دوم:
سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ
وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو
بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ
وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ
اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے
كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہوگا.
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو
ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز
نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے
مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ
كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى،
اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى
تم بھى اسے مت كرو "
اور اسی کے مثل امام مالک نے فرمایا:"جو چیز اسوقت دین نہ تھی ,آج بھی دین
نہ ہوگی"
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور
نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين
نہيں بن سكتا "
جاری ہے---- |