حقیقت میں تو میں بہت سارے کام
اپنے اخراجات اور آمدانی کوتوازن میں رکھنے کیلیے خود کرتا ہوں مگراپنے
حلقہ احباب میں سلیقہ مند گردانہ جاتا ہوں۔جب میرے بہت پیارے نے اپنا فلیٹ
مجھے رہنے کیلیے دیا تومجھے اسمیں بہت سا کام کرنا لازمی لگا اور حسب بیان
میں خود ہی وہ سارے کام کرنے میں لگ گیا۔ ایک دو دن تو کچھ نہیں ہوا مگر
بعد میں احساس ہوا کہ اب عمر کافی گزر گیٔ ہے اور جسم اب مزید بچت کرانے
میں ساتھ نہیں دے سکتا۔ ان حالات نے مجبور کیا کہ وہ ملبہ جو فلیٹ میں جمع
ہو چکا اسکو ٹھکانے لگانے کیلیے کسی مزدور کی خدمات حاصل کی جائیں۔
دوپہر کا وقت تھا میں مزدور کو لے نے کیلیے اپنی بلڈنگ کے قریب کی چورنگی
تک چلا گیا جہاں صبح ہی مزدور اپنے اور اپنے گھرانے کے نصیب میں لکھی روزی
یا بھوک تلاش کرنے کیلیے آبیٹھتے ہیں اور شام ڈھلے تک اپنی آس کو زند ہ
رکھے قیمتی گاڑیوں میں سوار لوگوں کو اس امید پر دیکھنے بیٹھے رہتے ہیں کہ
شاید انمیں سے کویٔ انکے جسم و جاں کا عارضی مالک بننے والا ہو۔ جسیے ہی
میں اس چورنگی پہ پہنچا کیٔ مزدور لپک کرمیری طرف آگے ٔ۔مجھے انکی تعداد
دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آج بہت سارے بعیر مزدوری کے رہ گے ٔ ہیں اسلیے طلب و
رسد کے قانون کے مطابق میں اپنی من چاہی قیمت پر مزدور حاصل کر سکتا ہوں ۔
میں نے مزدورں پر ایک نظر ڈالی اور پھر اطراف پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا
کہ جو مزدور میرے چاروں طرف جمع ہیں سب ہی جوان اور صحتمند ہیں یعنی درجہ
اول کا مال ہیں لہٰذا انکا بھاو ٔ بھی زیادہ ہوگا۔ جبکہ کچھ عمر رسیدہ
کمزور مایوس اور تھکے ہوے ٔ سے مزدور کچھ دور ایک بین الاقوامی پیزا ہاوس
کے اشتہار ی بورڈ کے ساے ٔ تلے بیٹھے میری طرف دیکھ رہے تھے کہ اگر رب کی
رضا ہوی تو میں انمیں سے کسی کو میتخب کرلونگا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں ان
مایوس اور شاکر مزدورں سے زیادہ اچھا بھاو ٔ تاو ٔ کرسکتا ہوں۔
کیونکہ میرا کام زیادہ نہیں تھا اسلیے مجھے کوی ٔ سستا سا مزدور چاہیے تھا۔
میں درجہ دویٔم کے مزدورں کی طرف بڑھ گیا اور انکی بھی نظر سے چھانٹی کرنا
شروع کردی اور آخر کار مجھے ایک مزدور پسند آہی گیا جو ہر شہ سے لاتعلق
زمین پر اپنے بیلچے سے کچھ لکیریں بنا رہا تھا۔میں اُسکی طرف بڑھ گیامجھے
اپنی طرف آتا دیکھکر وہ ایسے تن کر بیٹھ گیا کے جیسے اگر میں کہونگا تو وہ
ہمالیہ کو بھی ریت کے ٹیلے میں بدل دیگا ۔
ــ" کچھ ملبہ چھٹی منزل سے نیچے اتروا کر نیچے کچے علاقے میں ڈلوانا ہے
کتنے پیسے لو گے؟" میں نے کام کو اصل مقدار سے بھی کم بتایا کہ ایک دفعہ یہ
کام پر لگ گیا تو پھر اسکی کچھ نا سنونگا۔
" ملبہ کتنا ہے؟" اسنے بھی ایک ماہرِمزدوریات کی طرح سوال کر ڈالا
" یار تم شام تک کی مزدوری بتاو ٔ کام تو اُس سے پہلے ختم ہو جاے ٔ گا؟"
میں نے فایٔنل کرنے والا استادی داو ٔ مارا ۔مزدور سمجھ گیا کہ زیادہ حساب
کتاب میں آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل سکتا ہے
" صاحب صرف چھ سو روپیے ہونگے اور رات سات بجے تک کام کرونگا ـ "اسنے امید
بھرے لہجے میں کہا
" چھ سو! یار یہ تو بہت زیادہ ہیں ویسے بھی آدھا دن تو گزر گیا ہے اب تو
آدھی مزدوری ہونی چاہیے" گو کہ میں اندر سے راضی تھا مگر چاہتا تھا کہ آج
اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ اس پر کردوں۔
" اچھا تو سو کم دے دینا۔ـ" یہ کہکر اسنے اپنا بیلچہ اسطرح اٹھایا جیسے جان
گیا تھا کہ اب میں راضی ہوے ٔ بغیر نہیں رہ سکتا۔
" نہیں میں چار سو دونگا چلتے ہو تو چلوـ" یہ کہکر میں نے بھی آخری چانس
لیا
" چلو کیا یاد کرو گے" یہ کہکر وہ مزدورکھڑا ہوگیا
ابھی میں اپنی صلاحیتوں پر اندر ہی اندر خوشی منا رہا تھا کہ کسطرح میں نے
آج طلب و رسد کے معشیات کے پڑھے ہوے ٔ نظریات کو عملی طور پر استمعال کیا
اور اس جاہل مزدور کو چاروں خانے چت کر دیا تھا کہ ایک دم کاغذ کی ایک پرچی
ہوا میں اڑتی ہویٔ میرے منہ پر آکر چپک گیٔ جو کے اسی بین الاقوامی پیزا
ہاوس کی تھی جس کے بورڈ کے ساے ٔ تلے یہ مزدور بیٹھا تھا۔ میری نظر نا جانے
کیوں خود بخود اُس پرچی پر پڑگیٔ وہ پرچی اسی تاریخ کو کچھ منٹ قبل جاری
ہویٔ تھی اور اسمیں لکھا تھا " ایک ریگولر پیزا بمعہ کولڈ ڈدنک اور جی ایس
ٹی صرف گیارہ سو پچیانوے ٔ روپیے ٔ" |