فقر
(Hamid Jamil, Gujranwala)
فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔
عام طور پر اس سے تنگ دستی' غربت' مفلسی اور ناداری مراد لی جاتی ہے۔ دینِ
اسلام میں ''فقر'' سے وہ راہ یا وہ طریق مراد ہے جو بندے اور اللہ کے
درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا کر بندے کو اللہ کے دیدار اور وصال سے فیض
یاب کرتا ہے۔ ''فقر'' دراصل دینِ اسلام کی حقیقت ہے۔ جو اولیاء کرام اور
ہمارے سلف صالحین کا اللہ تک رسائی کا طریقہ رہا ہے لیکن دورِ جدید کے
علمائے کرام اور مغرب زدہ طبقہ نے اس طریق اور علم سے ناواقفیت کی بنا پر
عوام الناس کی توجہ اس راہ سے ہٹا کر ظاہریت پرستی کی طرف مبذول کرا دی ہے
اور عوام روح اور اللہ کے تعلق کو بھلا کر صرف جسمانی اعمال و عبادات میں
الجھ گئے ہیں۔ آج مسلمان بھی اس لفظ ''فقر'' اور اس کی حقیقت سے اتنے ہی
ناآشنا ہیں جتنے غیر مسلم ۔حالانکہ ہمارے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
نے فقر کو اپنا فخر فرمایا ہے اور اسے بطور خاص اپنی ذات سے منسوب فرمایا
ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
الفقر فخری والفقر منی
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے حساب کمالات اور اوصاف سے
نوازا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی کسی خوبی پر فخر نہیں
فرمایا۔ صدق پر نہ عدل پر' نہ تقویٰ و صبر پر' نہ سخاوت پر نہ شجاعت پر' نہ
ترک نہ توکل پر' نہ فصاحت و بلاغت پر' نہ حسن پر' نہ صادق و امین ہونے پر
اور نہ نسب پر حتیٰ کہ مشکوٰۃ المصابیح میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم نے فرمایا ''میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن اس پر فخر نہیں۔'' آپ صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف اور صرف فقر پر فخر فرمایا۔ اسی طرح حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام تمام علومِ دین کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔ قرآن و حدیث' فقہ'
تمام بنیادی عقائد و عبادات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی اُمت کو
حاصل ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی علم کو اپنی ذات سے
منسوب نہ فرمایا سوائے فقر کے۔
''فقر'' یعنی روح کے اللہ تعالیٰ سے قرب کی وہ انتہا جہاں روح اللہ کا
دیدار اور اللہ سے وصال کی تکمیل پاتی ہے' معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ سے
اپنی امت کے لیے تحفتاً مانگ لیا۔ چنانچہ ظاہری پاکیزگی کے لیے نماز اور
روزوں کا تحفہ ملا اور باطنی پاکیزگی کے لیے فقر کا نور عطا کر کے دیدارِ
الٰہی کی راہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کھول دی گئی۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے جب بھی کسی نبی نے دیدارِ الٰہی کی التجا کی
تو انہیں ''لن ترانی‘‘یعنی ''تو ہرگز نہیں دیکھ سکتا ''کی صدا سننا پڑی
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے وسیلے
سے اُن کی اُمت کو اپنے دیدار کی نعمت عطا کی جو اس کائنات کی سب سے اعلیٰ
نعمت ہے اور اس لذتِ دیدار سے بڑھ کر اور کوئی لذت نہیں۔ اسی نعمت کے حصول
کی خاطر تمام انبیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں شامل ہونے
کی دعا کی تھی اور اللہ کی اسی عنایتِ خاص کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کو تمام انبیاء پر اور اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو
تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان
مبارک ہے:
الفقر فخری والفقر منی فافتخر بہ علیٰ سائرِ الانبیاءِ والمرسلین
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔ اور فقر ہی کی بدولت مجھے
تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔(عین الفقر)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ‘‘الفقر شین عند الناس وزین عند
اللہ فی القیٰمتہ‘‘
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فقر لوگوں کی نگاہ
میں معیوب و حقیر ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد گراں قدر
چیز ہوگی''۔
ایک اور حدیث پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ''فقر دنیا میں
مومن کے لیے (اللہ تعالیٰ کا) تحفہ ہے۔'' (مکاشفۃ القلوب، باب فضیلتِ فقراء
از امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ)
مزید فرمایا کہ الفقر عز لی اھلہ ترجمہ:''فقر اس کے اہل کے لیے موجبِ عزت
ہے''
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیدارِ الٰہی کی نعمتِ فقر کو اللہ کے
خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیا کیونکہ اس خزانے کو حاصل کرنے والا دنیا
و آخرت کی تمام نعمتوں' آسائشوں اور خزانوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ جسے
تمام خزانوں کا مالک ( اللہ) مل جائے اسے باقی خزانوں کی کیا ضرورت ہے۔آپ
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
الفقر کنز من کنوز اللہ تعالیٰ
ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
فقر کا یہ خزانہ روح کی معراج پر بصورتِ وصالِ حق تعالیٰ بندے کو عطا ہوتا
ہے۔ معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب و
وصال کی انتہا کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قرآن پاک میں ان الفاظ میں
بیان فرمایا ہے:
فکان قاب قوسین او ادنیٰ
ترجمہ: پھر( اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان) صرف
دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم۔
‘‘او ادنیٰ‘‘(اس سے بھی کم فاصلہ) کی تفصیل کوئی نہیں جانتا کہ اللہ اور اس
کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان قرب کی انتہا کیا تھی البتہ
معراج کے بعد نازل ہونے والی کچھ آیات اس قرب و وصال کی انتہائی صورت یعنی
یکتائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
وما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمیٰ
ترجمہ: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (میدان جنگ میں) دشمنوں کو جو
کنکریاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ماریں وہ دراصل (آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم نے نہیں بلکہ) اللہ نے ماریں تھیں۔
ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ
ترجمہ: جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی انہوں نے
(درحقیقت) اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
وما ینطق عن الھوٰی
ترجمہ: وہ (نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنی مرضی سے کچھ نہیں
بولتے۔
ایک حدیث قدسی میں بھی بندے کے اللہ سے وصال کی اسی صورت کو بیان کیا گیا
ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لا یزال عبدی یتقرب الیٰ بالنوافل حتیٰ احببت فکنت سمع الذی یسمع بہ وبصرہ
الذی یبصر بہ ویدہ التی یبطش بھا ورضلہ التی یمشی بھا
''جب بندہ زائد عبادات سے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس کی آنکھ بن جاتا
ہوں وہ مجھ سے دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ مجھ سے سنتا ہے' میں
اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ مجھ سے پکڑتا ہے' میں اس کی زبان بن جاتا ہوں وہ
مجھ سے بولتا ہے' میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں وہ مجھ سے چلتا ہے۔''
فقر دراصل روحانیت کی وہ معراج اور کمال ہے جب روح نورانیت اور پاکیزگی کی
اس انتہا کو چھو لیتی ہے جہاں وہ اپنے پاک ربّ سے یوں وصال پالیتی ہے جیسے
قطرہ سمندر سے مل کر خود سمندر ہو جاتا ہے۔ فقر کی انتہا خود کو اپنے رب کی
ذات میں یوں گم کر دینا ہے کہ انسان کا اپنا وجود ختم ہو جائے اور باقی رہے
وہ ذات جسے دائمی بقا ہے۔ فقر کے اسی انتہائی مقام پر پہنچ کر حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام ذاتِ الٰہی کے کامل مظہر بن گئے۔ جیسا کہ مولانا روم رحمتہ
اللہ علیہ نے فرمایا:
مصطفیٰ آئنہ روئے خداست
منعکس در وے ہمہ خوئے خداست
ترجمہ: مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے چہرے کا آئینہ ہیں
اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہر صفت ان میں منعکس(ظاہر) ہے۔
اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فقر (دیدار و وصال الٰہی)
مجھ سے ہے۔'' یعنی میری ذات ہی 'فقر' ہے۔
من رانی فقد رای الحق
ترجمہ:''جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق کو دیکھا۔''
یعنی جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت کو پہچانا اس نے اللہ کو
پہچانا ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کر لیا وہ بھی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی ہوگئے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہٖ وسلم سے فقر کی یہ نعمت فقر کی پہلی سلطان حضرت فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا نے حاصل کی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کی حقیقت تک
رسائی حاصل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فاطمہؓ مجھ سے
