حضرت صوفی بندے حسن خاںؒ

1947میں برصغیر پاک و ہند میں پاکستان کے نام سے جب نو آزاد مملکت معرض وجود میں آنے لگی تو فوج میں شامل مسلمانوں کے سامنے تین آپشن رکھے گئے۔ بھارت میں رہتے ہوئے بھارتی فوج کا حصہ بن جائیں۔ پاکستان چلے جائیں اگر یہ دونوں پیشکشیں قبول نہیں تو فوج کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر اپنے گھر چلے جائیں جب یہ پیشکشیں پٹھان پروا ، فیض آباد کے رہنے والے دو سرفروشوں کو کی گئی تو ایک سرفروش (جس کا نام مستقیم خاں تھا) اس نے یہ کہتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا کہ وہ بھارت میں رہ کر کسی ہندو یا سکھ افسر کا حکم ماننے کی بجائے پاک سر زمین پر بسنے والے مسلمان بھائیوں کی چاکری کو زیادہ پسند کریں گے۔ جب اس فیصلے کی خبر مستقیم خاں کے چھوٹے چچیرے بھائی بندے حسن خاں کو ہوئی تو انہوں نے یہ دیکھے بغیر کہ ان کے والدین بہن بھائی اور آباؤ اجداد صدیوں سے اس سرزمین پر آباد چلے آ رہے ہیں۔ ان سب کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا تلخ اور مشکل فیصلہ کر لیا۔ اس وقت بندے خاں کی عمر بمشکل 21سال ہوگی۔ شاد ی کو بھی چندماہ ہی گزرے تھے۔ ان حالات میں بندے حسن خاں کا فیصلہ ناقابل فہم تھا۔ والدین بہن بھائیوں نے بہت سمجھایا کہ جس سر زمین پر آپ نے جانے کا فیصلہ کیا ہے نہ جانے اس کا مستقبل کیا ہو وہاں کیسے حالات کا سامنا کرنے پڑے۔ ان حالات میں جب نئے ملک میں کوئی بھی اپنا عزیز و اقارب نہ ہو دکھ سکھ کا ساتھی نہ ہو وہاں اپنوں کے بغیر کیسے زندگی گزارو گے۔ والدین اور بہن بھائیوں کے خدشات اپنی جگہ درست تھے بیس اکیس سال کی عمر کے نوجوان کے فیصلے کو اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی کہ ان میں پیش آمدہ حالات کو سمجھنے پرکھنے اور دیکھنے کا شعور نہیں ہوتا اور جذبات ہر فیصلے پر حاوی ہو جاتے ہیں۔1928 کو بھارت کے شہر فیض آباد کے نواحی قصبے پٹھان پروا میں پیدا ہونے والے اس نوجوان کے لیے حقیقت میں یہ بہت مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن انہوں نے اپنوں کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اس وقت پاکستان کو تجربہ کار فوجیوں کی اشد ضرورت تھی۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ جذبہ بھی کار فرما تھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے مسلمان بھائیوں اور پاک سرزمین کی حفاظت ان کے نزدیک زیادہ مقدس فریضہ تھا۔

پھر مستقیم خاں اور بندے حسن خاں ایک ٹرین کے ذریعے بھارت سے 9نومبر1947 کو لاہور پہنچے۔ یہاں ان کے ساتھ آنے والے ایک اور بھائی لال خاں بھی تھے جو بعد میں حید آباد جا بسے۔ مستقیم خاں اور بندے حسن خاں کو پاک فوج کی میڈیکل کور میں جگہ مل گئی۔ ہندوستان میں انہیں19روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی پاکستان میں 29روپے ملنے لگی۔ یہ دونوں بھائی 20روپے بھارت میں اپنے والدین اور عزیز و اقارب کو بھجوادیتے باقی 9روپے میں سارا مہینہ بسر کر تے۔ ان کے بقول9روپوں میں سے دو ایک روپے بھی بچ جاتے تھے۔

1954 کو مستقیم خاں کو پاک فوج سے جبری ریٹائرڈ کردیا گیا۔ جب انہوں نے کرنل انچارج کے روبرو یہ کہا کہ وہ تو پاکستان میں اپنا گھر بار والدین چھوڑ کر آئے تھے کہ اس نو آزاد ملک کو اپنی صلاحیتوں سے آباد اور شاداب کر یں گے تو متعلقہ کرنل نے جواب دیا کہ آپ کا جذبہ بے شک عظیم ہے لیکن یہ پاکستان ہے مسافر خانہ نہیں۔ مستقیم کے بقول اس دن کرنل کے ان الفاظ نے ان کے دل کو چھری کی طرح چیر کے رکھ دیا۔ انہیں پاکستان آنے کے فیصلہ پر شدید دکھ ہوا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اس اجنبی ملک میں اپنا گھر بسایا۔دو شادیاں کیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اولاد کی نعمت سے مالا مال کیا۔آج و ہ شخص ڈیرھ درجن پوتوں اور نواسوں کا وارث ہے۔

بندے حسن خاں نے پاک فوج میں اپنی خدمات کا سفر جاری و ساری رکھا۔1962 میں انہیں بھی لانس نائیک کی حیثیت سے میڈیکل کور سے ریٹائرڈ کر دیا گیا۔ فوج کی سروس کے دوران وہ لاہور کے علاوہ نوشہرہ، ایبٹ آباد، ٹل اور کوئٹہ بھی تعینات رہے۔

1965 کی پاک بھارت جنگ جب شروع ہوئی تو ان کو ایک مرتبہ پھر فوجی خدمات کے لیے طلب کر لیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد واپس بھیج دیا گیا۔

فروری1950 میں بندے حسن خاں کی شادی بھارت سے ہی نقل مکانی کرکے آنے والے خاندان کی بیٹی رصفا نو بیگم سے ہوگئی۔ 1951 میں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام زہرہ رکھا گیا پھر دسمبر1953 کو اس گلشن میں ایک پھول کھلا جس کا نام مشتاق احمد خاں رکھا گیا۔

