روہنگیا مسلم:آنسوؤں اور آہوں کی روداد
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
برما کی سرزمین جہاں گزشتہ
40برسوں سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی کی جارہی ہے۔روہنگیاا راکان صوبے
پر برما 1700ء میں قبضہ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال ایڈمنسٹریشن کو
اراکان تک توسیع دی اور اراکان کے درمیان کوئی سرحد موجود نہیں تھی۔دوسری
جنگ ِ عظیم کے بعد انگریزوں نے اراکان پر قبضہ ختم کرلیا، برٹش آرمی کے
جانے کبعد جاپانی فوج نے اراکان پر ہلہ بول دیا اور اور روہنگیا مسلمانوں
کا قتل عام کیا جبکہ سینکڑوں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اس دوران چالیس
ہزار مسلمان سرحد عبور کرکے برٹش علاقے میں داخل ہوگئے۔
برما 1824 سے 1948تک انگریزوں کے قبضے میں رہا اور 4 جنوری 1948کو آزاد ہوا
لیکن مسلمانوں نے یہاں الگ صوبے کی تحریک 1947 کے دوران ہی شروع کردی
تھی۔یہ تحریک 1962 تک کافی منظم اور متحرک تھی لیکن 1962میں فوجی جنرل نے
وِن نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور جنرل نے وِن کے دورِ اقتدار میں اس تحریک
کو کچلنے کے لیے ایک بار پھر مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا
گیا۔1978میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ’’ آپریشن ڈریگون ‘‘ کیا گیا ، اسی
فوجی آپریشن کے دوران برمی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے پاکستان
میں بھی آئی ۔1982میں ایک متنازع قانون کے ذریعے انہیں شہریت سے بھی محروم
کردیا گیا۔برما میں روہنگیا مسلم حکومت کے عتاب کا شکار رہے ہیں۔برما
کیمختلف حکومتوں نے یہاں مسجدوں کی بے حرمتی کی،مساجدومدارس کی تعمیر پر
قدغن لگا دیا ،لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی ،مسلم بچے سرکاری تعلیم
سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے۔ان کے خانگی قوانین
تبدیل کیے گئے۔لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال
عمر کی تحدید کی گئی ، جب کہ شادی کے لیے حکومت سے اجازت لازمی قرار دی
گئی۔تازہ ترین حکم نامہ یہ ہے کہ روہنگیا مسلم خاتون کو پابند کیا گیا ہے
کہ ایک بچے سے دوسرے بچے کی پیدائش کے درمیان کم از کم تین سال کا وقفہ
ہونا لازمی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کی تازہ لہر دراصل تین سال پہلے شروع ہوئی۔ جون
2012میں ایک بدھسٹ لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، اور اس کا الزام
مبینہ طور پر مسلمانوں پر لگایا گیا۔ اس واقعے کے منظر عام پر آتے ہیں
آہنسا کے پرچارک، بدھا کے پیرو کار جو کہ اس لیے ننگے پاؤں چلتے ہیں کہ
کہیں پاؤں کے نیچے کوئی چیونٹی یا کیڑا نہ آجائے ، انہوں نے اپنی کینچلی
اتار دی اور دنیا نے بدھسٹوں کا ایسا بھیانک روپ دیکھا جو شاید پہلے کبھی
سامنے نہ آیا تھا۔بی بی سی ، چینل فور اور دیگر ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے
والی رپورٹس کے مطابق ان فسادات میں مسلمانوں کے 10ہزار سے زائد گھروں کو
آگ لگادی گئی، گاؤں کے گاؤں جلا دیئے گئے۔ 80ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے
گھر کیا گیا۔جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کی شہید کردیا گیا ہے اور
ان کی خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔
برما کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں
ہے۔وہ انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیتی ہے۔میانمار (برما) کی حکومت
نے انہیں رجسٹرڈ کرنے کی یہ شرط عائد کی ہے وہ اپنے آپ کو روہنگیا مسلم
نہیں بلکہ بنگلہ دیشی تارکین قرار دیدیں تو انہیں برما کی شہریت دی جاسکتی
ہے، لیکن روہنگیا مسلم اپنی شناخت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بنیادی
مسئلہ شناخت کا نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس طرح انہیں تیسرے درجے کا
شہری بنایا جائے گا، وہ مسلمان جو صدیوں سے اراکان صوبے کے رہائشی ہیں
انہیں مہاجرین کا درجہ دیدیا جائے گا اور اس طرح وہ اپنی ہی سرزمین پر
اجنبی بن جائیں گے۔
