رات اللہ تعالیٰ نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے، سابقہ امتوں میں یہ فضیلت کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر کے ذریعہ یہ رات امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا فرمائی۔ سورہ قدر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک ہم نے اس (قرانِ مجید) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔
اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے؟
شبِ قدر (فضیلت و برکت میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس رات میں فرشتے اور روح الامین اپنے ربّ کے حکم سے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو بعض پر‘ بعض انسانوں کو بعض پر‘ بعض مقامات کو بعض پر‘ بعض دنوں کو بعض پر اور بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت دی ہے۔ جس طرح امتِ محمدیہ اگر مسجد الحرام میں ایک وقت میں ایک نماز پڑھتی ہے تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب‘ مسجدِ نبوی ؐ میں پچاس ہزار نمازوں کا اور مسجدِ اقصیٰ میں پچیس ہزار نمازوں کا ثواب پاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس رات کو ہزار مہینوں یعنی 83 سال اور 4 ماہ سے بہتر قرار دیا ہے۔ شبِ قدر کو دوسری راتوں سے افضل قرار دینے کی بعض وجوہات ہیں:
انسان اس جہاں میں آیا ہے تو اس کے خالق نے اس کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے جامع ہدایت نامہ یعنی قرآنِ مجید اسے عطا کیا آسمانِ دنیا پر اس کا نزول اسی شب ہوا۔ جب نزولِ قرآن کا آغاز غارِ حرا میں ہوا تو بھی یہی شب تھی۔
اس رات شام سے لے کر سحر تک اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور رب العالمین کی تجلّیات اپنے بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔
اس رات میں عبادت میں لذت اور حلاوت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس رات ملائکہ اور سردارِ ملائکہ روح الامین حضرت جبرائیل ؑ اللہ کے حکم سے اس کے صالح بندوں کی قدم بوسی اور زیارت کے لیے زمین پر اترتے ہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات اور مسجودِ ملائکہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی یہ برکتیں اور رحمتیں طلوعِ فجر تک جاری رہتی ہیں۔

شبِ قدر۔ انعامِ عظیم
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جوآدمی حالتِ ایمان میں طلب ثواب کے لیے شبِ قدر میں قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ
تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ گویا ساری خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔
جمہور علمائے کرام کہتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے میں پوشیدہ ہے‘ خاص کر طاق راتوں میں۔ طاق راتوں کا بھی علاقوں کے اختلاف کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے۔
حضرت ابی بن کعبؓ‘ ابنِ عباسؓ‘ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ‘ امام ابو حنیفہؓ اور اکثر مفسرین اور علمائے کرام اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ستائیسویں رمضان کی رات ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بیان کرتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔
لیلۃ القدر کا لفظ 9 حروف پر مشتمل ہے۔ یہ کلمہ سورۃ القدر میں تین مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح 3 کو 9 سے ضرب دینے سے 27 حاصل ہوتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ شبِ قدر 27 ویں کو ہوتی ہے۔
سورۃ القدر تیس الفاظ سے مزین ہے۔ ستائیسواں کلمہ وہی ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے گویا خداوند عظیم کی طرف سے عقل مندوں اور اللہ والوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ رمضان شریف کی ستائیسویں شب کو شبِ قدر ہوتی ہے۔ (تفسیرِ عزیزی 259)
شبِ قدر کے عدم تعین کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ اس بات پر اعتماد نہ کر بیٹھیں کہ ہم ایسی رات میں عبادت کر چکے ہوں جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اللہ نے ہماری مغفرت کر دی‘ ہمیں بارگاہِ ایزدی سے بڑے بڑے مراتب حاصل ہوگئے‘ جنت بھی مل چکی۔ یہ خیال کر کے وہ عمل سے کنارہ کش ہو جائیں گے‘ مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گے اور امید میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ جس کا نتیجہ بربادی ہوگا۔ شبِ قدر کے تعین سے مطلع نہ کرنے کی یہی وجہ ہے جو موت کے وقت سے مطلع نہ کرنے کی ہے‘ تاکہ اپنی موت کا وقت جاننے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ابھی تو میری بہت عمر پڑی ہے، موت کا وقت آئے گا تو اس وقت توبہ کر لوں گا اور عبادت میں مشغول ہو جاؤں گا اور نیکوکاروں کی حالت میں میرا خاتمہ ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے مرنے کا وقت اس لیے پوشیدہ رکھا تاکہ ان کو ہمیشہ موت کا دھڑکا لگا رہے اور نیک عمل میں مصروف رہیں اور اعمال کی اصلاح میں مشغول رہیں، ان پر موت اس حال میں آئے کہ وہ نیکی پر قائم ہوں۔ اسی طرح دنیا میں بھی وہ جائز لذتوں سے محفوظ ہوں اور آخرت میں اللہ کی رحمت کے باعث عذاب سے بچ جائیں۔