1955 کا سال اس لیے بھی اہم تصور کیا جاتا ہے کہ بندے حسن خاں خاندان کے کچھ اور لوگ بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے بھارت سے لاہور پہنچے۔ ان میں ان کے سگے بھائی تقی خاں، چچیرے بھائی رفیع خاں، سب سے بڑے بھائی کے بیٹے غلام مصطفےٰ خاں اور بندے حسن خاں کی پہلی بیوی بھی شامل تھی۔ اپنے خونی رشتہ داروں کی آمد یقینا بندے حسن خاں کے لیے نہایت خوش کن تھی۔ لیکن ایک ہی گھر میں دو بیویاں اکھٹی ہونے پر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے۔ پہلی بیوی گھر پر حکمرانی کا اپنا حق جتا رہی تھی جبکہ دوسری بیوی رصفانو بیگم اپنے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھی۔ اس دوران پہلی بیوی کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام عائشہ رکھا گیا روز بروز لڑائی جھگڑے سے تنگ آ کر بندے حسن خاں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی۔ جس پر وہ بندے حسن خاں کا گھر چھوڑ کر تقی خاں کے گھر شفٹ ہوگی حالات کی ناساز گاری کو سازگار بنانے کے لیے چچیرے بھائی رفیع خاں نے بندے حسن خاں کی پہلی بیوی سے نکاح کر لیا اور ان کے بطن سے بدر خاں پیدا ہوا۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھارت اپنے گاؤں پٹھان پروا چلی گئی اور وہاں کچھ عرصہ زندہ رہنے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔

بندے حسن خاں جو اکیلے ہی بھارت سے پاک سر زمین پر آئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو کثیر اولاد سے نوازا۔ عائشہ کو ملا کر ان کی اولاد کی تعداد پندرہ بنتی ہے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ادویات کی سپلائی کو ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا اور بہت عرصہ تک یہ کام کرتے رہے۔ دین کی طرف رغبت تو بچپن سے ہی تھی۔ میرے سوال کے جواب میں انہو ں نے خود بتایا کہ شعور کی حالت میں ان سے صرف تین جمعہ کی نمازیں چھوٹ گئی تھیں اور چھوٹنے کی وجہ ٹانگ کی ہڈی کا ٹوٹناتھا۔ ساٹھ کے عشرے میں ہی چند دوستوں نے انہیں دور حاضر کے کامل ولی اﷲ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ دیا۔ ان دنوں حضرت خواجہ معصومؒ اور حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ کا بہت چرچا تھا۔یہ مشورہ انہیں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ دونوں میں سے جو انہیں بلائے گا۔ ان کے ہاتھ پر وہ بیعت کر لیں گے۔ لڑکپن سے ہی کثرت سے درودپاک پڑھنا ان کی عادت میں شامل تھا۔ کیونکہ دلوں کو درود پاک سے زیادہ سکون کوئی اور کلام نہیں دے سکتا۔کسی نے علامہ محمد اقبال سے پوچھا کہ برصغیر پاک و ہند میں شاعر تو بہت ہیں لیکن آپ کو جو مقام حاصل ہے۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا میں نے تین کروڑ مرتبہ درود پاک پڑھا ہے۔ درود پاک کی برکتوں سے اﷲ تعالیٰ نے نہ صرف دنیا میں انہیں بلکہ آخرت میں بھی بخشش سے نواز رکھا ہے کشف قبور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ ایک دن وہ علامہ محمد اقبالؒ کے مزار پر حاضر ہوئے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ علامہ اپنی قبر میں بھی درود پاک کا ورد فرما رہے تھے۔ ان کی گلو گیر آواز میں گریہ زاری بہت تھی۔ اسی لیے تو بزرگ فرماتے ہیں۔ اﷲ کے برگزیدہ بندوں کی قبریں، قبر نہیں ہوتیں بلکہ جنت کے باغوں میں سے باغ ہوا کرتی ہیں جس میں وہ ہر لمحے اﷲ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔

بہرکیف بندے حسن خاں کو ایک رات خواب میں کرماں والوں (حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ) کی زیارت ہوئی۔ کرماں والوں نے فرمایا کہ میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ ہماری طرف کیوں نہیں آتے ۔ خواب میں اشارہ پا کر آپ اگلی صبح بذریعہ ٹرین حضرت کرماں والوں کی خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے۔ اتنے بڑے ہجوم میں بندے حسن خاں کو بھی جگہ مل گئی لیکن بزرگوں کی نشست سے ان کا فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ پھر جونہی حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ اپنے لیے مخصوص جگہ پر آکر بیٹھے تو انہوں نے حکم دیا کہ لاہور سے آنے والے لوگ آگے آ جائیں۔ یہ سن کر بندے حسن خاں بھی کرماں والوں کے نزدیک پہنچ گئے۔ چند ہی لمحوں بعد بزرگوں نے فرمایا بیلیا تمہیں کس نے بلایا ہے۔ بندے حسن خاں نے کہا آپ نے! اس پر حضرت کرماں والوں نے فرمایا تو تم ہمارا مرید ہونا چاہتے ہو۔ بندے حسن نے کہا آپ کی غلامی حاصل کرنے کے لیے ہی تو یہاں آیا ہوں۔ حالانکہ اس وقت آپ کلین شیو تھے اور حضرت کرماں والے بغیر داڑھی والوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے کہا اچھا بیلیا تم آج سے ہمارے مرید ہو۔ تہجد کے علاوہ پانچوں نماز پڑھنی ہے۔ داڑھی رکھنے کے ساتھ ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھنا ہے۔ گناہ کبیرہ سے حتی المقدور بچنا ہے۔ ان چند نصیحتوں کے بعد آپ کو واپس لاہور جانے کا حکم مل گیا۔ بندے حسن بتاتے ہیں کہ انہو ں نے اپنی زندگی میں صرف دو بار اپنے مرشد سے بالمشافہ ملاقات کی اور ان سے فیض حاصل کیا۔