یہاں میں ضمنی طور پر اراکان صوبے کی مختصر تاریخ بھی بیان کرتا چلوں۔
اراکان میں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مسلم تاجروں کے ذریعے اسلام کی
دعوت پہنچی تھی ۔مسلم تاجر تجارت کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی
سر انجام دیتے رہے، مسلمان تاجروں کی ایمان داری ، خوش اخلاقی اور اسلام کی
سادہ اور فطری تعلیمات کے باعث وہاں آبادی کے بڑے حصے نے اسلام قبول
کرلیا۔1430 میں یہاں اسلامی سلطنت قائم کرلی گئی، یہاں کی کرنسی پر لاالہ
الا اﷲ محمدرسول اﷲ اور نیچے چاروں خلفائے راشدین کے نام کندہ ہوتے
تھے۔مسلمانوں نے یہاں مساجد تعمیر کرائیں، مدارس و جامعات قائم کی گئیں۔
مسلمانوں کی یہ حکومت تقریباً 350 سال تک قائم رہی ۔1784میں بدھسٹوں نے
اراکان صوبے پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجاد ی، اور اس کا نام بدل کر
میانمار رکھ دیا اور اسے برما میں ضم کردیا۔
جون 2012سے اب تک کم و بیش 80ہزار روہنگیا مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔
جو مسلمان کسی نہ کسی طرح وہاں سے کشتیوں کے ذریعے بھاگ نکلنے میں کامیاب
ہوئے تو انہیں ایک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑا کہ پڑوسی ممالک نے انہیں
اپنے ساحلوں پر اترنے کی اجازت نہیں دی ، اس طرح درجنوں لوگ اپنے جان سے
ہاتھ دھو بیٹھے، عالمی دباؤ پر انڈونیشیا نے انہیں مدد فراہم کی اور اپنے
ملک میں عارضی کیمپوں میں پناہ دیدی۔ جب کہ مئی 2015میں ہی یہ روح فرسا
انکشاف بھی ہوا کہ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے سرحدی جنگلات میں 30سے زائد
اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ان
روہنگیا مسلمانوں کی قبریں ہیں جن کو انسانی اسمگلروں نے حکام سے بچنے کی
خاطر موت کے گھاٹ اتار دیا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردیا ۔ خیال کیا
جاتا ہے کہ ان قبروں میں تین سو سے زائد افراد کی میتیں دفن ہیں۔
مسلم حکمرانوں میں ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان اور ان کی اہلیہ نے
پہلی بار وہاں کا دورہ کیا اور وہاں کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا، اس
موقع پر ترکی کی خاتونِ اول روہنگیا مسلمان کی خستہ حالت اور کسمپرسی کو
دیکھ کر آبدیدہ ہوگئیں ۔پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث
حکومتِ پاکستان بھی حرکت میں آئی،وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی وزیر داخلہ
نے اس حوالے سے بیانات دیئے، جبکہ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی منعقد کرکے
روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے اور ان کی مدد کرنے کا
کا فیصلہ کیا گیا، دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی خواب
غفلت سے جاگے اور انہوں نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے لیے مالی امداد کا
ارادہ کرلیا ہے۔، جبکہ گذشتہ روز سینیٹ میں اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد
بھی منظور کی گئی ہے، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اسلام میں آباد میں
اقوام متحدہ کے نمائندے سے ملاقات کی اور اس حوالے یادداشت پیش کی۔
یہاں عالمی بے ضمیری کا ذکر کرنا تو بے کار ہے کیوں کہ ان کے معیارات دہرے
ہیں لیکن میانمار کی امن کانوبل انعام پانے والی عالمی شہرت یافتہ خاتون
رہنما آنگ سان سوجی کاذکر ضرور کروں گا کہ امن کا نوبل انعام پانے والی ان
خاتون نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی پر بیان جاری کرنے سے صاف انکار
کردیا تھا۔ بہر حال روہنگیا مسلم ان وقت سخت اذیت اور عذاب کا شکار ہیں ،
ہم ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کے لیے آواز تو بلند کرسکتے
ہیں، اس حوالے سے حکمرانوں پر دباؤ تو ڈال سکتے ہیں، ا ن کے لیے دستِ دعا
تو بلند کرسکتے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کی فریاد
آنسوؤں اور آہوں کی روداد سُن
ربِ کونین میری بھی فریاد سن
آج میں دہر میں سب سے مظلوم ہوں
حق پے ہوتے ہوئے حق سے محروم ہوں
شامِ خوں رنگ ہوں ، صبحِ مغموم ہوں
جس پے چلتے ہیں خنجر وہ حلقوم ہوں |
|