شبِ قدر۔ علامات/ مشاہدات
اس رات کی علامات میں سے اہم یہ ہیں کہ:
1 یہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے۔
2 نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل۔
3 صاف شفاف گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے۔
4 اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے یعنی شہابِ ثاقب نہیں ٹوٹتے۔
5 اس رات کے پچھلے پہر تو بے حد کیف و سرور ہوتا ہے۔
6 آسمان کی طرف دیکھنے سے نور زمین کی طرف آتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
7 رات میں ایمان والوں کے دل عبادت کرنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت قدرتی طور پر عبادت کی طرف کچھ زیادہ ہی راغب ہوتی ہے۔
8 بعض اسلاف نے اس شب میں سمندر کا پانی چکھا تو میٹھا و شیریں معلوم ہوا۔
9 بعض بزرگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ شبِ قدر میں ہر چیز سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ درخت بھی اس رات میں سجدہ کرتے ہیں اور زمین پر گر پڑتے ہیں‘ پھر اپنی جگہ پر آجاتے ہیں۔
10 عام لوگوں کی نسبت اہلِ نظر کو شبِ قدر کا زیادہ مشاہدہ ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس شب کا ظہور صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتا ہے‘ ورنہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے دو انسانوں میں سے ایک اس رات کا جلوہ پا جاتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ دراصل اس رات کا مزا اور سرور الفاظ میں کیسے بیان کیا جاسکتا ہے‘ جو لذت چانسان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں آتی ہے‘ وہ اوراق میں کیسے پیدا کی جاسکتی ہے۔
اثرات
شبِ قدر کے بعد والی صبح کو سورج میں تیزی نہیں ہوتی۔ بغیر شعاع بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودہویں رات کا چاند۔
اللہ جل شانہ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا ہے‘ برخلاف اور دنوں کے کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اس جگہ ظہور ہوتا ہے۔

وظیفہء خاص:
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر فلاں رات ہے تو میں اس رات کیا کروں تو آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اے معبود! تُو معاف فرمانے والا ہے‘ معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے‘ تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘

اعتکاف
رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت آگ سے آزادی ہے اور اس عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے کہ بعض کے اعتکاف کرلینے سے سب کی طرف سے کفایت ہو جاتی ہے۔ جس نے رمضان کے آخری عشرہ میں 10 دن کا اعتکاف کیا تو وہ اعتکاف مثل دو حج اور عمروں کا ہوگا (یعنی اتنا ثواب ملے گا)۔ (بہیقی۔ معارف الحدیث)
ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رو برو ہر سال ایک بار قرآن پڑھا جاتا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روبرو دو بار پڑھا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر سال میں دس دن اعتکاف کرتے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہوا اس میں 20 دن اعتکاف فرمایا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رمضان کے آخری دس دن اعتکاف کرتے۔ ایک سال اعتکاف نہ فرمایا۔ جب آئندہ سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے 20 دن اعتکاف فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں فرمایا: ’’وہ گناہوں سے دور رہتا ہے۔ نیکیاں کرنے والے کی طرح اس کی نیکیاں جاری کی جاتی ہیں۔‘‘
احادیث میں منقول ہے کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے مسجد میں ایک جگہ مخصوص کر دی جاتی اور وہاں کوئی پردہ‘ چٹائی وغیرہ ڈال دیا جاتا یا کوئی چھوٹا خیمہ نصب ہوتا۔

روزے کی فضیلت
حضرت سہل رضی اللہ عنہٗ بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں آٹھ دروازے ہیں‘ ایک دروازے کا نام ریان ہے‘ اس سے صرف روزے دار ہی جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ابنِ آدم جو نیک عمل کرتا ہے اس کو روزے کے علاوہ 10 نیکیوں کا ثواب سات سو نیکیوں کے برابر ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘ روزہ دار اپنی شہوت اور کھانا اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے خوشی کے دو وقت ہیں‘ جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور جس وقت اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزے ڈھال ہیں‘ جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو فحش بات نہ کرے، شور نہ مچائے، اگر کوئی اس کو گالی دے یا اس سے لڑے‘ وہ کہے میں روزہ دار ہوں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولتا ہے اور بُرا کام کرنا نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ کھانا اور پینا چھوڑے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا لے یا پی لے وہ اپنے روزہ کو پورا کرے اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘

صدقہ فطر
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ کا روزہ آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتا ہے‘ جب تک کہ وہ صدقہ فطر ادا نہ کرے۔‘‘
صدقہ فطر واجب ہے یعنی اگر پچھلے سال ادا نہیں کیا تو اب ادا کرے۔ صدقہ فطر میں روزہ شرط نہیں یعنی اگر کوئی شخص رمضان کے روزے نہیں رکھ سکا تو بھی اسے ادا کرنا لازمی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا کہ مکہ المکرّمہ کے گلی کوچوں میں منادی کر دے کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ آزاد ہو یا غلام‘ چھوٹا ہو یا بڑا۔ دومُد (تقریباً دو سیر) گیہوں کے یا اس کے سوا ایک صاع (ساڑھے تین سیر سے کچھ زائد) کسی دوسرے غلہ یا کھجور وغیرہ کا اور یہ صدقہ نمازِ عید کے لیے جانے سے قبل دے دینا چاہیے۔

رخصتِ رمضان المبارک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کی آخری رات میں میری امت کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا ’’اے اللہ کے رسول کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟‘‘ فرمایا ’’نہیں، لیکن اگر کام کرنے والا اپنا کام پورا کر لے تو اس کو اس کا اجر پورا دیا جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم روزہ کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور ہم دائمی روزہ دار ہو جائیں۔ (آ مین)


استفادہ کتب:
قرآن ،مشکوۃ شریف،سنائی۔ حیوٰۃ المسلمینتفسیر الخازن،تفسیرِ عزیزی،بخاری شریف۔سر الاسرار،کیمیائے سعادت۔

 
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 51950 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.