واپس آ کر بندے حسن خاں کی زندگی ہی بدل گئی ایک رات خواب میں مرشد پاک نے حکم دیا کہ بیلیا اگر تم باآسانی کرماں والے نہیں آسکتے تو لاہورمیں حضرت گوہر پیر کے دربار پر ہی حاضری دے لیا کرو۔ وہاں سے بھی تمہیں فیض ملتا رہے گا۔ چنانچہ آپ باقاعدہ ہر جمعرات کی شام حضرت گوہر پیر کے دربار پر جانے گئے۔ جب چالیس جمعراتوں کے بعد حضرت گوہر پیر سے فیض یاب ہونے کا وقت قریب آیا تو شدید طوفان نے آپ کو آگھیرا۔ بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ آپ اس شام حضرت گوہر پیرؒ کے دربار پر پہنچ سکتے لیکن جب اﷲ تعالیٰ نے کسی شخص کو نوازنا ہو تو مشکلات کے ساتھ ساتھ آسانیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ جب آپ حضرت گوہر پیرؒ کے دربار پر پہنچے تو وہ اپنی قبر سے نکل کر مزار کے دروازے میں کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم آزمائش میں پورے اترے ہو اور ہر مشکل سے گزر کر میرے پاس پہنچے ہو تو فیض حاصل کرنا آپ کا حق ہے۔ پھر رازو نیاز کی باتیں ہوئیں اور منزلیں آسان ہوگئیں۔

کسی کسی جمعرات حضرت گوہر پیر کی سواری صوفی بندے حسن خاں کے اس کمرے میں آنے لگی جو عبادت الہیٰ کے لیے انہوں نے مخصوص کر رکھا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ چونکہ مجھ سے وہ بہت پیار کرتے تھے اس لیے اکثر اوقات اپنی ظاہری اور باطنی کیفیات مجھ پر عیاں کرتے رہتے تھے۔

میں سمجھتا ہوں ان کا یہ مجھ پر احسان تھا کہ انہوں نے مجھے اپنی سب سے ہونہار بیٹی (عابدہ) کے لیے پسند فرمایا۔ بہنیں تو عابدہ کی سبھی پاکباز اور سگھڑ ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے جو خوبیاں عابدہ میں ودیعت کر رکھی ہیں۔ وہی اسے باقی بہنوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ صوفی بندے حسن خاں نے ایک اور احسان یہ کیا کہ جس وقت میں گھر سے بے گھر تھا۔ انہوں نے کئی ماہ تک ذہنی و جسمانی اور مالی مشقت کر کے مجھے گھر والا بنایا۔ جس میں آج میں اور ان کی بیٹی راحت بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ حالانکہ کردار تو میری ساس کا بھی اس حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ لیکن سسر‘ بندے حسن خاں کی سرپرستی کو کبھی فراموش نہیں کیاجا سکتا۔

گھر میں ان کا یہ روٹین تھا کہ وہ پہلے تہجد پڑھتے ۔ پھر قرآن مجید کی تلاوت کرتے نماز فجر کے بعد اپنے اور محلے کے بچے بچیاں ان کے پاس قرآن پاک پڑھنے آیا کرتے ہیں۔ صوفی خاندان کے تقریباً تمام بچوں نے انہی سے قرآن پاک پڑھا۔ ہر صبح نماز فجر کے وقت ہاتھ میں مضبوط ڈنڈا لیے وہ گھر کے تمام کمروں تک خود جاتے اور ہر بند دروازہ کٹھکھٹا کر کہ زور دار آواز میں اپنے بیٹوں کو نماز پڑھنے کے تلقین کرتے۔ ان کی وجہ سے گھر میں چونکہ ڈسپلن اور نظم و ضبط بہت زیادہ تھا۔ اس لیے کوئی بھی ان کی حکم عدولی کا تصور نہ کرتا۔ گھرکے کچھ افراد تو اٹھ کر نماز فجر پڑھ لیتے۔ بالخصوص اشفاق اور نثار باپ کے خوف سے نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکل تو جاتے لیکن مسجد جانے کی بجائے گھر سے کچھ فاصلے سے ہوکر واپس لوٹ آتے اور آ کر ایک بار پھر سو جاتے۔ حالانکہ باپ کے احکامات کے ساتھ یہ سراسر دھوکہ تھا لیکن بچپن اور لڑکپن میں ایسی حرکات سرزد ہو ہی جاتی ہیں۔

خلق خدا کا درد ان کے دل میں اس قدر تھا کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہ میں چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کر رکھی تھی۔انتہائی محدود وسائل کے باوجود انہوں نے اس ڈسپنسری کو جاری و ساری رکھنے کے لیے کسی سے مدد کی درخواست نہیں کی بلکہ اپنی جیب سے ادویات خرید کر اس میں رکھتے۔ اس ڈسپنسری کا انچارج میری ہونے والی بیوی عابدہ کو بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت جانفشانی سے محلے کے غریب لوگوں کے لیے باپ کی ہدایت کے مطابق دوائی تیار کرتی۔ چونکہ یہ سارا کام خالصتاً انسانی خدمت کے جذبے کے تحت ہو رہا تھا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس میں شفا بھی شامل کر رکھی تھی۔

ان کی مجھ سے محبت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے اپنی زندگی کی جو چند راتیں ان کے ہاں بسر کیں صبح ان کی دستک سے پہلے میں ہی انہیں بیدار ملتا اور ہر نماز باقاعدگی سے پڑھتا۔ جبکہ باقی دامادوں کو یہ مرتبہ اور عزت حاصل نہیں تھی وہ اکثر مجھ سے سیاسی اور ملکی معاملات پر بھی گفتگو کرتے رہتے اور ہمیشہ میری ہی رائے کو پذیرائی بخشتے۔

