برمی مسلمان قہر مسلسل میں

برما(میانمار) میں مسلم کش فسادات کا آغازمارچ2013 سے ہوگیا تھا اس سے پہلے بھی بدھ مت کمیونٹی جو برما کی نوے فیصد اکثریتی آبادی ہے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی ساتھ لڑائی کرتی رہی ہے۔برما میں مسلمانوں کی تعدادچار فیص ہے اور اگر افراد کی گنتی کریں تو تقریبابیس لاکھ سے زائد مسلمان برما میں بستے ہیں جن میں اکثریت کو ابھی تک برما نے اپنا شہری تسلیم نہیں کیا۔برما کی آبادی کی ٹوٹل تعداد 11ملین سے زائد ہے ۔برما کے اکثریتی مسلمان سنی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔برمی نسل کے مسلمانوں کی تاریخ آٹھویں عیسوی صدی سے ملتی ہے لیکن تیرھویں اور چودھویں صدی میں برما میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جب مسلمان تجارت اور دیگر مقاصد کی غرض سے آئے۔ان میں کچھ چائنا نسل کے مسلمان ہیں جن کے آباوٗاجداد تیرھویں صدی عیسوی میں سیٹلڈ ہوئے۔کچھ مسلمان انیسیوں صدی میں بھی سلطنت یونان سے داخل ہوئے۔اس کے علاوہ جنوبی برما ریاست راکھائن میں مالے اور پاشو مسلمانوں کی آبادی موجود ہے۔

جب سلطنت برطانیہ نے برصغیر کو اپنے تابع کیا تو اس وقت بھی مسلمانوں نے برما میں بطور مہاجر، تاجر اور مزدور بن کے ہجرت کی۔دوسری جنگ عظیم سے قبل ایک تہائی ہندوستانی مسلمان تھے اور اس وقت ایک ملین سے زیادہ ہندوستانی بھی برما میں موجودتھے جبکہ اس وقت برما کی آبادی سولہ ملین سے زائد نفوس پر مشتمل تھی۔1942میں کثیر تعداد میں لوگوں نے برما سے نکلنے پرمجبور ہوئے جب جاپان نے برما پر چڑھائی کی اور کچھ مسلمانوں نے برما سے ہجرت کی برما کی آزادی1948 کے چودہ سال بعد1962 میں جب فوج نے برما پر قبضہ کرلیا۔یونکہ اس وقت ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت ہوگئی تھی۔

1947میں آزادی سے ایک سال قبل برما میں جو آئین منظور کیا گیا اس وقت مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو برابر کے حقوق دئے گئے لیکن 1960 میں بدھ مت مذہب برما کا سرکاری مذہب بنادیا گیا جو حقوق دوسری اقلیتوں کو دیئے گئے تھے وہ سارے اس کے ساتھ ہی ختم ہوگئے۔1962 کی فوجی حکومت نے مسلمانوں کا استحصال شروع کردیا اور مسلما نوں کو کسی بھی فوجی یا سول ادارے حتی کہ کسی دفتری ملازمت کی اجازت تک نہ دی گئی۔مساجد کو شہید کردیا گیا،اسلامی سکول و مدارس پر پابندیاں لگادی گئیں اور مسلمانوں کے قبرستان تک تباہ کردئے گئے ۔

برما میں رہنے والے مسلمان اب مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں چین،بنگالی اور برمی مسلمان ہیں۔مسلم کش فسادات برما میں وقفے وقفے سے جاری رہے۔1997میں برمی شہر منڈالے میں مسلمانوں پر تشدد کیا گیا بستیوں سے بے دخل کردیاگیا پھر2001میںToungoo اور Sittweکے مسلمانوں پر زمین تنگ کی گئی یہ سلسلہ کچھ عرصہ تھمنے کے بعد 2012میں تقریبا52ہزارمسلمانوں کو گھروں سے بے دخل کردیا اور سینکڑوں کی تعداد میں قتل کردیا گیا۔20, مارچ2013 کو زیادہ کشیدگی شہرMeiktila میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک مسلم دکاندار اور ایک بدھ مت گاہک میں کسی لین دین پر بحث ہوئی جس کا نتیجہ لڑائی کی صورت اختیار کرگیا پھر اسی ن بدھ متوں نے اس لرائی کا بدلہ لینے کے لئے ایک گروہ بنایا جس نے اس مسلمان کی دکان تباہ کردی اس اٹھنے والی چنگاری میں صرف دودن میں ہی چالیس سے زائد لوگ مارے گئے اور ساٹھ سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔پھر مسلمانوں نے ایک بدھ راہب کو زندہ جلادیا جس سے حالات کشیدہ ہوگئے پھر بائیس مارچ کو ہی ایک بدھ گروہ نے ایک مسلمانوں کے Mingalar Zayone Islamic Boarding School پر حملہ کردیا جس میں 32مسلم طلباء اور چار اساتذہ کو قتل کردیا گیا۔25مارچ کو مسلمانوں کی مساجد اور بستیوں پر دھاوا بولا گیا 9,000 لوگوں کو بے دخل کردیا گیا۔بی بی سی نے مئی میں ایک ویڈیو لیک کی جس میں Meiktila شہر میں ہونے والاے فسادات میں برمی پولیس افسران کو سکول طلباء کا قتل کرتے دکھایا گیا ہے ۔21مئی کو عدالتی فیصلہ ہوا جس میں سات مسلمان جن میں وہ دکاندار اور اسکی بیوی کو 28سال کی قید کی سزا سنادیاور 25بدھ مت کو 15سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔اپریل 2013 میں انڈونیشیا مہاجر کیمپ میں مسلمانوں اور بدھ متوں میں لڑائی ہوئی جس میں آٹھ بدھ ہلاک ہوگئے 5 اگست کو جکارتہ میں بدھ مت عبادت گاہEkayana Buddhist Centre کے قریب بم دھماکہ ہوا جس میں تین سو کے قریب لوگ زخمی ہوگئے جس کی وجہ سے حالات مزید کشیدگی کی طرف بڑھتے گئے اور بدھ متوں نے یہ ٹھان لیا کہ برما صرف بدھ متوں کا ہے بلکہ مسلمانوں کو دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ یہ سلسلہ اب چار پانچ سالوں سے تھمنے میں نہیں آرہا حالیہ سالوں میں برمی نام نہاد امن پرست بدھ متوں نے مسلمانوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے جو تاریخ میں بھی نہیں ملتے ۔اور اب تقریبا 25ہزار سے زائد انسان کھلے سمندر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو برما میں رہ گئے وہ روزانہ بدھ متوں کی حیوانیت کا نشانہ بن رہے ہیں۔بدھ مت برما کے مسلمانوں میں لڑائی کرنے کی سکت بالکل نہیں ہے اور نہ ہی آج تک برمی مسلمانوں نے نہ کوئی مضبوط تنظیم بنائی جو ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرسکے کچھ تنظیمیں بنائی گئیں لیکن انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا جس کی بنیادی وجہ برمی مسلمانوں کو نہ ملنے والے شہری حقوق ہیں جن میں تعلیم اور ملازمت ہیں جو آج تک مسلمانوں کو نہیں دی گئی۔اس
کے علاوہ ہونے والے ان مظالم کو روکنے کے لئے کسی مسلم ملک نے کوئی خاطر خواہ احتجاج نہیں کیا۔ترک وزیراعظم اور ان کی اہلیہ نے حالیہ سال برمی مسلمانوں کے پاس پہنچے اور انہوں نے اقوام عالم کو اس ہونے والے ظلم رکوانے کے لئے آواز بلند بھی کی اور اب بھی ترک وزیراعظم ہی سب سے آگے دکھائی دے رہے ہیں ۔اور ان روہنگیا مسلمانوں کی مالی مدد بھی کررہے ہیں۔