ہے۔'' پھر بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کی ذات میں فنا ہو کر حقیقتِ فقر کو پاگئے تو فرمایا ''علیؓ مجھ سے
ہیں۔'' پھر حسنین کریمین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو یہ خزانہ عطا
ہوا تو فرمایا: ''حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
مجھ سے ہیں۔'' پھر یہ خزانۂ فقر سینہ بہ سینہ اُمت کو منتقل ہوا۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا ہر اُمتی جو اُن سے سچا عشق رکھتا ہے اور اُن کے واسطے
سے اپنے ربّ سے ملاقات کا خواہاں ہے' اس خزانۂ فقر کا وارث ہے۔جیسا کہ
اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا :
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفیٰ است
ترجمہ: فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کا نام ہے۔ یہ حضرت محمد مصطفی صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی میراث ہے اور ہم اس کے وارث ہیں۔
فقر و شاہی وارداتِ مصطفیٰ است
ایں تجلیات ِ ذاتِ مصطفیٰ است
ترجمہ: فقر اور شاہی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانب سے وارد اور
عطا ہوتے ہیں یہ سب ان کی پاک ذات کی تجلیات ہیں۔
ہر اُمتی اپنی اپنی استعداد اور توفیق کے مطابق راہِ فقر اختیار کر کے
روحانیت کی وہ معراج پاسکتا ہے جہاں وہ اپنے رب کا دیدار کرے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ''نماز مومن کی معراج ہے'' میں ہر مومن کو معراج
کی خوشخبری سنا دی گئی ہے البتہ خواہش اور کوشش اُس کے اپنے ذمہ ہے۔
راہِ فقر ان تمام مومنین کی راہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام نازل
کیا اور جن کی راہ اختیار کرنے کی ہم سورۃ فاتحہ میں دعا مانگتے ہیں۔ فقر
ہی وہ صراطِ مستقیم ہے جو بندے کو سیدھا اس کے رب سے ملاتا ہے۔ حضرت علی
کرم اللہ وجہہ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
مَن احبنا اھلِ البیت فلیستعد للفقرِ جلبانا
ترجمہ:''جو اہلِ بیت سے محبت کرے اسے جامۂ فقر پہننے کے لیے تیار ہو جانا
چاہیے''۔ (نہج البلاغہ)
حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو جب اللہ تک
معراج نصیب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا:
''اے غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے اصحاب اور احباب سے کہہ دو اگر
میری صحبت چاہتے ہیں تو فقر اختیار کریں۔ جب اُن کا فقر پورا ہوجائے تو وہ
نہیں رہتے بجز میرے۔ (رسالۃ الغوثیہ) پھر فرمایا ''اے غوث الاعظم رضی اللہ
تعالیٰ عنہٗ ! جب تم کسی فقیر (وہ انسان جو فقر کی انتہا تک پہنچ جائے) کو
اس حال میں دیکھو کہ وہ فقر کی آگ میں جل گیا ہے اور فاقہ کے اثر سے شکستہ
حال ہے تو اس کے قریب ہو جاؤ کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی پردہ
نہیں۔'' (رسالۃ الغوثیہ)
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی تصنیف سرّ
الاسرار میں فقر کی تعریف بڑے جامع انداز میں فرماتے ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:
''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ''فقر میرا فخر ہے اور میرے لیے باعث
افتخار ہے'' میں 'فقر' سے مراد وہ فقیری (غربت و افلاس) نہیں جو عوام میں
مشہور ہے بلکہ یہاں حقیقی فقر مراد ہے' جس کا مفہوم اللہ کے علاوہ کسی بھی
اور کا محتاج نہ ہونا اور اس ذاتِ کریم کے علاوہ تمام لذات و نعم کا بجان و
دل ترک کر دینا ہے۔ جب انسان اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے تو یہی مقام فنا
فی اللہ ہے کہ اس ذات وحدہٗ لاشریک کے سوا انسان کے وجود میں کسی اور کا
تصور تک باقی نہ رہے اور اس کے دل میں ذات خداوندی کے علاوہ کسی اور کا
بسیرا نہ ہو۔''
فقر کے متعلق آپؓ مزید فرماتے ہیں:
شانِ فقر موٹے کپڑے پہننے اور بے مزہ کھانا کھانے میں نہیں۔ شانِ فقر تو
تیرے دل کے زُہد اختیار کرنے میں ہے۔ (الفتح الربانی)
فقر و تصوف جدوجہد کا نام ہے اس میں کسی بیہودہ چیز کی آمیزش نہ کر۔ اللہ
ہمیں ا ور تمہیں اس کی توفیق کی ارزانی کرے۔ (فتوح الغیب)
حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
فقر ایسی صفت ہے کہ اللہ کی خاص مخلوق کے لیے زیبا ہے۔ (کشف المحجوب)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقر دنیا میں آخرت کے غنا کی چابی ہے۔
حضرت شیخ ابراہیم الخواص رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقر شرف اور بزرگی کی چادر، مرسلین علیہم السلام کا لباس اور صالحین کے
اوڑھنے کی چادر ہے۔
تحریر؛ ‘‘خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ
الاقدس‘‘‘ |
|