ایک دن میں اور آصف ویڈیو پر ٹائی ٹینک فلم دیکھ رہے تھے۔ ایک زمانہ تھا جب اس فلم کے ہر طرف چرچے تھے اور پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ٹائی ٹینک کا نام تھا۔میں نے آصف کو کہا کہ سینما تو میں نہیں جاؤں گا اگر گھرمیں دیکھنے کے لیے مل جائے تو چند گھنٹے اس فلم کی نذر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ آصف چونکہ میرا اچھا دوست بھی ہے اس لیے اس نے بطور خاص میرے لیے یہ اہتمام کیا تھا۔ اس فلم میں چند مناظر قابل اعتراض بھی تھے۔ جونہی وہ منظر سکرین پر چلنے لگتا تو آصف اپنے ریموٹ سے منظر تو غائب کر دیتا۔ لیکن ایک جھلک نہ چاہنے کے باوجود بھی آنکھوں میں اتر جاتی۔ خالو واپس اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ آدھے گھنٹے کے بعد خالو پھر ٹی والے کمرے میں داخل ہوئے تو ہیرو ہیروین کے پیچھے بے تابی سے بھاگ رہا تھا۔ آصف نے پھر اس سین کو کٹ کر دیا۔ تیسری مرتبہ جب خالو کمرے میں داخل ہوئے تو ٹائی ٹینک جہاز ٹوٹ رہا تھا اور جہاز میں حشر کا سماں برپا تھا۔ خالو نے آتے ہی پوچھا کیا ہوا۔ میں نے کہا سمندری طوفان کی وجہ سے جہاز ٹوٹ رہا ہے۔ خالو نے ایک ہی فقرے میں بات ختم کر دی کہ جہاز میں جو کچھ ہو رہا تھا اسے ٹوٹ ہی جانا چاہئے تھا۔ ان کی یہ بات مجھے آج بھی یاد ہے۔

خالو مزاج کے اعتبار سے انتہائی سخت تھے لیکن بہوؤں کے معاملے میں انتہائی نرم۔ کئی مرتبہ قصور وار بہو ہونے کے باوجود اپنی بیوی کو ڈانٹ دیتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ نے ان کو بیوی بھی انتہائی فرماں دار، بردبار اور نیک شعار عطا فرمائی تھی کہ جس نے سخت سنگدستی اور بعض اوقات پیدا ہونے والے ناخوشگوار حالات کے باوجود ہر لمحے اپنے شوہر کا حکم سب سے مقدم رکھا۔ خود میرے انتخاب کا فیصلہ بھی میری ساس کی منشا کے خلاف تھا لیکن انہوں نے ہر حال میں قبول کیا۔ یہ یقینا ان کی اعلیٰ ظرفی اور فرماں برداری کی عمدہ مثال ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے خالو کو جہاں اور بہت سے نعمتوں سے نواز رکھا تھا وہاں نیک اور صالح اولاد بھی کسی انعام سے کم نہ تھی۔ ان کے کئی بیٹے ارض مقدس سعودی عرب ذریعہ معاش کے لیے جاتے اور آتے رہے ۔ اب بھی دو بیٹے ممتاز اور ندیم ارض مقدس پر موجود ہیں۔ ممتاز نے والد کو عمرہ کروانے کا اہتمام کیا۔ خالو ارض مقدس پہنچ بھی گئے۔ ایک کی بجائے کئی عمرے کئے۔ مسجد نبوی میں بے شمار نمازیں پڑھیں۔ مقدس مقامات کی زیارت کی۔ آپ حج کی نیت سے وہاں رکنا چاہتے تھے کہ طبیعت ناساز ہو گئی۔ خواب میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ انہوں نے دلاسہ دیا کہ عمرے کی سعادت حج بیت اﷲ کے برابر ہی ہے پریشان نہ ہو۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور آپ نے پاکستان کی طرف رخت سفر باندھا۔

پاکستان واپسی کے بعد ایک دوپہر آپ کو فالج کے مرض نے آگھیرا۔ دائیں جانب ہونے والے فالج نے اٹھنے بیٹھنے سے لاچار کر دیا۔ ایک طرف بیماری کی پریشانی تو دوسری طرف نمازوں کے چھوٹے جانے کا غم۔ اس لمحے آنکھوں سے آنسورواں تھے۔ ڈاکٹروں نے فالج تشخیص کر دیا تھا۔ بلکہ ضروری انجکشن اور میڈیسن شروع کروا دی گئی تھیں۔ روتے روتے رات کو نیند آگئی۔ جب تہجد کا وقت ہوا تو بیدار آنکھوں نے دیکھا کہ ان کی خواب گاہ بقمہ نور بن چکی ہے۔ انہوں نے حیرت سے آنکھ کھولی تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سید اسمعیل شاہ بخاریؒ اور حضرت گوہر پیرؒ سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اٹھو تہجد کی نماز پڑھو۔ خالو نے کہا مجھے تو فالج ہو چکا ہے میں اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہوں۔ میں کیسے نماز پڑھوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں کچھ نہیں ہوا تم بالکل ٹھیک ہو۔ اٹھو اور نماز پڑھو، دوبارہ حکم پر خالو بستر سے اٹھے اور وضو کرنے لگے۔ اسی اثنا میں کمرہ ایک بار پھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ خالو کے بقول وہ حیران تھے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جب وہ بستر سے اٹھے تو ان کے تمام جسمانی اعضا بالکل صحیح تھے۔ کسی میں درد یا کھیچاؤ کا احساس بھی نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے حسب سابق تہجد اور پھر نماز فجر ادا کی تو گھر کے دوسرے افراد کی آنکھ بھی کھل گئی انہوں نے خالو کو نماز پڑھتے دیکھ کر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کا اظہار بھی کیا۔ تندرستی کی اطلاع پا کر خاندان کے کئی لوگ گھر پہنچے ان میں میں بھی شامل تھا۔ میں نے اتنی جلدی تندرستی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے وہ کہانی سنائی جو میں آپ کو اوپر سنا چکا ہوں۔انہوں نے اپنی زندگی میں بارہ بچوں کی شادیاں دھوم دھڑکے سے کیں سارے خاندا ن نے بھرپور خوشیاں منائیں۔ لیکن ان کی زندگی کا وہ تلخ اور پریشان کن لمحہ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جب ان کی ایک نیک سیرت بیٹی روبینہ کو ایک احمق‘ پاگل اور حد سے گزرے ہوئے انسان نے آناً فاناً طلاق دے دی۔

حالانکہ بظاہر وہ بڑے بہادر اور مضبوط دکھائی دیتے تھے لیکن بیٹی کو طلاق کا دکھ انہیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان کے زخموں پر مرحم‘ شفقت کی صورت میں رکھ دیا تھا۔ جس نے زندگی میں روبینہ کو ممکن حد تک خوشیاں دیں لیکن طلاق کا دکھ جو والدین کو ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس کرب سے خود گزر ا ہو۔

