ثقا فت اور رسوم و رواج کا مذہب سے بہت گہرا تعلق ہے جو
جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ خود ہی اپنے رسوم و رواج ایسے وضع کر لیتا ہے
جو نہ صرف اس مذہب سے مطابقت رکھتے ہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہوتے ہیں ۔ ہر
ملک اپنی روایات کا امین ہوتا ہے اور پاکستان تو وہ خوش قسمت ملک ہے جس کی
انتہائی مضبوط اور خوبصورت روایات موجود ہیں لیکن دوسری طرف ہماری بدقسمتی
یہ ہے کہ ہم اپنے رسوم و رواج کو بہت جلد اور آسانی سے بالائے طاق رکھ کر
دوسروں کی فرسودہ، غیر معیاری اور غیر اخلاقی روایات کو اپنا لیتے ہیں اور
پھرانہیں جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگی ، دنیا سے قدم ملا کر چلنے، جدید و
قدیم کا حسین امتزاج ، مشرق و مغرب کا ملاپ جیسے پُر فریب نام دے کر قبول
کر لیا جاتا ہے اور ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارا دشمن اس محاذ
سے بھی ہمارے اوپر حملہ آور ہے ۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تو ہم
اس پر فوج لگا دیتے ہیں لیکن نظریاتی سرحدوں پردشمن کو حملہ آور ہوتے دیکھ
کر ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اگر آنکھیں کھلی بھی ہوں توبھی اس
کی پر واہ نہیں کی جاتی بلکہ گلو بلا ئیسزیشن کا ایک ثمرہ اور نشانی قرار
دے کر مطمئن ہو لیا جاتا ہے اور آج کل تو ہمارے میڈیا نے اسے اپنا ایک
ضروری سگمنٹ بنا لیا ہے ۔ انگریزی فلمیں اور سیریز تو ایک زمانے سے ہمارے
ٹی وی پر چلتی تھیں لیکن اِن کے چناؤ اور پھر ریلیز کرنے میں بھی کافی
احتیاط کی جاتی تھی لیکن اب ایسے کسی تر دد کی زحمت ہی نہیں کی جاتی اور
خاص کر بھارت کے ڈرامے اور فلمیں تو یوں دکھائی جاتی ہیں کہ جیسے اُن کے
بغیر ہمارے چینلز چل ہی نہ پائیں گے یہ سلسلہ اُن کے اداکاروں اور ادا
کاراؤں کی خبروں سے لے کر ان کے ڈراموں میں بیہودہ لباسوں اور فلموں میں
واہیات مناظر تک جا پہنچتا ہے اور اس دوڑ میں سب کچھ جائز سمجھ لیا گیا ہے
حد تو یہ ہے کہ اداکاروں کی سالگرہ کا دن بھی بتایا جاتا ہے بلکہ ایک طرح
سے منایا جاتا ہے ۔پہلے ان کے رسوم و رواج ہماری شادیوں بیا ہوں میں داخل
ہوئے اور اب ان کی زبان ہماری زبان پر اس طرح اثر انداز ہو رہی ہے کہ اس کی
شکل جو انگریزی کے بے تحاشا الفاظ نے پہلے ہی بگاڑدی تھی مزید ہندی کے
الفاظ سے بگڑ رہی ہے اب تو ہماری خبروں میں بھی یہ الفاظ استعمال ہو رہے
ہیں مثلاََ دو ٹیموں کے درمیان مقابلے کو دو ٹیموں کے بیچ ٹاکرا بنا دیا
گیا ہے اگر چہ یہ الفاظ اردو میں مستعمل ضرور ہیں لیکن دوسرے انداز سے
دوسرے مواقع پر۔ ڈراموں اور فلموں کے تماش بینوں کے خاندان اب پریوار میں
بدل چکے ہیں ، ہمارے بچے اب زبان، ہندی کارٹون پروگراموں سے سیکھتے ہیں اور
وہ یقین کی بجائے وشواس پر زیادہ یقین رکھنے لگے ہیں ۔ اگر کوئی اِن ڈراموں
اور فلموں سے اجتناب کر بھی لے تو اشتہارات تو ان پر بہر صورت مسلط ہیں اور
کترینہ کیف ، کرینہ کپور، ارجن کپور اور معلوم نہیں کون کون سے اداکاراور
اداکارائیں ہر وقت کسی بھی بیہودہ لباس اور حرکات کے ساتھ ہمارے گھروں میں
موجود رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے اپنے ماڈلز کسی زیادہ بہتر صورت
میں ہوں وہ بھی پڑوسیوں کو مات دینے کے لیے انہیں جیسے لباس اور حرکات کے
ساتھ ٹیلی ویژن کی زینت بنے ہوئے ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں اس دوڑ میں آگے جو
نکلنا ہے اور یہ حال اب صرف میڈیا تک محدود نہیں رہا بلکہ میڈیا سے باہر کے