جناب طیب اردگان مسلمانوں کی ایمد اور ہیرو بن کر سامنے آرہے ہیں۔

برما سے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیش اور ملائشیا نے قبول کرنے سے انکار کردیا اورسمندر کنارے سے ہی انہیں واپس بھیج دیا حالانکہ بنگلہ دیش تک آنے والے روہنگیا مسلمان نسلی طور پر بنگالی ہی ہیں ۔واحد ملک انڈونیشیا ہے جس نے ان لوگوں کے پناہ دینے کی حامی بھری ہے لیکن وہ بھی بہت قلیل تعداد میں ہیں لیکن ابھی تک 25ہزار سے بھی زیادہ روہنگیا کے مسلمان کھلے آسمان اور سمندر پر رہنے پر مجبور ہیں۔ان حالات و اقعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی لوگوں تک رسائی دی گئی جبکہ الیکٹرانک میڈیا نے اب تک خاطر خواہ کوئی کوریج نہیں دکھائی ۔مغرب کے انسانی حقو ق کے سب سے بڑے نا م نہاد علمبرداراور عالم اسلام کے ذرائع ابلاغ کے ادارے ابھی تک خاموشی دکھارہے ہیں۔

مسلم حکمران جو دنیا میں ایک مضبوط ترین طاقت رکھتے ہیں لیکن ایک اتفاق جیسی طاقت آج تک حاصل نہیں کرپائے بلکہ اب مزید نفاق میں دبے چلے جارہے ہیں عرب سے لے کر ایشیاء تک سب حکمران اپنے اقتدار اور حوس کو طویل کرنے کے لئے امت پہ ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں بلکہ ’ڈھیٹ پن‘کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اپنی بادشاہی کی خاطر مسلمانوں کی جانوں سے مسلسل کھیلا جارہا ہے۔عیسائیت اور یہودیت اپنے پنجے دنیا میں پھیلا کر ایک طرف ہوچکے ہیں اور ترقی کی طرف مسلسل گامزن ہیں مسلمان مذہبی منافرت ،فرقہ پرستی،لسانیت پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ہندوتوا منافق گروہ بھی مسلمانوں کو اپنے زیرنگیں کئے ہوئے ہے بلکہ ان فرقہ پرستی اور لسانیت کی لگی اغ پر حسب روایت تیل چھڑک رہا اور اتنا مضبوط ہوچکا ہے اور کھلی دھمکیاں دے رہا ہے اسی وجہ سے آج بدھ مت جیسا نیچ اور غلیظ طبقہ مسلمانوں کو کاٹ پھینک رہا ہے اور مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف عمل ہیں جس سے بدھ مت وحشی انسانیت کو پس پشت رکھ کر قہر مسلسل میں لگے ہوئے ہیں۔

امت محمدیہ آج آپس کے فتنوں میں اس طرح پھنس چکی ہے کہ آج مارے جانے والے نے گناہ مسلمانوں کی جانوں کا کوئی احساس نہ رہا جن کے بارے میرے آقا حضرت محمدﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس طرح جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے اور اسے سارا جسم محسوس کرتا ہے اس طرح مسلمان بھی اپنے بھائی کی تکلیف کو اس طرح محسوس کرتا ہے‘‘لیکن اس روشن دن کا انتطار تو رہے گا کہ جب مسلم اس حدیث کو سمجھ کر ایک ہی صف میں شامل ہوں گے اور اس ظلم کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
 
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 44761 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.