خالو کی زندگی میں ایک لمحہ اور بھی کربناک آیا۔ کہ ایک اجنبی شخص ان کے پاس باقاعدگی سے آنے لگا۔ اجنبی شخص‘ خالو کو اپنی چرب زبانی سے جھانسہ دینے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ سعودی عرب کی کسی فرم میں انجینئر ہے اور کمپنی نے ہنر مند لوگ پاکستان سے لے جانے کی ذمہ داری اسے سونپ رکھی ہے۔ خالو نے ایک اچھے مقصد کے لیے اپنے دو بیٹوں ، تایا مستقیم کے بیٹے غلام مصطفے اور بھتیجے بدر خاں کے پیسے جمع کر کے (جو غالباً آج کے پندرہ سال پہلے 65ہزار روپے بنتے تھے)اجنبی شخص کو پاسپورٹوں سمیت دے دیئے۔ جو ویزوں کے حصول کا بہانہ بنا کر رفو چکر ہو گیا اور پھر لوٹ کر نہ آیا۔ چند ہفتوں کے بعد جب اجنبی شخص کے آنے کی امید نہ رہی تو باہر جانے کی تمنا رکھنے والے تمام افراد نے خالو سے پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ اتنی بڑی رقم واپس کرنا خالو کے لیے واقعی ایک مسئلہ تھا۔ پندرہ سال پہلے 65ہزار روپے کی ویلیو آج کے چھ سات لاکھ روپے سے کیا کم ہوگی۔ اس بنا پرکچھ دن خالو سخت پریشان رہے پھر کسی نہ کسی طرح تمام لوگوں کو وہ پیسے اپنی جمع پونجی سے واپس کر دیئے۔ حسن اتفاق سے وہ فراڈیاشخص مل تو گیا اور اسے سخت جدو جہد کے بعد اچھرہ تھانے کی حوالات میں بند بھی کروا دیا لیکن فراڈیے شخص نے لوٹے ہوئے کچھ پیسے تھانے والوں کو دے کر اپنی جان چھڑا لی اور خالو سمیت ہم سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔

خالو چونکہ پیر و مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام برکاتہ کے پیر بھائی تھے اس لیے وہ ان کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے تھے بلکہ اس رشتے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے مشتاق احمد خاں کو ان کا مرید کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشتاق کے باپ نے کہنے پر بیعت تو کر لی تھی لیکن وہ آج تک کبھی اہتمام سے اپنے پیر و مرشد کو ملنے نہیں گیا۔ ہاں اگر کہیں ان کا آمنا سامنا ہو جائے تو عقیدت سے مل ضرور لیتا ہے۔ خالو کی خواہش تھی کہ اگر انہیں پہلے موت آ جائے تو حضرت صاحب ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ حضرت صاحب کے دل میں بھی خالو کا بہت احترام تھا۔ وہ اکثر و بیشتر کئی حاجت مندوں کو ان کے پاس بھجواتے رہتے اور خدا کے فضل و کرم سے ان کو شفا بھی ہو جاتی ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ریلوے کوارٹروں میں شادی کے بعد جب عابدہ نئی نئی آئی تھی تو اسے ڈراؤنی حیوانی چیزیں رات کے وقت خوفزدہ کرتی نظر آتی تھیں جب کئی بار یہ بات مشاہدے میں آئی تو میں نے ایک دن خالو سے اس کا ذکر کر دیااپنے موکلوں کے ذریعے پتہ چلا کر خالو نے بتایا کوارٹر کے پیچھے نیم کا درخت ہے اس پر بدروحوں کا سایہ ہے اور وہی بدروحیں ان کی بیٹی عابدہ کو تنگ کرتی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے علم سے انہیں ختم کر دیا اور بہت دنوں تک ڈراؤنی شکلیں دوبارہ نظر نہ آئیں۔ مکہ کالونی کے گھر میں بھی کبھی کبھار خوف کا احساس ہوا کرتا تھا۔ جب بھی ہمیں یا کسی کو بھی پریشانی لاحق ہوتی تو وہ خالو سے رجوع کرتا اور اور وہ فوری طور پر اس کا سد باب کر دیتے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جن دنوں آصف خوبصورتی اور شاہ زوری کے اعتبار سے اپنے عروج پر تھا۔ ایک حیوانی چیز اس پر وارد ہوگئی۔ رات کے وقت وہ جب گھر کے بالائی برآمدے میں تنہا سوتا تو عورت کے روپ میں حیوانی چیز بیدار کر کے گھنٹوں اس سے باتیں کرتی۔ کبھی کبھار باتیں کرنے اور ہنسنے کی آوازیں نیچے صحن میں بھی سنی جاتیں۔ اس حوالے سے جب آصف سے پوچھا جاتا تو وہ اس بات کا اقرار کرتا۔ جب یہ بات خالو تک پہنچی تو انہوں نے بیٹے پر وارد ہونے والی بدروح کو بھی اپنے علم سے ختم کر دیا۔ خالو جہاں کثرت سے ہر لمحے درود پاک کا ورد کرتے رہتے تھے ۔ وہاں سورۃ المزمل کے زبردست عالم تھے۔بڑے بڑے جنات ان سے تھر تھر کانپتے تھے۔ وہ جب ہاتھ کے اشارے سے اعظم موکل کو آواز دے کر اسے حکم دیتے کہ سامنے بیٹھے ہوئے انسان کے اندر جا کر دیکھ کہ معاملہ کیاہے۔ جب موکل رپورٹ دے دیتا تو پھر متاثرہ شخص سے مخاطب ہو کر آپ ساری کہانی سنا دیتے۔ اکثر لوگ آپ کی زبان سے نکلنے والی کہانی کو ہی درست قرار دے دیتے۔ پھر آپ موکل کو حکم دیتے کہ کمرے سے باہر جا کر وارد ہونے والی چیز کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ جس کمرے میں خالو قرآنی آیات اور موکلوں کے ذریعے لوگوں کا علاج کرتے اس میں اس وقت بچوں اور بے وضو لوگوں کا داخلہ ہرگز منع تھا۔