لوگ بھی اس کلچر میں رنگے جانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے لیڈر
صاحبان بھی ان کی مدح سرائی میں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے جب آزادی حاصل کی
تھی تو ہم نے اُن کے مذہب کے ساتھ ساتھ اُن کی ثقافت کو بھی رد کیا تھا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امن کی آشا جیسے ڈھکوسلہ ناموں کا سہارا لے کر عوام کو
بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی اچھی
باتوں کو اپنا لینے میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن اپنی تہذیب و روایات کی
قیمت پر ہر گز نہیں کجا کہ اُس سے متصادم اور اس کے الٹ ہوں۔ جہاں اسلام تو
ہمات کو ماننے سے انکار کرتا ہے وہاں ہندو معاشرہ ترتیب ہی انہی تو ہمات سے
پاتا ہے، جہاں اسلام انسانی معاشرے میں برابری کا داعی ہے وہاں اُس معاشرے
میں ذات پات کا غیر انسانی اصول رائج ہے اور کم یا زیادہ یہ سب کچھ کسی نہ
کسی صورت میں اُن ڈراموں کا حصہ رہتا ہے جو ہمارے چینلز بڑی با قاعدگی سے
دکھاتے ہیں اور یوں یہ چیزیں ہماری معاشرتی اقدار پر اثر انداز ہوتی ہیں
لیکن باقی سارے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہی اصول ہمارے میڈیا نے
اپنایا ہوا ہے اور وہ ہے سرمائے کا حصول جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے
کو تیار رہتا ہے لیکن یہاں ساری ذمہ داری میڈیا پر ڈال کر معاشرے کے دوسرے
طبقوں یا افراد کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔مثلاََ ہماری قومی
صنعت کو ہی لیجئے جو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے بھارتی اداکاراؤں کا
سہارا لیتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی لان کو بیچنے کے لیے بھارتی اداکارہ
کا سہارا لینا کہاں کا انصاف ہے اور پھر عوام کا جوق در جوق اس لان کا
خریدنا اور وہ بھی اس اشتہاری گر کی وجہ سے ہمارے افسوسناک قومی رویے کا
غماز ہے یوں عوام کو بھی اس جرم سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا جس نے
ہماری معاشرتی روایات میں دراڑیں ڈالنے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ اس خرابی
کی ذمہ داری میں ہماری حکومتیں بھی شریک ہیں جنہوں نے جانے کون سی وجوہات
کی بنا پر لیکن اس بات کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ ہمارے اپنے سنیماؤں میں
ان کی فلمیں، ہمارے ٹی وی پر اُن کے ڈرامے اور ہمارے ٹاک شوز میں اُن کے
نظریات کی مدح سرائی بلکہ دو قومی نظرئیے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش مسلسل
جاری ہے ۔اس رویے کو روکنے کے لیے ہمیں ہر سطح پر کام کرنا ہے ،حکومت اگر
یہ اجازت واپس لے لے ،ہمارے سنیما اور کیبل کو ان پروگراموں سے روکے، ہمارا
میڈیا قومی نظریات کے تقاضوں کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دے ،ہمارا عام
معاشرہ اور اس کے افراد ان کو مسترد کر دے اور ہمارے والدین اپنے قیمتی وقت
میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے بچوں کو ان قومی تقاضوں سے متصادم پروگراموں
کو دیکھنے سے روکے تو ہم اپنے معاشرے پر اس نظریاتی حملے کو روک سکیں گے
اورپھر شاید تاریخ کی جوابدہی میں ہمارے لیے آسانی ہو ورنہ ہم اپنے جرائم
پر حال میں تو پر دہ ڈال سکیں گے لیکن مستقبل جب یہ پردہ اٹھائے گا تو ہم
خدا نخوستہ اپنی قومی شناخت سے ہی ہاتھ دھوچکے ہونگے اور بے شناخت قومیں بے
وجود بھی ہوتی ہیں اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنی پہچان چاہیے یا
عارضی نفع اور دولت۔ |