اﷲ تعالیٰ نے پیر و مرشد کی دعا سے انہیں یہ علم بھی عطا کر رکھا تھا کہ وہ یہاں بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود شخص کو نہ صرف دیکھ سکتے بلکہ اس کا علاج بھی کر سکتے تھے۔ ایک شام ایک شخص ان کے پاس آیا اورنہایت درد مند لہجے میں کہا کہ ان کے عزیز کی امریکہ میں طبیعت بہت خراب ہے۔ اگر آپ اسے قرآنی آیات سے ٹھیک کر دیں تو میں آپ کی معقول خدمت کروں گا ۔ خالو نے اسی وقت اپنے موکلوں کو حکم دیا۔ جنہوں نے چند لمحوں بعد اس شخص کے بارے میں تمام حالات واقعات سے آگاہ کیا۔ جب خالو نے علاج کے لیے آنے والے شخص کے روبرو تمام حالات بیان کئے تو وہ حیران اور ششدر رہ گیا۔ خالو نے اسے کہا جاؤ فون کر کے پوچھو کہ تمہارا عزیز ٹھیک ہو گیا یا نہیں۔ دوسرے دن وہ شخص آیا میرے روبرو اس نے خالو کو بتایا کہ امریکہ میں ان کا عزیز کل سے بالکل ٹھیک ہے۔ جس پر اظہار تشکر کے طور پر کچھ نذرانہ بھی پیش کیا۔ جس پر میں نے مذاقاً کہا خالو ففٹی ففٹی ہونا چاہیے خالو نے قہقہ لگایا اور پیسے بٹوے میں ڈال لیے۔ میں نے کبھی ان کا پرس خالی نہیں دیکھا اﷲ تعالیٰ نے درودپاک پڑھنے کے طفیل بے پناہ رزق سے نواز رکھا تھا۔

پھر جوں جوں عمر بڑھتی گئی۔ مختلف امراض نے انہیں گھیرنا شروع کر دیا۔ ہائی بلڈ پریشر کا مرض تو پہلے ہی انہیں لاحق تھا۔ پیشاب میں رکاوٹ نے بھی انہیں بے حال کردیا۔ پہلے سی ایم ایچ پھر سروسز ہسپتال میں مثانے کا آپریشن ہوا۔ پھر بھی پیشاب میں رکاوٹ کا مرض ختم ہونے کی بجائے تسلسل سے جاری رہا۔ ان کے سینے میں ریشے کی بہتات نے پریشان کر دیا۔ دماغی فالج کے حملے سے انہوں نے لوگوں کو پہچاننا بند کردیا۔ پہلے طبیعت پر اضطرابی کیفیت بہت حد تک طاری رہی۔ برآمدے میں رکھے ہوئے صوفے پر اگر انہیں بٹھایا جاتا تو وہ انتہائی کمزوری کے باوجود اٹھ کر اس کمرے کی طرف چل پڑتے جو ہمیشہ سے ان کی خواب گاہ رہا۔سب کو یہ خدشہ تھا کہ بے دھیانی میں چلتے ہوئے کہیں گر نہ جائیں اور خدانخواستہ انہیں ہڈی پر چوٹ نہ لگ جائے۔ بیماریاں تو پہلے ہی بہت تھیں ہڈی پر چوٹ انہیں مزید لاغر بنا دے گی۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے انہیں صوفہ پر بٹھا کر کپڑے سے اس طرح لپیٹ دیا جاتا کہ وہ خود نہ اٹھ سکیں میں جب گھر میں داخل ہوتا تو وہ مجھے بڑی بے بسی کے عالم سے حیرت سے دیکھتے لیکن میں چاہنے کے باوجود بالکل بے بس تھا۔ میرے بس میں نہیں تھا کہ ان کو تمام بیماریوں سے نجات دلا سکوں۔ وہ میرا ہاتھ پکڑکر بہت دیر تک تھامے رکھتے اور کہتے میرا بابو آیا ہے۔ پھر جب خالہ (میری ساس) انہیں میرا ہاتھ چھوڑنے کے لیے کہتیں تو وہ چھوڑ دیتے۔ اس لمحے میں مذاق سے کہتا کہ ساری زندگی خالو نے رعب دبدبہ قائم رکھا ہے۔ بڑھاپے میں خالو، خالہ سے ڈرنے لگے ہیں۔ ان کی اضطرابی کیفیت کے حوالے سے متضاد خیالات سامنے آئے۔ حضرت صاحب اور بھائی مصطفے کے بقول ان کے قبضے میں جو ہوائی چیزیں تھیں وہ انہیں تنگ کر رہی تھیں حضرت صاحب کے نزدیک اگر وہ چیزیں کسی اور کے سپرد کر دی جائیں تو اضطرابی کیفیت ختم ہو سکتی تھی۔

اس حوالے سے جب خالو ہوش میں تھے تو کہاکرتے تھے کہ ان کے بیٹوں میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی گدی کا وارث بن سکے۔ پانچ وقت وظائف اور پاکیزگی کو قائم رکھنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ کسی دوسرے کو وہ دینا نہیں چاہتے تھے۔

دوسری جانب بھائی مصطفے کا خیال تھا کہ یہ چیزیں جن بزرگوں سے ملی ہیں وہیں جا کر چھوڑنی ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے وہ خالو کو لے کر حضرت گوہر پیر اور حضرت کرماں والوں کے دربار بھی گئے لیکن اس عمل سے بھی انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

اسی طرح ایک مرتبہ انہیں آپریشن کے لیے سروسز ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا بلڈ پریشرمیں زیادتی کا مرض انہیں بہت عرصے سے لاحق تھا۔ آپریشن سے پہلے ان کا بلڈپریشر کنٹرول میں کرنے کے لیے ڈاکٹر میڈیسن کا بھرپور استعمال کروا رہے تھے اور بہت حد تک کامیاب بھی تھے۔ جب انہیں بلڈپریشر کنٹرول میں محسوس ہونے لگا تو انہوں نے چند دنوں بعد آپریشن کی ہدایت کر دی۔ اسی اثنا میں، میں ہسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں اپنی کوئی کتاب انہیں بجھوادوں تاکہ وہ ہسپتال میں رہتے ہوئے وہ اسے پڑھ سکیں۔

میں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’کارگل کے ہیرو‘‘ انہیں پہنچا دی۔ خالو وہ کتاب پڑھتے رہے۔ دوپہر کو جب ڈاکٹروں نے ان کا بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ خالو کا بلڈ پریشر کو شوٹ کر گیا ہے۔ ڈاکٹروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے کونسی سی ایسی چیز کھائی ہے جس سے بلڈپریشر بڑھ گیا ہے۔ خالو نے کہا کہ میں نے کوئی ایسی چیز نہیں کھائی۔ صرف یہ کتاب پڑھی ہے تو ان کا فوجی خون جوش مارنے لگا۔ یہی وجہ ان کے بلڈ پریشر بڑھنے کی تھی۔

ڈاکٹروں نے انہیں یہ کہہ کر ہسپتال سے چھٹی دے دی کہ گھر جا کر پہلے بلڈ پریشر کنٹرول کریں پھر آپریشن کے لیے ہسپتال آئیں۔ بنک کے بعد جب میں ہسپتال گیا تو سب نے مجھے شکوے کے انداز میں کہہ کر حیران کر دیا کہ آپ کی کتاب نے آپریشن کا سارا پروگرام اپ سیٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ بات واقعی میرے لیے حیران کن تھی۔

گذشتہ دو سال سے وہ سخت علیل رہے۔ اس دوران انہیں کئی مرتبہ سروسز ہسپتال میں داخل بھی کرنا پڑا۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گھر کا ایک فرد اگر ہسپتال میں داخل ہو تو سارا خاندان گردش میں آ جاتا ہے۔ نو میں سے سات بیٹے، نواسے اور پوتے باری باری نگہداشت کی ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔ تمام بیٹیاں بھی جان نچھاور کرتی ہیں۔ بحیثیت بیگم خالہ تو کبھی اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوئی۔ بالآخر اتوار کی صبح پانچ بج کر پچاس منٹ پر وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب آنکھوں کے راستے ایک چمک سی نکلی اور مدتوں سے بے قرار جسم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قرار آ گیا اس وقت بیٹا انیس اور نواسہ سلیمان وہاں موجود تھے۔ جنہوں نے اپنے بزرگ کو اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا جو نومبر 1947کو زمین جائیدار ،والدین اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر تن تنہا پاکستان آئے تھے اور یہاں اس پاک وطن کی مٹی میں اپنا لہو شامل کیا۔ یہاں خوشیوں کے پھول کھلائے۔ یہیں شادی کی اور قوم کو ڈیڑھ درجن بچے دیئے۔ رحلت کے وقت ان کے نواسے نواسیوں سمیت خاندان کے افراد کی تعداد 60بنتی ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا
خدا کرے یہ خاندان اسی طرح پھلتا پھولتا رہے۔

اتوار کی صبح جب میں حسب معمول نماز فجر پڑھ کر واپس گھر پہنچا تو عابدہ کی آنکھوں میں باپ کی محبت کے آنسو تھے میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ابا فوت ہوگئے ہیں۔ ہمیں جلدی سے سیدن شاہ کالونی پہنچنا چاہیئے‘ ابھی ہم صوفی منزل سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ دور سے سوگواری کا احساس ہونے لگا۔ آصف ، اشفاق، نثار، فرقان، نوید رو رہے تھے۔ مشتاق موجود ضرور تھا لیکن میں نے اس کی آنکھوں میں آنسوآج بھی نہیں دیکھے شاید وہ کچھ زیادہ ہی سخت دل واقعہ ہوا تھا۔

بچھی ہوئی دری پر بیٹھ کر میں تو باوضو درودپاک کا ورد کر رہا تھا ۔ تایا مستقیم بھی ذکر اذکار میں مشغول تھے جبکہ یہاں موجود باقی لوگ سوگوار ضرور تھے‘ کوئی خاموش بیٹھا زمین کو گھور رہا تھا، کوئی سگریٹ کے کش لے کر صدمے کو کم کرنے کی جستجو میں مصروف تھا۔ اس لمحے میں نے آصف کو مخاطب ہو کرکہا تمہارے والد ایک ولی کامل تھے۔ ساری زندگی درود پڑھنے میں گزری کیا ہی اچھا ہو گا اگر ہم سب باوضو ہو کر ان کی مغفرت اور قبر میں عذاب سے چھٹکارے کے لیے درود پاک یا کوئی قرآنی کلام پڑھتے رہیں۔ فارغ بیٹھنے سے اﷲ کا ذکر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ آصف میرے کہنے پر اٹھا اور گھر سے صاف چادر لا کر بچھا دی اور اس پر گٹھلیاں رکھ دیں تاکہ یہاں موجود لوگ درود پاک کا ورد شروع کر سکیں۔ میں نے کہا جس شخص کا وضو نہیں ہے وہ کر لے تاکہ پاکیزگی کو ہر ممکن ملحوظ رکھا جائے۔ ابھی میں بات کر کے خاموش نہیں ہوا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ یہ تو قلوں کی صورت بن جائے گی۔ شہ پا کر دوسرے نے کہا دفن کرنے کے بعد درودپاک پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ چنانچہ اس لے دے میں گٹھلیاں اور چادریں اٹھانی پڑھیں اور سگریٹ نوشی کے شوقین حضرات نے ایک بار پھر سگریٹ سلگا لیے جبکہ باقی دنیاداری کی باتوں میں مشغول ہوگئے۔

اسی اثنا میں اخبار آگیا اور تمام لوگوں کی توجہ مرنے والے سے ہٹ کر اخبار کی جانب مبذول ہوگئی۔ جنازہ اٹھانے کے لیے دوپہر تین بجے کا وقت مقرر تھا آصف کے بقول خالو نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی تھی کہ موت کی صورت میں ان کی میت کو پہلے حضرت خواجہ بہاریؒ لے جایا جائے پھرنماز جنازہ حضرت میاں میر کے دربار کے احاطے میں پڑھی جائے۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں میاں میر قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔

اتوار کے دن میں صدیق اور قاری اکمل صاحب، صابر بٹ کے ہی مہمان رہے۔ جب میں نماز ظہر پڑھ رہا تھا تو دل میں گمان گزر ا کہ اگر پیرو مرشد حضرت مولانا محمد عنایت احمد جنازہ پڑھائیں تو کیا ہی اچھا ہو ویسے بھی خالو زندگی میں اس خواہش کااظہار کر چکے تھے۔ چونکہ وقت بہت کم رہ گیا تھا اس لیے امکان نہیں تھاکہ حضرت صاحب کو کوئی لینے جائے۔ ویسے بھی حضرت صاحب کی طبیعت پچھلے کئی دنوں سے خراب تھی اور بخار بھی آ رہا تھا۔ ابھی میں نماز ظہر پڑھ کے فارغ ہوا ہی تھا کہ میرے بیٹے زاہد نے آ کر اطلاع دی کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ یہ سن کر میری خوشی کی انتہانہ رہی اور بھاگتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور رب کریم کا بھی شکر ادا کیا جس نے میری آرزو اور خالو کی وصیت پوری کردی۔

تین بجے جنازہ اٹھا لیا گیا۔ گھر کے درو دیوار ایک بار پھرچیخ پکار میں گم ہوگئے۔ اس گھر اور خاندان کا سب بڑا فرد 80سال کی عمر میں وفات پا کر آخری مرتبہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہا تھا۔

اس لمحے مجھے حضرت سلمان علیہ السلام کا وہ واقعہ یاد آگیا جب ان کے دربار میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو ملک الموت نے حیرت سے دیکھا۔ تو وہ شخص خوفزدہ ہو گیا اس نے حضرت سلمان علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہوا کو حکم دیں کہ وہ اسے یہاں سے بہت دور چھوڑ آئے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا اور وہ اسے مطلوبہ جگہ پر چھوڑ آئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے پوچھا کہ تم نے اس شخص کو کیوں خوفزدہ کیا۔ تو ملک الموت نے کہا کہ میں حیران تھا کہ اس شخص کی زندگی کے چند لمحے باقی ہیں اور میں نے اس کی جان فلاں ملک میں قبض کرنی ہے اور وہ چند لمحے پہلے تک آپ کی دربار میں موجود ہے۔ آپ نے ہوا کے ذریعے اس شخص کو مطلوبہ جگہ پہنچا کر میرا کام آسان کر دیا ہے۔ پھر وقت مقررہ پر اس شخص کی جان قبض کر لی گئی۔

میں سوچ رہا تھا کہ پٹھان پروا میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کوئی کہہ سکتا تھا کہ اس نے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے لاہور شہر کے ایک قبرستان اپنی زندگی کی آخری شام کرنی ہے۔

بہر کیف جنازہ حضرت خواجہ بہاریؒ کے دربار سے ہوتا ہوا حضرت میاں میرؒ کے دربار میں آپہنچا۔ نماز عصر کے بعد سات لمبی لمبی قطاروں میں لوگ جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ حاضرین سے مخاطب ہونے کا مشرف مقامی امام کو حاصل ہوا۔ نماز جنازہ حضرت مولانا محمد عنایت احمد دام برکاتہ نے پڑھائی اس موقع پر انہوں نے فرمایا کہ اگر مرنے والا نیک انسان ہو تو باقی کو بھی جنتی بنادے گا اگر جنازہ پڑھنے والوں میں کوئی نیک ہو تو میت سمیت سب کو بخشوا دے گا۔

جنازے کے بعد جب لوگ صوفی بندے حسن خاں کا آخری دیدار کرنے لگے تو میں نے ان کے چہرے پر اتنا نور دیکھا کہ حیریت گم ہوگئی جب میری نگاہیں ان کی ادھ کھلی آنکھوں کی طرف گئیں تو وہ ایمان کی روشنی سے منور دکھائی دیں۔ اس لمحے میری زیان سے یہ الفاظ نکلے کہ جن آنکھوں نے دو مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو وہ کیسے بے نور ہو سکتی ہیں ان کا جسم ان کا چہرہ ان کی آنکھیں تمام مرنے والے کی طرح ہرگز نہیں تھیں ۔ بلکہ ان کا شمار تو ان لوگوں میں تھا جن کے بارے میں قرآن پاک میں لکھا ہے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ولیوں کو موت کا کوئی خوف اور میدان حشر کا کوئی غم نہیں ہوگا۔ نماز جنازہ کے بعد پیدل ہی چلتا ہوا میں قبرستان کے اس حصے میں پہنچ گیا جہاں تدفین ہونا تھی۔

میت کو قبر میں اتارنے کا فریضہ خالو کے معتقد اور عقیدت مند شاہد ، اور آصف نے سر انجام دیا۔ مجھے یاد ہے کہ میت قبر میں اتارنے سے پہلے جب شاہد قبرکو صاف کر رہا تھا تو ایک کیڑا وہاں رینگتا ہوا نظر آیا۔ شاید نے اسے بھی اٹھا کر راستے باہر پھینکا۔ تاکہ وہ میت کو تکلیف نہ دے سکے۔

سلیں نصب کر کے گارے سے دراڑروں کو بند کرنے کا فریضہ بھی شاہد نے ہی انجام دیا۔ پھر جب سورج درختوں کی اوٹ میں روپوش ہو رہا تھا اور آسمان پر ہر طرف ڈوبتے سورج کی سرخیاں عیاں تھی۔کسی نے اس لمحے ہوائی فائرنگ کر کے صوفی بندے حسن خاں کو آخری سلامی دی اور تجہیز و تکفین مکمل ہوگئی۔ آپ کے سرہانے کی طرف عبدالکریم اور سردارں بی بی زوجہ بابو خاں کی قبریں ہیں۔ جبکہ راستے سے بائیں جانب آپ کی دوسری قبر ہے۔ بے شک ہر جاندار کو موت تو آنی ہے لیکن اﷲ کے بندے تو ہمیشہ اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے تیار رہتے ہیں۔صوفی بندے حسن خاں بھی اﷲ کے نیک بندے تھے میں نے ان کی رفاقت کے چھبیس سالوں میں کوئی عمل ایسا نہیں دیکھا جو شریعت کے برعکس ہو۔ انہوں نے کبھی دانستہ نماز نہیں چھوڑی۔ بلکہ ان کی زبان پر ہر وقت اور ہر لمحے درود پاک کا ورد ہی جاری رہتا تھا کیا یہ امر کسی سعادت سے کم ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے کہ جو شخص جتنا درود پاک پڑھے گا قیامت کے دن وہ اتنا ہی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے نزدیک ہوگا۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784169 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.